اللہ اللہ‘ کیسے لوگ تھے۔ کیسی اجلی زندگیاں جی گئے۔ شاید یہ انہی کی یاد ہے‘ جو لاشعور کے دھندلکوں سے ابھرتی اور کہرام مچاتی ہے۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں
سوچا‘ کمرے میں نماز نمٹا دوں۔ مسافر کی عبادت کیا‘ دو رکعتیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر مسلم نے مگر اصرار کیا کہ مسجد ملحق ہے اور کرسیاں بھی رکھی ہیں۔ دروازے کے ساتھ بچھی ہوئی‘ نئی خوبصورت دری اور سنہری دھوپ۔ اقبال نے کہا تھا:
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی‘ سرمستی و رعنائی
آلودگی سے پاک تازہ ہوا اور صحرائی شہر کی مہربان دھوپ کا جمال۔ رحیم یار خان کی گلیوں میں کیسا جادو ہے۔ موم کی طرح دل پگھلنے لگا‘ آنکھ بھر آنے لگی۔ اپنے آپ سے میں نے پوچھا: کوئی درد نہ مسرت کا وفور‘ پھر جذبات کی یہ فراوانی کیسی؟ بارہ سے انیس سال کی عمر تک‘ زندگی کے صرف آٹھ برس اس دیار میں بیتے۔ لڑکپن سے جوانی تک۔ 1963ء میں چک 42 جنوبی سرگودھا سے ہجرت کی تھی مگر یہ قریہ اس طرح دل میں آباد ہوا کہ تاب لانا مشکل ہے۔
پینتیس برس ہوتے ہیں۔ اسی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ کے باہر نکلے۔ ذرا سی دیر کو‘ محفل جم گئی۔ مشہور معالج اور مفسرِ قرآن‘ میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم‘ بلدیہ رحیم یار خان کے میئر میاں عبدالخالق۔ اخبار نویس کی حیثیت سے تعارف کا آغاز تھا۔ غالباً میاں عبدالخالق نے چاچا مہنگا سے پوچھا۔ اس نوجوان کو پہچانا؟
پوری سنجیدگی سے چاچے نے کہا: پہچانا؟ میں نے اسے بھگتا ہی بہت ہے۔ ایک زبردست اجتماعی قہقہہ اور پھر کوئی دوسرا موضوع۔ چاچے کا اشارہ ڈیڑھ عشرہ پہلے کے ان ایام کی طرف تھا‘ جب طارق چودھری‘ محمد امین‘ اطہر مسلم‘ مشتاق جاوید اور یہ بے تاب‘ ان کے کھیتوں سے سنگترے‘ خربوزے‘ گنے اور جب یہ میسر نہ ہوں تو چقندر چرایا کرتے۔ تب بھی اور اس سے بڑھ کر بعد کی زندگی میں بے شمار نعمتیں قدرت نے ارزاں کیں۔ چٹورے پن کے سب تقاضے ہمیشہ پورے کیے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ ایسا انبساط‘ پھر کبھی محسوس نہ ہوا۔ مہم جوئی کا لطف؟ طارق چودھری جو بعدازاں‘ بارہ سال تک سینیٹر رہے۔ وہ ایک پیدائشی لیڈر تھے۔ خربوزے چرانے ہوں یا سنگترے‘ وہ نگران کی ذمہ داری نبھاتے۔ باقیوں میں سے بھی کبھی کوئی کم ہی پکڑا گیا۔ چاچے کی نظر مجھ پہ رہتی اور کم از کم میرے معاملے میں اس کی چھٹی حس بہت تیز تھی۔ لمبا کرتا‘ گھٹنوں تک چھوٹا سا تہمد۔ پانچ سات ایکڑ سے زیادہ زمین کیا رہی ہوگی مگر ایسا ریاضت کیش کسان۔ ایکڑ بھر کے احاطے میں اونچی چھتوں والے کمروں کی قطار اور بے شمار بھینسیں۔ صبح شام جہاں دودھ کے خریداروں کا مجمع سا لگا رہتا۔ اس وقت یہ خیال بھی عجیب لگتا کہ دودھ میں ملاوٹ بھی کی جا سکتی ہے۔ ملاوٹ تو کجا گائوں کی بڑی بوڑھیاں کہا کرتیں: دودھ اللہ کا نور ہے‘ وہ بیچا کیسے جا سکتا ہے۔
فجر کی اذان کے فوراً بعد آنکھ کھل جاتی اور نہ کھلتی تو حکماً جگا دیئے جاتے۔ ابا جی مرحوم کہا کرتے: وہ آدمی کیا کارنامہ انجام دے گا جو سورج طلوع ہونے سے قبل بیدار نہیں ہوتا اور نمازِ عشا کے بعد‘ دیر تک جاگتا ہے۔ آج اگر وہ اپنے فرزند کو دیکھتے جو شب کے آخری پہر تک جاگتا اور دوپہر کے وقت سو کر اٹھتا ہے۔ درویش نے کہا تھا: زندگی میں اتنا ہی سکون اور ٹھہرائو ہوگا‘ جتنا کہ آدمی فطرت سے ہم آہنگ ہو۔ اتنا ہی بے چین‘ جتنا فطرت سے دور۔ بڑے شہروں کی آلودہ‘ بے ہنگم اور بے ترتیب زندگی۔ مصنوعی طور پر جس کی رفتار بہت تیز ہوچکی۔ سکونِ قلب رخصت ہوا اور باقی فقط بے چینی رہ گئی۔ بڑے بڑے مکانوں‘ گاڑیوں اور قیمتی لباس سے آدمی کتنی مسرت کشید کر سکتا ہے۔ اول تو سطحی‘ پھر عارضی۔ کھلونے کی طرح‘ چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ چند دن‘ بچہ جس سے کھیلتا ہے۔ آخر کو بیزار ہو جاتا ہے۔ کیا ہم سب بچے ہیں؟ خاص طور پر وہ لیڈران کرام جو اربوں اور کھربوں ڈالر جمع کرتے اور چھپا چھپا کر رکھتے ہیں۔ جرائم پیشہ جو خود کو پارسا اور نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دلوں میں چور‘ دلوں میں احساسِ جرم۔ سکھ انہیں کہاں سے نصیب ہوں۔
احساس کی کیسی عجیب شدت کے ساتھ اقبال نے کہا تھا:
ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل؟
کیا تجھ کو خوش آتی ہے‘ آدم کی یہ ارزانی؟
رائگاں‘ سب رائگاں۔ اللہ کی کائنات میں اس قدر زیاں کیوں ہے؟ کتنے الوہی دماغ‘ کیسے کیسے شاندار لوگ۔ عمر بھر کی ریاضت‘ آخری نتیجہ مگر کیا؟
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے بادِ بہاری‘ یہی ہے فصلِ مراد
رحیم یار خان کی اس قدرے معروف سڑک پر میاں محمد حفیظ کا ہوٹل آباد تھا۔ عالمگیر ہوٹل۔ کیا اب بھی ہے؟ عقبی کمرے میں تازہ اخبارات‘ انگریزی جرائد اور کتابوں میں وہ گھرے رہتے۔ جناب عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں بلاد شام کے ایک بوڑھے خطیب نے کہا تھا: تمام علم اور تمام حلم۔ رحمتہ للعالمین اور ختم المرسلینؐ کے سائے میں پروان چڑھنے والوں سے کسی کا کیا موازنہ۔ اپنی زندگی میں پروفیسر احمد رفیق اختر کے سوا‘ اگر کسی کو ہمیشہ حلیم اور ہمیشہ طالب علم پایا تو وہ میاں محمد حفیظ تھے۔ اللہ انہیں زندگی دے‘ ان کے چھوٹے بھائی میاں ماجد نے کہا: لندن میں ان کا پیغام آتا تو ہمیشہ کسی نئی کتاب کے لیے۔ ہوٹل سے نکلتے تو مسجد کا رخ کرتے۔ جس کسی کی نگاہ ان کی طرف اٹھی‘ مؤدب ہو گئی۔ اخبار نویس قربان انجم نے بیان کیا: مسجد سے لوٹے تو ہوٹل کا نیا بورڈ لکھا جا رہا تھا: ''قیام و طعام کا بہترین انتظام‘‘۔ لمحہ بھر کو رکے اور یہ کہا: بہترین کیا؟ کیا طعام و قیام کا انتظام کافی نہیں۔ اولیاء اللہ‘ اور کون ہوتے ہیں۔ 1968ء میں‘ اس ناچیز نے صحافت سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا تو والد مرحوم آزردہ ہوئے‘ خاندان کے دوسرے لوگ بھی مخالف۔ زندگی رائگاں کرتا ہے۔ میاں صاحب کو پتہ چلا تو فرمایا: اسے لاہور جانے دو۔ ان کا مشورہ حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ شکریہ ادا کرنے میں حاضر ہوا تو مؤدبانہ گزارش کی: میاں صاحب‘ دھن دولت نہیں‘ لکھنے پڑھنے سے شغف ہے۔ فرمایا: اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جائو‘ اللہ تمہیں روپیہ پیسہ بھی بہت دے گا اور عزت بھی۔ صبح سویرے سے‘ میاں صاحب کے ہم نفس ڈاکٹر نذیر مسلم بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھایا کرتے۔ دن میں کئی بار‘ کئی مختلف گروپوں کو۔ حافظ محمد اسمٰعیل بھی۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد جو نابینا ہو گئے تھے مگر حافظہ ایسا اور عربی زبان پر ایسی دسترس کہ سبحان اللہ۔ ایک دن اپنے طلبہ سے یہ کہا: حدیث کی تشریح تاریخ کی روشنی میں ہوگی‘ اس کے بغیر علم ناتمام۔
اللہ اللہ‘ کیسے لوگ تھے۔ کیسی اجلی زندگیاں جی گئے۔ شاید یہ انہی کی یاد ہے‘ جو لاشعور کے دھندلکوں سے ابھرتی اور کہرام مچاتی ہے۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں