بڑے بڑے لیڈر اور عظیم مفکر بھی ، افسو س کہ اکثر انسان جیسے پیدا ہوتے ہیں ، ویسے ہی دنیا سے اٹھ جاتے ہیں ۔ زندگی انتظار کرتی رہتی ہے کہ وہ سوچیں ، سمجھیں اور خودکو بدلیں مگر خال خال۔ النّادرکالمعدوم۔ زیاں بہت ہے ، اللہ کی کائنات میں زیاں بہت۔ اکثر انسانی فصلیں کھاد ہی بنتی ہیں ۔غالبؔ نے کہا تھا ؎
ہم موحد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
امتیں جب مٹ گئیں، جزوِ ایماں ہو گئیں
سیّد منوّر حسن اسامہ بن لادن کو ہیروقرار دیتے اور روشنی کا لہکتا ہوا استعارہ کہتے ہیں تو ان کا پیغام کیا ہے ؟ اپنی قوم سے وہ ناراض ہیں کہ جماعتِ اسلامی کا پیغام وہ سمجھ نہ پائی ۔اسلامی نظام نافذ نہ ہو سکا،72برس تک جس کے لیے لاکھوں کارکنوں نے قربانیاں دیں ۔
1981ء میں سیّد صاحب نے اس ناچیز سے کہا تھا : مجھے اندازہ ہے کہ میں ناراضی کا شکار ہوں، ردّعمل میں سوچنے لگا ہوں ۔ غور کرتے تو انہیں ادراک ہوتا کہ مستقل ناراضی کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔سید مودودی نے کہا تھا: مسلمان کو نعمت نصیب ہو تو شکر کرتاہے ،مشکل ہو تو صبر ۔ ہر حال میں اجر کا مستحق۔ قرآنِ کریم قرار دیتاہے، سچائی اور صبر کا دامن تھامے رکھنا مومن کا شعار ہے ۔ وقت ان پر غالب نہیں آسکتا۔ فتح یاب اور ظفر مند نہ بھی ہوں تو آسودہ رہتے ہیں ''اللہ کے دوست ، وہ خوف اور غم کا شکار نہیں ہوتے‘‘۔
1964ء میں بانکے منوّر حسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ تھے ۔ جماعتِ اسلامی سے جمعیت کے تعلق پہ سوال در سوال اٹھا تو ان کی آواز میں رنج اترا اور آواز بلند ہو گئی ۔ بگڑے کہ بار بار استفسار کیوں ؟ اگر ڈٹ کر وہ کہتے : جی ہاں ، فکری تعلق ہے تو اس میں حرج کیا تھا؟
پانچ برس ہوتے ہیں ۔ میرے عزیز دوست فاروق گیلانی سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جن کی یاد سے آج بھی صبحیں اور شامیں آباد رہتی ہیں ۔ ان کے والد سیّد اسعد گیلانی نے اپنی پوری زندگی نذر کر دی تھی۔ فرزند کو قلق تھا کہ متاع برباد ہے۔ جماعتِ اسلامی کے امیر سے انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی خاکسار تحریک بنتی جا رہی ہے ۔ سید صاحب بشاش رہے ، توجہ سے بات سنی اور یہ کہا: وہی مرحوم ( اسعد گیلانی ) کے تیور، وہی اندازِ بیان ۔ مدتوں سے سننے اور ٹالنے کی مشق ہے ۔ گاہے مگر برہم ہوجا تے ہیں اور الفاظ پہ قابو نہیں رہتا۔ طنز فرماتے اور جملہ چست کرتے ہیں ۔ ادراک نہیں کہ یہ ان کے شایانِ شان نہیں ۔
سید صاحب تہجد پڑھتے ہیں ۔ سادگی اور حقیقی سادگی ۔ رزق کے باب میں قناعت بلکہ استغنیٰ مگر معاف کردینے کی خو پیدا نہ کر سکے ۔مانتے ہی نہیں کہ غلطی خود ان کے قبیلے کی ہو سکتی ہے ۔ کوئی فکری مغالطہ ، کوئی علمی نقص۔ اگر 72برس تک ایک درخت پروان چڑھنے سے انکار کرتارہے تو کیا یہ لازم ہے کہ مٹی ہی کمتر ہو ؟ ممکن ہے ، بیج میں خرابی ہو ۔ استقلال بجا مگر افکار پہ نظرِثانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جماعتِ اسلامی کامیاب ہے مگر خدمتِ خلق کے باب میں ۔ سیلاب یا زلزلہ ، خشک سالی یا مہاجرت۔ بے لوث ان کے کارکن کام کرتے ہیں اور دشمنوں تک سے داد پاتے ہیں ۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر کو البتہ قوم نے قبول نہ کیا ۔ وہ ریاضت کیش، عالم، بہترین منتظم اور ایک عظیم نثر نگار تھے ۔ شائستہ اور پاک دامن مگر عوام نے انہیں دیوبند کی ایک شاخ ہی سمجھا، جس کی قیادت سے سید ابو الاعلیٰ کو اختلاف تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد علی لاہور ی کو وہ مقدس مانتے تھے ۔ انہیں تقویٰ کا پہاڑ کہا۔ تقویٰ کا پہاڑ؟ دیو بند پون صدی سے ان کی کردار کشی پہ ڈٹا ہے۔ ان کے مرکزی دفتر میں اگر ابو الاعلیٰ کا ایک ورق بھی کسی کے کیسہ سے برآمد ہو جائے تو نکال باہر کیا جاتاہے ۔
اسلام میں مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں ۔ا س کی بالاتری کا کیا سوال؟ علما کا کام حکومت نہیں ۔ ختم المرسلینؐ کا فرمان ہے : اللہ جو کام بندے سے لینا چاہے، تو اس کے لیے سہل کر دیتا ہے۔ ''لِکُلِّ فَنّ رِجال‘‘۔ ہر فن کے آدمی ہوتے ہیں اور پیدائشی طور پر۔ سیاست بھی ایک فن ہے ۔ یہ سیدنا ابو بکرؓ ، فاروقِ اعظمؓ ، عثمانِ غنی ؓ اور جناب علی کرم اللہ وجہہ تھے ، جو سرکارؐ کی تربیت سے جامع الصفات ہوئے وگرنہ آدمی ایسے نہیں ہوتے ۔ علمِ دین ہی واحد معیار ہوتا تو خلافت کے لیے کبھی کسی نے جناب عبد اللہ بن مسعودؓ کا نام بھی لیا ہوتا۔ اجتماعی مسلم دانش نے علما کے اقتدار کا تصور کبھی قبول نہ کیا۔ 1954ء سے اب تک ہر الیکشن میں جماعتِ اسلامی ناکام رہی ۔ اب کیسے وہ کامیاب ہو سکتی ہے ، جب اس کی صفوں میں ہزاروں جعل ساز پراپرٹی ڈیلر آگھسے ہیں ۔ جب جامعہ پنجاب میں جمعیت غیظ و غضب کی علامت ہے۔ سید ابو الاعلیٰ ظفر مند نہ ہو سکے... سید منور حسن ، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کس کھیت کی مولی ہیں ؟
سیاسی جماعت سبھی کے لیے ہوتی ہے ۔ ہر مکتبِ فکر، ہر لسانی گروہ، ہر علاقائی مزاج کو سازگار ۔ سیاست کا ایجنڈا بھی مختصر ہوتاہے ۔ امن و امان، عدالتی نظام ، ٹیکس وصولی اور آزاد خارجہ پالیسی جو معیشت کے فروغ سے ممکن ہوتی ہے ۔ اخلاقی اور علمی تعمیر تعلیم سے ممکن ہے ۔ یہ کام ووٹ اور چندے مانگنے والے نہیں کر سکتے ، خواہ امانت دار ہوں ۔ برسبیلِ تذکرہ ، جماعتِ اسلامی پر افغان جہاد میں ڈالر بٹورنے کا الزام لغو اور بے بنیاد ہے ۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کی زندگیاں ہمارے سامنے کھلی کتاب ہیں مگر وہ المناک فکری مغالطے ! آدمی اپنے گروہ کو عزیز جانے اور ضد پہ اڑا رہے تو نتیجہ معلوم۔ ٹی وی مذاکرے میں عزیزم نعیم الرحمن قابلِ رحم تھے ۔ خود کو طالبان اور اسامہ کی فکر سے لاتعلق بتایا۔ کہا کہ جماعتِ اسلامی آئینی حدود کی قائل ہے ۔ پھر اسامہ کا دفاع وہ کیسے کرتے ، سید منور حسن کے نزدیک جو اساطیری عظمت کے امین ہیں ۔سامنے کا سوال یہ ہے کہ اسامہ نے عالمِ اسلام کو تقویت بخشی یا کمزور تر کیا؟ امریکی ایجنٹ وہ ہرگز نہ تھے۔ کھرب پتی ایجنٹ بن کر غاروں میں بسر نہیں کرتے مگر اشتعال اور انتقام کے مارے ، جو مسلمان کا وصف ہی نہیں ۔ جو دانائی سے دوری اور دانش سے انحراف ہے ۔ زندگی ردعمل میں نہیں بِتائی جاتی۔ حیات اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے ، دوسروں کی خامیوں پر نہیں ۔ قرآن کی شہادت سب کے لیے حتمی ہے: و انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ اور تم ہی غالب رہو گے ، اگر تم مومن ہو۔ القاعدہ نے فرقہ پرستی شعار کی ، بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قتل کیا۔ علم سے بے نیازی ، تلقین ، مکالمے اور تعلیم سے گریز۔ استدلال سے انکار ۔ جینے اور فروغ پانے کا یہ طریق نہیں ۔ ایسے لوگ اپنی قوموں اور قبیلوںکو برباد کیا کرتے ہیں ۔
سیدنا عمر بن عبد العزیزؓ غیر مسلموں کے حق میں تن کر کھڑے رہے ۔ غیاث الدین بلبن کا شیوہ اعتدال تھا۔ قائداعظمؒ رواداری کی عظیم ترین علامت تھے ۔ عوام جماعتِ اسلامی سے گریزاں ہیں۔ خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ کا خوف ؟ لیاقت بلوچ‘ افتخار تاری کو لے کر آئے تو پارٹی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خطاکاروں کی توبہ تک قبول نہیں ۔
بڑے بڑے لیڈر اور عظیم مفکر بھی ، افسو س کہ اکثر انسان جیسے پیدا ہوتے ہیں ، ویسے ہی دنیا سے اٹھ جاتے ہیں ۔ زندگی انتظار کرتی رہتی ہے کہ وہ سوچیں ، سمجھیں اور خودکو بدلیں مگر خال خال۔ النّادرکالمعدوم۔ زیاں بہت ہے ، اللہ کی کائنات میں زیاں بہت۔ اکثر انسانی فصلیں کھاد ہی بنتی ہیں ۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
امتیں جب مٹ گئیں، جزوِ ایماں ہو گئیں