"HRC" (space) message & send to 7575

بندے بنو بندے

جنابِ زرداری اورجنابِ نواز شریف پرویز مشرف کے حال پہ غور فرمائیں ۔ افراد یا گروہ، کسی کا غلبہ دائمی نہیں ۔ آدمی خدا نہیں بن سکتا۔ بنے تو منہ کے بل گرتا ہے ۔ نجات اسی میں ہے کہ وہ آدمی بنے ۔ 
معصوم بچّے ایک دوسرے کی مٹھائی کیوں چھین لیتے ہیں ؟ وہ جبلّتوں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں ۔ زندہ رہنے کی آرزو فطری ہے کہ واقعی اسے ابد لآباد تک جینا ہے ۔بقولِ میرؔ ؎
موت ماندگی کا وقفہ ہے 
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر 
Breaking the curfew کی برطانوی مصنفہ نے نواب اکبر خا ن بگٹی سے پوچھا : قبیلے میں بلوچ سردار کا کردار کیا ہے؟ کہا : وہ خدا ہے ، زندگی اور موت پر قادر۔وہ بولی : مگر موت کے بعد ایک اور زندگی ہے ۔رائج مغربی فلسفے کے وہ زیرِ اثر تھی ۔ نظریۂ اضافت کے بانی ، اساطیری سائنسدا ن آئین سٹائن نے کہا تھا : میں جانتا ہوں کہ کائنات کا ایک خالق ہے مگر ذاتی خدا (Personal God)پر میں یقین نہیں رکھتا۔ اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا اور اس خیرہ کن کائنات کو مگر ذاتی زندگیوں میں دخل دینے کا اسے کوئی حق نہیں ۔ یہ ہولی اوک سے قدرے مختلف نظریہ ہے ، جس کا کہنا یہ تھا کہ سیکولر کا مطلب ہے ،ملحد ۔
بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ایثار کیوں کرنے لگتے ہیں ؟ سمندر پار پاکستانیوں کی اکثریت بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کا بوجھ اٹھاتی ہے ۔ چھینا جھپٹی خاندا ن میں شاذ ہوتی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ ادارہ آج بھی برقرار ہے ۔ ہر مسلمان بچہ پہلی آیت سے روشناس ہوتا ہے ''ومما رزقنٰھم ینفقون‘‘ (اور جو کچھ ہم نے 
انہیں دیا ہے ، ا س میں سے (دوسروں پر)خرچ کرتے ہیں)۔ مان لیا کہ ماں باپ اور بہن بھائی فطری محبت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ تعمیرِ ملت فائونڈیشن ، اخوت ، شوکت خانم اور ڈاکٹرادیب رضوی کوعطیات پیش کرنے والے ؟ کراچی میں ہر روز ڈیڑھ لاکھ بھوکوں کو کھانا کھلانے والا قائد اعظم کا ہم نسل گجراتی؟ تعلیم ہے یہ تعلیم، ایثار کا جذبہ ہے ، یہ ایثار کا جذبہ۔ سکونِ قلب کی تمنّا ، رحمتِ پروردگار کی آرزو۔ غیر مسلم کیوں خیرات کرتے ہیں ؟بالکل اسی لیے ۔اولیا کی نشانی یہ ہے ''خوف اور غم سے آزاد‘‘۔ ٹھیک یہی الفاظ امرا کے بارے میں کتاب میں درج ہیں ، کھلے اور چھپے ،جو دن رات خرچ کرتے ہیں ۔ درویش احمد رفیق اختر نے کہا تھا: اس آدمی پہ میں رشک کرتا ہوں ، خواہ ایمان کے باقی مطالبات میں وہ ناقص ہو ۔ دنیا بھر میں بے شمار مطالعے (Studies)یہ بتاتے ہیں کہ مسلم یا غیر مسلم، ذاتی جدوجہد سے امارت کی منزل پانے والوں کی اکثریت ایثار کیش ہوتی ہے ۔بخیل کو عزت کبھی نصیب نہیں ہوتی ، خواہ کیسے ہی کمالات رکھتا ہو ۔ اقتدار مل سکتاہے مگر توقیر نہیں۔ آخر کو پھندہ ، آخر کو رسوا۔ 
فکری مغالطوں میں ہم مبتلا ہیں ۔سیدنا علی ؓ کا قول ہم دہراتے ہیں کہ حکمرانی کفر سے ممکن ہے ، ظلم سے نہیں ۔ اس پہ سوچتے مگر بالکل نہیں ۔ انگریز کو حکمرانی اس لیے ملی کہ ہندو اور مسلمان ، سکھ اور مرہٹے ایک د وسرے کا خون پی جانے کے درپے تھے۔ جن کو پروردگار مہلت دیتا ہے ، ان کے نصیب میں عبد الرحمن الداخل، صلاح الدین ایوبی ، جلال الدین خلجی، غیاث الدین بلبن اور ابرہام لنکن لکھے جاتے ہیں ۔ سرکارؐ اور ان کے اصحابؓ کا کیا ذکر ، ان سے کسی کا کیا موازنہ ؟ وہ ایثار کے خوگر تھے ۔ انحراف اصلاً فکری ہوتاہے ۔ ایثار تو کیا، اب ہم عدل کے تصور سے بھی محروم ہوئے ۔ ہوس ،طاقت اور چالاکی کے اسیر۔ 
اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر نے کہا تھا ؎ 
کعبے کی ہے ہوس، کبھی کوئے بتاں کی ہے 
مجھ کو خبر نہیں، میری مٹی کہاں کی ہے 
سبھی کی مٹی زمین کی ہے ، جس پر اسّی کروڑ سال تک انسان کا ارتقا ہوا ، حتیٰ کہ ایک دن پروردگارِکون و مکان نے نویں عظیم برف باری (Ice Age)کے بعد چالیس ہزار سال پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا۔ مفکر ول ڈیوراں اور ابنِ عربی اس پر متفق ہیں ۔ ڈیوراں یہ کہتاہے کہ برف سے بچ جانے والے آخری آدمی پہ برق چمکتی رہی اور دماغ اس کا بڑھنے لگا۔ قرآنِ کریم یہ کہتاہے کہ اب پہلا جواب دہ آدمی تخلیق ہوا ۔ وہ انحراف کا مرتکب ہوامگر اس نے معافی مانگ لی۔ اولین خطا او راولین توبہ۔''اے ہمارے رب ہم نے خود پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہماری بخشش نہ کی اور ہم پہ رحم نہ کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘ ۔ 
الطاف حسین کے مطالبے پہ بات کرنا تھی مگر خیال بھٹکا اور عرشِ بریں تک بھٹکتا چلا گیا۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے : دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے ۔اقتدار کی ، مال و دولت کی آرزو۔ قرآن کے مطابق بہترین گھوڑوں، سواریوں، سونے اور چاندی کی ۔''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور تری میں اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘۔ 
مسائلستان نہیں ، ملک فسادستان ہو گیا ۔ 27رمضان المبارک کو سچے کلمے پر وہ ظہور پذیر ہوا۔فرقہ پرست ملّا اور مغرب سے مرعوب ملحد اس کے خلا ف تھے ۔ عقل کے خوگر ، جو یہ سمجھتے تھے کہ انسانی ذہانت بجائے خود حیات کو سرسبز کر سکتی ہے ۔ اب بھی وہی ہیں ۔
ایک اختلاف فطری ہوتا ہے اور زیبا ؎ 
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذتِ یکتائی 
قبائل، نسلیں اور زبانیں فطرت کی پیدا کردہ ہیں ''تاکہ تم پہچانے جائو‘‘ انسانی جبلتوں ، آرزوئوں اور جدوجہد کا تنوّع ۔ ان میں سے کسی کا غلبہ یا کسی سے نفرت غیر فطری ہے ، ظلم ہے۔ 1971ء میں خود مختاری کے سوا بنگالی عوام نے کیا چاہا تھا۔ بلوچستان، سرحد اور سندھ نے بھی اسی کا تقاضا کیا تھا۔ آخر کار دستور میں ترمیم ہوئی اور اقتدار کا بڑا حصہ صوبوں کو منتقل ہوا ۔ کون سی خرابی اس سے پید اہوئی؟ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے، جمہوریت کے علمبردار بلدیاتی اداروں کے دشمن کیوں ہیں ؟ ذاتی اخلا ق میں چوہدری باقیوں سے بہتر ہیں ، حقیقت پسندبھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے مجھ سے کہا: مشکل یہ ہے کہ اب ان بلدیاتوں اداروں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ سبھی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ جمہوریت کی معراج یہ ہے کہ عام آدمی عمر ابن ِ خطابؓ پہ اعتراض کرے اور درست ہو تو مان لیا جائے ۔ 
مغرب نے جان لیا۔ ہم ابھی تک ملوکیت کے زمانوں میں زندہ ہیں ۔بھٹو اور ان کی آل اولاد نے بلدیاتی الیکشن کبھی نہ کرائے۔ قائد اعظم ثانی نے فقط ایک بار اور وہ بھی متنازعہ ۔ سیاسی پارٹیاں نہیں ، یہ قبائلی لشکر ہیں ،باہم برسرِ پیکار اور سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوتی ہے ۔بلدیاتی الیکشن پہ زیادہ اصرار ایم کیو ایم نے کیا کہ اس کی ضرورت زیادہ ہے ۔ پورے ملک کو مگر بلدیاتی الیکشن درکار ہیں ۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے بغیر اچھی قیادت ابھر سکتی ہی نہیں ۔صوبہ نہیں بنے گا اور نہ ہی علیحدہ وطن کا مطالبہ ہوگا۔ یہ نفرت کی آواز ہے ، جو جبر کے جواب میں پھوٹی ہے۔ ایم کیو ایم کا ماضی کتنا ہی المناک ہو،یہ مطالبہ سچّا ہے ۔
نفرت نہیں ، محبت اور عدل۔ قبائلی علاقوں پر دونوں کل جماعتی کانفرنسوں کے اعلامیوں میں ناچیز کا ایک جملہ شامل کیا گیا ''خون کو خون سے نہیں، پانی سے دھویا جاتاہے‘‘ رحمتہ اللعالمینؐ کا ذکر جہاں زیادہ اکرام کے ساتھ ہے ، وہاں بندگی کا حوالہ ہے ''راتوں رات لے گیا اپنے بندے کو وہ مسجدالحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک‘‘ جنابِ زرداری اورجنابِ نواز شریف پرویز مشرف کے حال پہ غور فرمائیں۔ افراد یا گروہ، کسی کا غلبہ دائمی نہیں ۔ آدمی خدا نہیں بن سکتا۔ بنے تو منہ کے بل گرتا ہے ۔ نجات اسی میں ہے کہ وہ آدمی بنے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں