بحران بڑا ہے اور لیڈر چھوٹے۔ کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ یہ بیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ انا کو گنّے کا رس پلانے میں وہ کچھ توقف فرمایا کریں ؎
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟
کیا امانت کا بار اٹھانے والوں کو اپنی ذمہ داریوں کی نزاکت کا کچھ احساس ہے کہ نہیں ؟ مولانا سمیع الحق نے ٹھیک کہا کہ منگل کو ان سے ملاقات کا پختہ وعدہ تھا، ظہرانے پر۔ انہوں نے مگر بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ سرکاری کمیٹی کے ایک رکن سے انہوں نے بات کی، سبھی کو مطلع کرنے کی ذمہ داری اس نے قبول کرلی۔ اگلے روز بارہ بجے حکومتی ارکان ملے تو اس نے اچانک انہیں اطلاع دی‘ اس پر وہ بگڑے ۔ ظاہرہے کہ وہ سب مصروف لوگ اور ان کے روزمرّہ کے پیمان ہوتے ہیں۔ انہوں نے موخر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر عذر تراشا گیا کہ کیا طالبان کمیٹی کو اختیار حاصل ہے؟ کیا وہ بجائے خود مکمل ہے یا اور لوگ اس میں شامل ہوں گے؟
مولانا سمیع الحق نے اخبار نویسوں کو جمع کیا اور گرجے برسے۔ یہاں تک انہوں نے کہہ دیا کہ سرکاری کمیٹی بے معنی ہے، اختیارات سے محروم۔ وزیراعظم بے بس ہیں اور پہلے بھی ان سے وعدہ شکنی فرما چکے ۔ ان پر امریکی دبائو ہے۔ وہ بات چیت کے آرزومند نہیں ۔ سرکاری رکن نے اگر غیر ذمہ داری کا ارتکاب کیا تو حضرت مولانا تحمّل فرماتے ۔ تاریخی اہمیت کا کام ان لوگوں کو سونپا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے ۔ قدرے تاخیرسے ،مگر مولانا کی پریس کانفرنس کے بعد ملاقات پر آمادگی ظاہر کر دی گئی تو لہجہ انہیں بدلنا چاہیے تھا۔ بدھ کے روز بھی مگر وہ خطابت کا مظاہر ہ کرتے رہے۔ کمیٹی اور حکومت کا مذاق اڑاتے رہے ۔ طالبان کے بارے میں کہا کہ وہ تو آئینی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ سلیقہ ہے ثالثی کا؟ ؎
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلہ نہ ہوا
کمیٹی کی تشکیل سے چند روز قبل وزیر اعظم ،طالبان کے خلاف کارروائی پر آمادہ تھے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن پر۔ انہیں تامّل کا مشورہ دیا گیا۔ بتایا گیا کہ ایسا ہوا تو ملک بھر میں فساد کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ مبالغہ اس بیانیے میں بہت ہے۔ طالبان اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کر چکے۔ خفیہ ایجنسیوں کے مطابق 158بڑے دہشت گرد ہیں ، معاملات جن کے ہاتھ میں ہیں۔ جنہیں تخریب کاروں کے لیڈر کہنا چاہیے۔ ریاست کچھ ایسی بھی کمزور نہیں ۔ ان کے گرد اگر گھیرا تنگ کر دیا جائے تو مطلوبہ مقاصد کے حصول کا واضح امکان ہے ۔ وزیراعظم بہرحال پسیج گئے اور پھر سے مذاکرات پر غور کرنے لگے ۔ پارلیمنٹ سے خطاب کی صبح اچانک انہوں نے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت مختلف شخصیات سے بات کی کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بن جائیں۔ تیاری تھی نہیں، مضمرات پہ سوچا نہیں۔ طالبان کے ممکنہ لائحہ عمل کا اندازہ قائم نہ کیا گیا۔ نتیجہ ظاہر ہے، ہر طرف ایک ذہنی خلفشار ع
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک جامع لائحہ عمل موجود نہیں ۔ اس کے خطوط پر غور ہوتا رہامگر تشکیل نہ پا سکا کہ میاں صاحب تذبذب کا شکار ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے ۔ ایک معتبر شخصیت نے مجھے بتایا: ایک مرحلے پر وزیراعظم قدرے یکسو نظر آئے۔ ان کی اطلاع کے مطابق ایران، سعودی عرب اور قطر کو پیغام بھیجا گیا کہ فرقہ ورانہ مذہبی گروہوں کو ان ممالک سے ملنے والی امداد بند ہونی چاہیے۔ سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں سے ۔ کیا یہ اطلاع درست ہے ؟ حکومت ہی بتا سکتی ہے ، جو شاید خاموش رہنا پسند کرے کہ ملک کمزور ہے اور علی الاعلان حرفِ شکایت زبان پر نہیں لا سکتا۔ سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ کا وہ فرمان اس سے متعلق معلوم ہوا ، جس میں کہا گیا ہے کہ سرحد پار تخریب کاری کے حامیوں کو جیلوں کی سیر کرنا پڑے گی ۔
ملک میں افواہوں کا راج ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ایک جملہ منسوب کیا گیا۔ عمران خان کے بقول ، وزیراعظم سے انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت وزیرستان میں آپریشن کیا گیا تو کامیابی کے امکانات تیس چالیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ جنرل نے یہ کہا تھا کہ اگر تیاری کے بغیر اور اچانک ایسا کیا جائے تو ناکامی کا اندیشہ ہے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ منصوبہ بندی کے لیے پندرہ دن درکار ہوں گے ۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ناکامی کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ تخریب کاری کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ ایک فوجی افسر سے پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا ''کیا شمالی وزیرستان سیاچن گلیشئر سے زیادہ مشکل ہے ؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک مٹھی بھر تخریب کاروں پہ قابو نہیں پا سکتی ؟ سوات اور جنوبی وزیرستان، مہمند اور دوسری ایجنسیوں کی طرح ان کا صفایا کر دیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا ''البتہ ذمہ داری سول حکومت کو قبول کرنا ہوگی۔ یہ ان کا فرض اور ان کا حق ہے کہ فیصلہ کریں‘‘۔ ان سے کہا گیا کہ شمالی وزیرستان میں موسم ناسازگار ہے اور کوہستانی بلندیاں غیر معمولی ہیں ۔ ان کا جواب یہ تھا: اس طرح کی بچگانہ باتیں وہ لوگ کیا کرتے ہیں ، جو معاملات اور علاقے کی نوعیت سے بے خبر ہیں ۔ کیا سوات اور جنوبی وزیرستان میں ایسے ہی بلند پہاڑ موجود نہیں تھے ؟
حقانی گروپ کے حوالے سے بار بار دہرائے گئے مفروضوں پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ اس گروپ کے اندر اب طالبان، لشکرِ جھنگوی اور القاعدہ نے راستے بنا لیے ہیں۔ اس کا کردار بدل چکا؛چنانچہ اس کے بارے میں ترجیحات اور حکمتِ عملی بھی ۔ وزیراعظم اور ان کے رفقا کی خدمت میں حقائق پیش کیے جا چکے ۔ا ب یہ ان پر ہے کہ لائحہ عمل طے کریں۔ فوج وہی کرے گی ، جو اس سے کہا جائے گا۔ غیر ضروری بحثوں میں اسے نہ گھسیٹا جائے۔ وہ اپنا تجزیہ پیش کر سکتی ہے مگر اس کا کام حکم کی اطاعت ہے ۔ وہ دن ہوا ہوئے ، جب غیر ضروری مداخلت ہوا کرتی ۔ مشورہ دیا جاتاہے اور وہ بھی وفاقی حکومت کی خواہش پر ۔ کراچی آپریشن میں رینجرز وزیراعظم اور وزیرِ داخلہ کی طے کردہ ترجیحات اور حکمتِ عملی کے مطابق بروئے کار ہیں ۔ شمالی وزیرستان اگرچہ مختلف انداز کا میدانِ جنگ ہے ؛تاہم فیصلہ انہی کو صادر کرنا ہے ۔
سالک نے اپنے شیخ سے کہا : مجھے اسمِ اعظم عطا فرمایئے ۔ ایک برتن اسے دے کر بھیجا گیا، اس تاکید کے ساتھ کہ کھول کر نہ دیکھے۔ وہ باز نہ رہ سکا۔ چوہا اس میں سے نکل کر بھاگا اور درویش نے کہا : ایک چوہا تم سے سنبھالا نہ گیا اور اسمِ اعظم پوچھتے ہو؟
مذاکراتی عمل کو قریب سے دیکھنے والوں کا احساس یہ ہے کہ وزیراعظم کو ذاتی طور پر نگرانی کرنی چاہیے۔ زیادہ نہیں تو ہر صبح اور ہر شام پیش رفت کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔ دونوں کمیٹیوں کے بعض ارکان غیر ذمہ داری کے مرتکب ہیں ۔ اگر یہ نہیں تو سب کچھ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو سونپ دینا چاہیے۔ یقین سے کہا جا سکتاہے کہ وہ مسخرے پن کی اجازت نہیں دیں گے ۔ تین ہزار برس ہوتے ہیں ۔ بلادِ شام کے قہرمان حاکم بالطشطنرنے ایک خواب دیکھا تھا۔ اللہ کے پیمبر جنابِ دانیالؑ نے اس خواب کی تفصیل اسے بتائی اور تعبیر بھی: بادشاہ! دیوار پہ لکھا ہوا تو نے پایا ''منّی منّی تقیل‘‘ تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا۔
بحران بڑا ہے اور لیڈر چھوٹے ۔ کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ یہ بیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ انا کو گنّے کا رس پلانے میں وہ کچھ توقف فرمایا کریں ؎
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟