ایک طلسمِ ہوشربا جو اس مظلوم ملک میں حکمران طبقات اور دانشوروں کے ذہنی اور اخلاقی افلاس کے علاوہ المناک احساسِ کمتری کی کہانی کہتی ہے ۔
رختِ دل باندھ لو، دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو
نصف شب کو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن کو نیند سے جگایا اور یہ کہا : بلوچ باغیوں کی قید میں ان کا مغوی افغانستان کے فلاں مقام پر موجود ہے ۔ اگر وہ اسی وقت صدر حامد کرزئی سے رابطہ کر سکتی ہیں تو فورا ًہی اسے رہا کرایا جا سکتاہے ۔ گول مٹول چہرے والاقیدی رہا کرالیا گیا اور فوراً ہی وہ وطن روانہ ہو گیا۔
مسلسل تیس گھنٹے تک جاگتے رہنے کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کی نیند لے کر ابھی ابھی بستر سے اٹھا ہوں ۔ کسی آئندہ کالم میں مقامات ، تاریخوں اور ناموں کی پوری تفصیل عرض کر دوں گا کہ اس وقت کالم گھسیٹنے کے لیے مشکل سے ایک گھنٹہ میسر ہے ۔ صحت اب بہتر ہے اور تیزی سے بہتر ہوتی جا رہی ہے ۔مکمل بحالی کے لیے مگر کئی دن درکار ہوں گے کہ المناک حادثات ہیں ، جو دل و جان پر بیت گئے ہیں ۔ اللہ کی رحمت کا سہارا نہ ہوتا تو پائوں پھسل گیا تھا۔
طبیعت یکسو اور صحت برقرار ہوتی تو لا پتہ افراد پر تحقیق کے تقاضے پورے کرنے کی اپنی سی پوری سعی کرتا۔ کل سے جتا ہوا تھا ۔ ماما قدیر کو ایک افسانوی شخصیت کے طور پر پیش کیاجا رہا ہے ۔ ایک سنسنی خیز کھیل کا آغاز ہو چکا ، جو ممکن ہے کہ انتہائی خطرناک بھی ہو۔
غیر مصدقہ معلومات کے مطابق ، ایک عام سے گھرانے کا یہ شخص تھورایاٹیلی فون استعمال کرتاہے ، جس پر ساری دنیا سے کالیں موصول ہوتی ہیں۔ کیا وہ ایک مجاہد ہے یا بالکل ایک برعکس کردار؟
کوئی دن میں فیصلہ ہوا جاتاہے ۔ پسِ منظر کے جو ادھورے سے حقائق میں جمع کر سکا ، وہ حیران کن ہیں ۔ مثلاً 2002ء میں لا پتہ افراد کی تعداد 8000بتائی گئی ۔ ان میں سے اکثر کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ 2008ء میں جب یہ معاملہ پوری شدّومد سے سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تو حیرت انگیز طور پر یہ تعداد صرف 1100رہ گئی ۔ عدالتِ عظمیٰ نے بلوچستان کی صوبائی خفیہ ایجنسی سی آئی ڈی کو ذمہ داری سونپی تو یہ تعداد صرف ڈیڑھ فیصد رہ گئی... 110افراد۔ ان میں سے 87افراد کے کوائف مہیا کیے گئے۔ باقی 23 افراد کی کسی ایک شخص نے بھی تصدیق نہ کی کہ کبھی پولیس ، ایف سی یا کسی دوسرے سرکاری ادارے سے اس کا واسطہ پڑا ہو۔
18ستمبر 2013ء کو سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ان میں سے 8افراد انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ، 6عدد پولیس کی حراست میں اور 12 ایف سی کے پاس۔ صرف ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ براہِ راست وہ افواجِ پاکستان کی گرفت میں ہے ۔
غیظ و غضب سے بھری سپریم کورٹ نے ایف سی کے آئی جی کو طلب کیا تو وہ گھبرائے۔ بالآخر 26دسمبر 2013ء کو وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور دو افراد کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ ان میں سے ایک کاہو خان کو کوئٹہ پولیس نے تلاش کر لیا تھا۔ وہ افغانستان کے ایک فراری کیمپ میں تھا‘ جہاں سے‘ امریکی وزیرِ خارجہ چک ہیگل کے بقول‘ برسوں سے بھارت بلوچستان میں سرگرم ہے ۔ تین برس ہوتے ہیں ، جب مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو تفصیلات فراہم کی تھیں۔ عالمی اخبار نویسوں کو ا نہوں نے اس بارے میں بتایا اور اس حال میں بھارتی لیڈر واپس پہنچا کہ وہ خفت اور دبائو کا شکار تھا۔ بھارتی پریس پاکستانی اخبارات سے یکسر مختلف ہے ۔ سلامتی سے متعلق امورمیں ، ڈٹ کر وہ اپنی حکومت کے ساتھ کھڑا رہتاہے ۔
یہ کوئی راز نہیں کہ بلوچستان میں صرف امریکہ نواز جند اللہ ہی مصروفِ عمل نہیں ، جس کے لیڈر عبد المالک ریگی کو سالِ گزشتہ پاکستان نے ایران کے حوالے کیا تھا۔ انہی دنوں یہ اخبار نویس ایران کے شہر مشہد پہنچا ۔ ملک کے سب سے بڑے فارسی اخبار خراسان کے ایڈیٹر سے اس نے سوال کیا: آخر کیا سبب ہے کہ پاکستانی پریس میں تو ایران کے حق میں لکھا جا سکتاہے اور برائے نام کبھی اس کے خلاف بھی مگر ایرانی پریس میں ایک لفظ بھی پاکستان کے حق میں چھپ نہیں سکتا۔ انگریزی کا ایک لفظ نہ جاننے والے جواں سال مدیر کا جواب یہ تھا ''عبد المالک ریگی ایسے لوگوں کی وجہ سے‘‘حیرت زدہ میں نے پوچھا : مگر اسے تو ایران کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس پر اوّل مترجم گڑبڑایا ، پھر مدیرِ محترم، جن کا تقرر ولی ٔ فقیہ کرتاہے ۔ ارشاد کیا : میں اپنی بات واضح نہ کر سکا اور مترجم میرا مفہوم نہ سمجھ سکا۔''آپ کا مفہوم کیا ہے؟‘‘... جواب میں ایک سنّاٹا!
امریکہ ہی نہیں ، اس کے جواب میں پاکستان میں لشکر کشی کی دھمکی دینے والا ایران ہی نہیں ، متحدہ عرب امارات کے جاسوس بھی بلوچستان میں گرفتار ہوئے ۔ برطانیہ اور بھارت کے ۔ اور افغانستان کے بھی ۔آئی ایس آئی نام کیوں جاری نہیں کرتی؟
3جنوری کو امریکی سینیٹر لوئی گومرٹ Louie Gomertنے کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا : پاکستان ، بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنے پر تلا ہے (امریکہ کیلیفورنیا کے وسائل پر قابض ہے ۔ بھارت بنگال کے وسائل پر )۔ ہمیں بلوچوں کی مدد کرنی چاہیے ۔ جلد ہی امریکی حکومت کی یہ وضاحت سامنے آئی کہ یہ سرکاری موقف نہیں ۔ اگر ایک بھی بے گناہ بلوچ کو پولیس ، ایف سی ، آئی ایس آئی یا افواج نے گرفتار کر کے غائب کر دیا ہو تو یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ اس پر احتجاج ہونا چاہیے اور اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک اس کا سراغ نہ لگا لیا جائے ۔ دو سوالات مگر حیران کن ہیں ۔ اوّل یہ کہ لا پتہ افراد کے حق میں تحریک چلانے والے چار معزز اخبار نویسوں میں سے کسی ایک نے بھی واقعے کا ذکر تک کرنا بھی کیوں گوارا نہ کیا ؟ ان میں سے دو مختلف انگریزی اخبارات میں لکھا کرتے ہیں لیکن چند ہفتوں کے اندر اب وہ سارے کے سارے ایک ہی ادارے سے کیوں وابستہ ہو گئے ؟ سوشل میڈیا پہ 90فیصد افراد کے نزدیک یہ ادارہ بھارت نواز ہے ۔ الزام ہے کہ پاکستانی پریس پر صرف کیے جانے والے 50ملین امریکی ڈالرز سالانہ میں سے زیادہ تر کا مستحق وہی سمجھا جاتاہے ۔ وہ اخبار نویس بھی اسی ادارے سے وابستہ ہے، جس نے امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ایک ٹی وی چینل تشکیل دینے کے لیے اسے 50ملین ڈالر دیے جائیں ۔ اس کی جائیداد واشنگٹن میں واقع ہے اور حیرت انگیز طور پر وہ وزیراعظم پاکستان کو بہت عزیز ہے ۔ حال ہی میں اس نے عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوایا کہ وہ اسے ایجنٹ قرار دیتے ہیں ۔ اگر عدالتِ عالیہ میں یہ مقدمہ چلا تو ملک کی تاریخ کے دلچسپ ترین انکشافا ت کا حامل ہوگا۔
لاپتہ افراد میں سے کتنے ایسے ہیں ، جو افغانستان میں واقع 30فراری کیمپوں میں مقیم ہیں ؟ افغانستان اور بھارت کی مدد سے یہ کیمپ ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی نے قائم کیے تھے ۔ دو برس تک حکومتِ پاکستان بھارت سے احتجاج کرتی رہی کہ ان دونوں آدمیوں کو بھارت کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں دیکھا جاتا ہے۔ ٹھوس شواہد فراہم کیے جا چکے تو وہ لندن اور سوئٹزرلینڈ جا براجے۔ مظلوم لاپتہ لوگوں میں کتنے ہیں ، جو لہڑی اور لانگو، رئیسانی اور بگتی، سلمان خیل اور لونی ، ترین اور نصیر، سمرانی اور پیر زندانی، حسنی اور مرزانی ، چاکر اور مسوری قبائل کی کشمکش میں مارے گئے؟ صحت بحال ہو تو تفصیلات عرض کروں گا ۔ یہ بھی کہ ایک ہی قبیلے کے کچھ لوگ پاکستان کے حامی اور دوسرے باغی ہونے کے باوجود باہم شیر و شکر کیسے ہو جاتے ہیں ۔
ایک طلسمِ ہوشربا جو اس مظلوم ملک میں حکمران طبقات اور دانشوروں کے ذہنی اور اخلاقی افلاس کے علاوہ المناک احساسِ کمتری کی کہانی کہتی ہے ۔
رختِ دل باندھ لو، دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو