کنفیوژن ! یہ ہے وہ مرض ، حکمران جس میں مبتلا ہیں۔ جو کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں ، وہ کوئی بڑا فیصلہ صادر کر سکتے ہیں اور نہ جامع منصوبہ بندی ۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لا دوا نہ تھے
کیا ڈاکٹر شعیب سڈل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سربراہی کے امیدوار ہیں ؟ کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ کہا تھا کہ شمالی وزیرستان آپریشن میں کامیابی کے امکانات صرف چالیس فیصد ہیں ؟
اتفاق سے ان دونوں ممتاز شخصیات سے طویل ملاقاتیں ہوئیں ۔ جنرل نے سختی سے تردید کی اور رنج کے ساتھ کہا کہ جو لوگ اس موقعہ پر موجود تھے، وہ کیوں وضاحت نہیں کرتے ۔ جہاں تک ان کا تعلق ہے ، وہ سیاسی مباحث سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔
ڈاکٹر سڈل اور جنرل کیانی میں مشترک یہ ہے کہ میڈیا سے وہ دور رہنا چاہتے ہیں ۔ چالیس برس پہلے کوئٹہ میں ان کی ملاقات ہوئی تھی ، جب عملی زندگی کا انہوں نے آغاز ہی کیا تھا ۔ اب بھی وہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر شعیب سڈل ہنسے اور انہوں نے کہا : جب میں نے درخواست ہی دائر نہیں کی تو یہ خبر کیوں پھیلائی جا رہی ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے ان کا نام تجویز کیا۔ ایک سو سے زیادہ امیدواروں میں سے لگ بھگ دو درجن نام ''شارٹ لسٹ‘‘ کیے گئے۔ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے کسی نے انہیں فون کیا کہ وہ انٹرویو کے لیے حاضر ہوں ۔ ان کا جواب یہ تھا : کیسا انٹرویو؟ میں اس معاملے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اس سے قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے ان کا نام زیرِ بحث آیا۔ دونوں بار اپنے خیر خواہوں سے انہوں نے معذرت کی اور یہ کہا : اگر کسی ذمہ داری کے وہ اہل ہیں تو خود حکومت کو ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔
خیبر پختون خوا میں محتسب کا ادارہ تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا تو عمران خان نے ذاتی طور پر ان سے درخواست کی۔ یہ قانون سازی کا مرحلہ تھا۔ مسوّدے کا انہوں نے جائزہ لیا اور اس میں ترامیم تجاویز کیں ''تاکہ اسے زیادہ فعال اور متحرک بنایا جا سکے‘‘ ان تجاویز سے عمران خان نے اتفاق کیا مگر جب صوبائی اسمبلی نے متعلقہ قانون منظور کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مذکورہ تجاویز کا نام و نشان تک اس میں نہ تھا۔ تب تحریکِ انصاف کے سربراہ کو انہوں نے مطلع کر دیا کہ وہ یہ پیشکش قبول نہیں کر سکتے۔
ملازمت سے سبکدوشی کے باوجود ڈاکٹر شعیب سڈل ایک مصروف زندگی گزارتے ہیں ۔ دنیا کے کئی ممتاز تحقیقی اداروں کے لیے وہ کام کرتے ہیں اور آئے دن مزید فرمائشیں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ ان کاکہنا یہ ہے کہ محض روزگار یا شان و شوکت نہیں بلکہ قومی خدمت کے نقطۂ نظر ہی سے کوئی ذمہ داری وہ قبول کر سکتے ہیں ۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنے مکان کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ا ٓرمی ہائوس سے اٹھ کر ، وہ فوج کے مہمان خانے میں منتقل ہو چکے ، جہاں اب بھی ان کا بیشتر سامان بندھا رکھا ہے ۔ دو تین ہفتوں کے اندر اسی گلی میں، جہاں چھ برس سے وہ مقیم ہیں ، ڈیڑھ کنال پر مشتمل ان کا گھر مکمل ہو جائے گا تو وہ اس میں منتقل ہو جائیں گے ۔
جنرل نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی سے متعلق انہوں نے الگ سے دی جانے والی بریفنگ نہیں بلکہ کل جماعتی کانفرنس میں بات کی تھی ۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے وفود جہاں موجود تھے ۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ سب کے سامنے پیش کیے گئے نقطۂ نظر کی وہ خود وضاحت کریں ۔ بہرحال جو بات ان سے منسوب کی جا رہی ہے ، وہ یکسر غلط ہے ۔ عمران خان پر نکتہ چینی سے انہوں نے گریز کیا اور یہ کہا: شاید وہ متوجہ نہیں تھے، شاید وہ میری بات ٹھیک سے سن نہ پائے۔
موزوں ترین الفاظ میں راجہ ظفر الحق نے واقعہ بیان کر دیا ہے۔ جنرل نے کہا تھا : یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی تمام ہوتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا؛ البتہ اس میں چالیس فیصد تک کمی آ جائے گی ۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ جیسے ہی فوجی اقدام کا آغاز ہو گا ، ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردوں کے گروہ متحرک ہو جائیں گے ۔ کراچی ، پنجاب اور بلوچستان ۔ ایک جامع منصوبے کے تحت اس ردّعمل کوروکنے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔ ان کا اصرار یہ تھا کہ عوامی توقعات بلند نہ کی جائیں ۔ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے اڈے ختم ہوتے ہی امن قائم ہو جائے گا ۔آپریشن کے بعد ملک کے دوسرے حصوں میں افسوسناک واقعات ہوئے تو پھر سے فوج کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ان لوگوں کو اسے بدنام کرنے کا موقعہ مل جائے گا ، جو ایسا کرنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ جنرل کو اس پر بھی اصرار تھا کہ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم کو وہ بتا چکے تھے کہ کراچی میں پولیس کے پاس بلٹ پروف جیکٹس تک موجود نہیں ۔ صوبوں کے شورش زدہ علاقوں میں بعض مقامات پر دہشت گردوں کے پاس پولیس سے بہتر اسلحہ موجود ہے ۔ اسی لیے انہوں نے بلوچستان اور پختون خوا پولیس کو فوج کے اسلحہ خانے سے پانچ، پانچ ہزار مشین گنیں فراہم کی تھیں ۔ مزید یہ کہ ان کی تربیت کے لیے مسلّح افواج کی طرف سے معاونت کی پیشکش کی ۔ جہاں کہیں ممکن ہوا، عملی اقدامات بھی کیے ۔
جنرل کیانی کے لیے وہیں پڑوس میں مقیم جنرل عبدالوحید کاکڑ نمونۂ عمل ہیں ، فوج سے علیحدگی کے بعد جنہوں نے یکسر خاموشی اختیار کر لی اور غیر ضروری ملاقاتوں سے گریز کرتے ہیں ''ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ مجھے کبھی نہ ملا مگر سبکدوشی کے بعد ان سے ملاقات رہتی ہے‘‘ طالبِ علمانہ مزاج کے آدمی نے کہا۔ اپنا منصب ترک کر دینے کے بعد جس نے ٹاک شو دیکھنا چھوڑ دئیے ہیں ''اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے مجھے اس کی ضرورت پڑا کرتی‘‘ انہوں نے کہا ''لیکن اپنی صاحبزادی سے ، جس نے ایک شام مجھے دبائو میں دیکھا تھا ، میں نے وعدہ کیا تھا کہ جب ذمہ داریوں سے میں نجات پالوں گا تو ٹی وی دیکھنا ترک کر دوں گا ۔ گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ میں نے ٹاک شو دیکھنے میں گزارا ہوگا‘‘۔
جنرل کیانی خود تو تفصیل کے ساتھ بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں مگر ان کے قریبی ذرائع یہ کہتے ہیں :جنرل نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ فوج شمالی وزیرستان میں دو ہفتے کے نوٹس پر کارروائی کا آغاز کر سکتی ہے اور امید ہے کہ تین ہفتے میں اسے نمٹا دیا جائے گا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مذاکرات آئین کے دائرے میں ہونا چاہئیں اور بات چیت کی مدت مقرر کر دی جائے۔ لا محدود طور پر وہ جاری نہ رہیں۔ ان کا مشورہ یہ بھی تھا کہ طالبان سے بات چیت ایسے رہنمائوں کے حوالے نہ کر دی جائے ، جو ایک فریق سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔
کنفیوژن ! یہ ہے وہ مرض ، حکمران جس میں مبتلا ہیں ۔ جو کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں ، وہ کوئی بڑا فیصلہ صادر کر سکتے ہیں اور نہ جامع منصوبہ بندی ۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لا دوا نہ تھے