تاریخ کا راز تو ان پہ آشکار ہی نہیں کہ قومیں تبھی زندہ ہوتی ہیں ، جب ان کا وجود خطرے سے دوچا ر ہو ۔ قرآنِ کریم کی آیت بھی وہ بھلا دیتے ہیں : اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا کہ کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ؎
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
سانپ کے منہ میں چھپکلی کی مانند ، سبکدوش جنرل پرویز مشرف ملک کے لیے ایک نیا مسئلہ بن گئے ۔ اُگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے۔ تیزی سے سماعت کر کے سزا دی جا سکتی ہے اور نہ مقدمہ واپس لیا جا سکتاہے ۔ بہتر ہے کہ آئین اور قانون کی حدود میں معاملے کو ملتوی کرنے کی کوشش کی جائے ۔
آئین کو بالادست رہنا چاہیے مگر اصول یہ بھی ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے ۔ ذوالفقار علی بھٹو یقینا نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوّث تھے ۔ فیصلہ تسلیم کرنے سے اکثریت نے انکار کیا کہ گواہ سرکاری طور پہ لائے گئے اور ججوں کو رام کیا گیا ۔ پرویز مشرف کے باب میں کہانی دہرانی نہ جائے۔
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ اگر آئین کا نفاذ ہی مطلوب ہے تو مقدمہ 12اکتوبر 1999ء پر کیوں قائم نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس لیے کہ دوسرے بھی زد میں آئیں گے ؟ خود جج حضرات اور حکمران پارٹی کے 38ارکانِ اسمبلی اور کئی وزرا سمیت اپوزیشن پارٹیاں بھی ۔ ایک مخمصہ اور بھی ہے ، جس کا کوئی حل حدّ ادراک میں نہیں ۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج سابق فوجی حکمران کے باب میں ایک فریق ہیں ۔ طے شدہ ضابطہ ہے کہ فریق جج نہیں ہوتا۔ مشرف کے وکلا کو چھوڑیے ، محترمہ عاصمہ جہانگیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ بنچ کی تشکیل ناموزوں ہے ۔ قانون دان اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ یہ اعتراض بھی ہے کہ سابق چیف جسٹس کی بجائے ، وفاقی حکومت کو عدالت مرتّب کرنا چاہیے تھی ۔
معاشرے کی تقسیم در تقسیم کا دروازہ کھل گیا ہے ۔ بعض غیر محتاط اخبار نویسوں نے راگ الاپنا شروع کر دیا کہ سیاستدانوں کو سزا ملتی ہے ،جنرل بچ نکلتے ہیں ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ سبکدوش اور حاضر سروس فوجیوں میں بے چینی بڑھنے لگی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ فزوں تر ہوتی گئی ۔ چھ ، ساڑھے چھ برس تک فوج کو سیاست سے دور لے جانے کی ریاضت رائیگاں ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ رک جائیے اور نئے سرے سے غور کیجئے ۔ غلطیوں سے نہیں ، انسان غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ کم از کم حکمتِ عملی ہی بدلیے۔ ملک مزید ہنگامے کا متحمل نہیں ۔ سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے ۔ گاہے انتظار اور التوا ہی بہترین حکمتِ عملی ہوا کرتا ہے ۔
معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ خوف ایک بہت ہی طاقتور اور قدیم انسانی جبلّت ہے ۔ غالب آجائے تو تجزیے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ۔ گاہے قوّتِ عمل ہی چھن جاتی ہے ۔ اگر اس کے ساتھ تعصب اور انتقام شامل ہو جائے تو توازن تباہ کر کے جنون کی طرف لے جاتی ہے ۔ آدمی نے اس کرّہ خاک پہ زندگی آغاز کی تو وہ اجنبی تھا ۔ شبوں کی تاریکی میں ہوائیں سرسراتیں اور جنگلوں میں درندے دھاڑتے ۔ نا معلوم کا اندیشہ اس کی روح میں سرایت کر گیا ۔ خوف پہ غلبہ پانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ علم اور مسلسل کوشش کے ساتھ ، مزاج کے توازن سے ممکن ہوتاہے ۔
دانشوروں کے اندازے نا درست ثابت ہو ئے۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ عدالت کے راستے میں جعلی بارود بچھانے اور جنرل کو ہسپتال لے جانے کے بارے میں اس ناچیز کا تجزیہ ناقص نکلا۔؛ اگرچہ اعلیٰ فوجی قیادت ملوّث نہیں مگر بعض فوجی افسروں نے جنرل کی حوصلہ افزائی کی ۔ ان کے وکلا عدالت جانے سے روکتے رہے؛ حالانکہ خود وہ پیش ہونے پر آمادہ تھے ۔ ڈرامے کی ضرورت کیا تھی۔ صبح سویرے ، سیدھے علاج گاہ پہنچ جاتے ۔ یہ ہر مریض کا حق ہے ، خواہ اسے قانون نے طلب کیا ہو۔ ثانیاً فوجی ہسپتال میں داخلہ ان کا استحقاق ہے ۔ اسی ہسپتال میں ان کا بہترین علاج ممکن ہے اور یہیں بہترین حفاظت۔ اخباری اطلاع کے مطابق جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو بتایا کہ معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
سبکدوش اور حاضر سروس فوجی افسروں کو تحمل اختیار کرنا چاہیے ۔ آسمان نہیں ٹوٹ گرے گا ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : جو تعصب پر آواز دے ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ قرائن یہ ہیںکہ جنرل کو اوّل تو سزا نہ ہوگی ، ہوئی تو معاف کر دی جائے گی ۔ اطلاعات بھی یہی ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو میاں محمد نواز شریف سے زیادہ مقبول اور زیادہ منتقم مزاج تھے ۔ ان کے عہد میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور یحییٰ خان فطری موت مرے ؛اگرچہ ایوب خان دنیا سے اٹھے تو اخبارات کو اندرونی صفحات پر چند سطری خبر شائع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اطلاع نشر کرنے پر پابندی تھی ۔
فوج کو طعنہ دینے والوںکو بھی تامّل سے کام لینا چاہیے ۔ الطاف حسین نے چیخ کر مہاجروں کی مظلومیت کا سوال اٹھایا۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل کا مہاجر ہونا ہرگزکوئی عامل نہیں ۔ دوسروں کو بھی دیکھ لیجئے ۔ میاں محمد نواز شریف اقتدار کو چند کشمیری گھرانوں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کردار شخصی چیزہے ۔ ایک خاندان کے پانچ سات افراد میں سے ہر ایک مختلف ۔ کوئی لسانی ، علاقائی اور مذہبی گروہ مکمل طور پر اچھا ہوتاہے اور نہ برا۔ کشمیریوں میں تو اقبالؔ پیدا ہوئے تھے اورآج ان میں سید علی گیلانی ہیں ۔ شجاع ، جری اور پرتپاک لوگ۔ قومِ چرب دست و تر دماغ ۔
سیکولر فاشسٹ اور ملّا زیادہ متحر ک ہیں۔ان میں سے بعض قائد اعظم کو انگریز کا ایجنٹ ، بعض حلیف اور بعض اس کا شاگرد کہا کرتے ۔ قائد اعظم مسلمان تھے مگر عصرِ حاضر کے تقاضوں سے آشنا، مکمل طور پہ روادار اور شائستہ مزاج ،جنہیں کمزور طبقات کی فکر لاحق رہی ۔ خواتین ، اقلیتیں اور پسماندہ لوگ۔ آدمیت کے مزاج سے نا آشنا، سوشلسٹ تحریکوں کے ناراض فرزند انہیں جاگیرداروں کا ساتھی قرار دیتے ہیں ۔ اس سچے اور کھرے آدمی کو ، تین چوتھائی اکثریت ، جس کے ساتھ تھی ، جو اپنی جدوجہد سے اوپر اٹھا۔ ان کی تقاریر اور اقبالؔ کے نام ان کے خطوط میں زر اندازوں سے ان کی نفرت آشکار ہے مگر یہ تقلید کے مارے لوگ۔ اقبالؔ بھی محمد علی جناح ایسے تھے ۔ بار بار انہوں نے قائد اعظم سے کہا کہ لیڈروں کی بجائے انہیں مسلم عوام سے غرض ہونی چاہیے ۔ ایک آدھ نہیں ، جاگیر داروں اور دوسرے سفاک طبقات کے خلاف ان کی شاعری بانگِ درا ہے ۔
خواجہ از خونِ رگِ مزدور ساز د لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
(مزدور کے لہو سے زردار موتی ڈھالتا ہے اور دیہات کے خدائوں نے کسان کی کھیتی برباد کر دی ہے )۔
صورتِ حالات سے فائدہ اٹھا کر یہ لوگ مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔ فرقہ پرست ملّا بھی ۔ تاریخ کا راز تو ان پہ آشکار ہی نہیں کہ قومیں تبھی زندہ ہوتی ہیں ، جب ان کا وجود خطرے سے دوچار ہو ۔ قرآنِ کریم کی آیت بھی وہ بھلا دیتے ہیں : اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا کہ کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ؎
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق