اللہ کے آخری رسولﷺ کا وہ فرمان ایک بار پھر یاد کیجیے: ''جسے شرم نہیں، وہ اپنی مرضی کرے‘‘۔
ان کے بارے میں اور کیا عرض کیجیے جو ثالث کو حَکَم مانتے ہی نہیں۔ طالبان ہی کیا، جس موضوع پر بھی وہ جو چاہیں، کچھ بھی ارشاد فرمائیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو حکمران تسلیم کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ یہی نہیں، ان کی بات سننے سے بھی۔ وہ کہا کرتے تھے ''ان الحکم الا للہ‘‘ ۔ ان کا جواب وہی تھا جو طالبان کا ہے... شریعت، شریعت، قرآن، قرآن۔ حدیث رسولﷺ یہ ہے اور ان میں سے کسی کو یاد نہ آئی''ھوالمعطی و انا القاسم‘‘ ''وہ عطا کرنے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں‘‘۔ اسّی فیصد قوانین حدیث سے آئے ہیں، سیرت سے۔ جہالت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اب کراہت ہونے لگی۔ طالبان اگر ان کے بھائی ہیں تو ہمارا کوئی واسطہ ان سے نہیں۔ قاتل اور درندے انسانوں کے بھائی کیسے ہو گئے؟ صرف مینگورہ شہر سے دو سو لڑکیاں انہوں نے اغوا کیں اور بعض کی جبراً شادیاں کر دیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ نے جناب عبداﷲ ابن عباسؓ کو خارجیوں کے پاس روانہ کیا۔ ''بلوغ الارب‘‘ میں لکھا ہے کہ دو سو برس کی عمر پانے والے صحرا نشین خطیب نے جو امیر معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انہیں ''تمام علم اور تمام حلم‘‘ کہا تھا۔ اللہ کے آخری رسولﷺ انہیں عزیز رکھتے۔ عہد زریں کے کبار اہل علم میں ان کا شمار تھا۔ فقہ کے باب میں محتاط ترین عمر فاروق اعظم ؓ ان سے مشورہ کیا کرتے۔
ہماری تو اب کون سنے گا؟ کیا وہ ''تلبیس ابلیس‘‘ کے مؤلف
علّامہ ابن جوزی کی سننے پر آمادہ نہیں؟ غزالیؒ نے جن سے سیکھا اور جو فریب نفس پر لکھنے والوں میں مسلم تاریخ کی سب سے بڑی اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ لکھا ہے:''ابن عباسؓ نے روایت کیا، خوارج الگ ہوئے تو ایک احاطے میں جمع ہوئے اور وہ چھ ہزار تھے۔ سب نے اتفاق کیا کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؓ پر خروج کریں گے۔ لوگ ایک ایک دو دو برابر آتے اور خبر دیتے: امیرالمومنین یہ گروہ آپ پر خروج کرنے والا ہے۔ فرماتے: انہیں چھوڑو۔ میں ان سے قتال نہیں کرتا جب تک وہ مجھ سے قتال نہ کریں۔ وقت قریب ہے کہ جب وہ خود ایسا کریں گے۔ پھر ایک روز نماز ظہر سے پہلے میں نے آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: اے امیرالمومنینؓ ظہر کی نماز میں ٹھنڈے وقت تک تاخیر کیجیے، میرا ارادہ ہے کہ اس گروہ میں جا کر ان سے گفتگو کروں۔ آپ ؓنے فرمایا: مجھے ان کی طرف سے آپ کی ذات پر خوف ہے۔ میں نے عرض کیا: جی نہیں آپ مجھ پر خوف نہ کیجیے۔ میں ایک ملنسار شخص تھا، کسی کو ایذا نہ دیتا تھا۔ میں نے بیش قیمت حلہ پہنا اور خارجیوں کے ہاں پہنچا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے وہاں ایسی قوم کو دیکھا جن سے بڑھ کر عبادت میں کوشش کرنے والی قوم میں نے نہ دیکھی تھی۔ ان کی پیشانیوں پر سجدے کی کثرت سے زخم پڑ گئے تھے۔ ان کے ہاتھ گویا اونٹ کے دست تھے، زمین پر ٹکے رہنے سے غبار آلود، بدن پر حقیر قمیص، ازاریں ٹخنوں سے بہت اونچی۔ شبوں کو عبادت میں جاگنے سے چہرے خشک۔ میں نے کہا، میں مہاجرین و انصار کے پاس سے آیا ہوں اور رسول اﷲﷺ کے داماد کے پاس سے۔ انہی لوگوں پر قرآن نازل ہوا اور یہ لوگ قرآن کے معنی تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا: یہ قریش سے ہے، تم قریش سے مناظرہ مت کرو کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قریش کے حق میں فرمایا کہ ''بل ھم قوم خصمون‘‘ یہ لوگ حجت باز ہیں۔ پھر ان میں سے دو تین بولے: ہم ان سے مباحثہ کریں گے۔ تب میں نے کہا کہ تم لوگ وہ الزامات بیان کرو جو تم نے رسول اﷲﷺ کے داماد اور مہاجرین و انصار پر لگائے ہیں۔
خوارج نے کہا: وہ تین باتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ علیؓ نے خدا کے معاملے میں لوگوں کو ثالث بنایا، حالانکہ اللہ فرماتا ہے ''ان الحکم الا ﷲ‘‘ حکم کسی کا نہیں سوائے اللہ کے۔ قول الٰہی کے بعد آدمی کو حَکَم سے کیا تعلق رہا۔ میں نے کہا کہ یہ تو ایک ہوا اور کیا ہے؟ کہنے
لگے: دوسرا اعتراض یہ کہ علیؓ نے لوگوں سے قتال کیا مگر نہ مخالفوں کو لونڈی غلام بنایا اور نہ ان کا مال لے کر غنیمت جہادی ٹھہرایا۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ علیؓ نے عہد نامہ لکھواتے وقت ''امیرالمومنین‘‘ کا لقب اپنے نام سے مٹا دیا۔ پس وہ اگر امیرالمومنین نہیں ہیں تو (نعوذباللہ) امیرالکافرین ہوئے۔ میں نے پوچھا: کیا کچھ اس کے سوا بھی کوئی اعتراض باقی ہے۔ خوارج نے کہا کہ بس یہی کافی ہیں۔ میں نے کہا کہ پہلا قول تمہارا یہ کہ امر الٰہی میں علی ؓنے لوگوں کو حاکم بنایا ہے۔ اگر میں تم پر کتاب الٰہی سے ایسی آیات تلاوت کروں جن سے تمہارا قول ٹوٹ جائے تو کیا تم اپنے قول سے توبہ کر لو گے۔ کہنے لگے کہ ہاں! میں نے کہا کہ اللہ نے ایک خرگوش کے معاملے میں جس کی قیمت چوتھائی درہم ہوتی ہے، دو مردوں کے حکم پر اس کا فیصلہ راجح کر دیا۔ میں نے آیت پڑھی: ''لاتقتلوا الصید وانتم حرم‘‘احرام کی حالت میں شکار سے ممانعت فرمائی۔ اور اگر کسی نے جرم کیا، مثلاً ایک خرگوش مارا تو فرمایا کہ تم میں دو عادل مرد اس موقع پر جہاں جانور مارا ہے اس کی قیمت کا فیصلہ کریں۔ اللہ نے عورت اور اس کے شوہر کے معاملے میں فرمایا: ''وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا‘‘ ''مرد کی برادری سے ایک مرد اور عورت کی برادری سے ایک مرد بھیجو، وہ دونوں ان کے معاملے میں فیصلہ کریں‘‘۔
اب میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بھلا مردوں کا فیصلہ کر کے خونریزی روکنا زیادہ افضل ہے یا کہ خرگوش اور ایک عورت کے معاملے میں؟ خوارج نے کہا کہ ہاں بے شک اصلاح میں افضل ہے۔ بڑی خونریزی کا اس طرح سدباب ہوا۔ میں
نے کہا: اچھا تمہیں جواب مل گیا؟ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: رہا تمہارا دوسرا قول کہ علی ؓ نے قتال کیا اور قیدی و غنیمت حاصل نہ کی۔ تو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم ان لوگوں کو غلام اور کنیز بناتے جو رسول اﷲؐ کے اصحاب تھے؟ تم اسلام سے خارج ہو۔ اب بتاؤ کہ میں تمہارے اس اعتراض کے جواب سے بھی باہر ہوا کہ نہیں۔ کہنے لگے: جی ہاں۔ میں نے کہا کہ رہا تمہارا یہ تیسرا قول کہ علیؓ نے امیرالمومنین کا لفظ اپنے نام سے مٹا دیا تو میں تمہارے پاس ایسے عادل گواہ لاتا ہوں جن کو تم مانتے ہو، جب حدیبیہ میں رسول اﷲﷺ نے مشرکوں کے ساتھ صلح ٹھہرائی تو ان کے سرداروں کے ساتھ عہد نامہ لکھوایا اور علیؓ سے فرمایا کہ لکھو ''یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمدؐ رسول اللہ اور ۔۔۔‘‘ تو مشرکوں نے کہا کہ واﷲ! یہ ہم نہیں جانتے کہ آپؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ اگر ہم جانتے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو ہم قتال نہ کرتے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''اللہ جانتا ہے کہ میں اس کا فرستادہ ہوں‘‘ اے علیؓ ! اس کو مٹا دو اور یوں لکھو کہ یہ صلح نامہ محمد بن عبداللہ اور اہل مکہ نے لکھا۔۔۔‘‘۔ اب تم دیکھو کہ اللہ کے رسولؐ ،علیؓ سے بہتر ہیں، رسول اللہؐ کا لفظ اپنے نام سے محو کرا دیا حالانکہ اس سے وہ رسول اللہ ہونے سے خارج نہیں ہو گئے۔
ابن عباسؓ بیان کرتے تھے، اس مکالمے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوارج میں سے دو ہزار آدمی توبہ کر کے واپس آئے اور باقی اپنی گمراہی پر قتل ہوئے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کا وہ فرمان ایک بار پھر یاد کیجیے: ''جسے شرم نہیں، وہ اپنی مرضی کرے‘‘۔