نعرہ بازی تو ہم سن ہی رہے ہیں‘ وہ دانائی کہاں ہے‘ 20 کروڑ انسانوں کے مستقبل کا‘ جس پر انحصار ہے؟ ایک شعر ہے کہ بے طرح یاد آتا رہا۔
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے؟
تب ڈاکٹر صاحب نے وہ بات کہی‘ جس کی ہرگز امید نہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور قائد اعظم کا کیا موازنہ‘ بانی پاکستان کی شخصیت میں تو ایک غیر معمولی جذباتی توازن کارفرما تھا۔ کارنامے تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بھی کئی انجام دیئے‘ دشمن بھی جن کا اعتراف کرتے ہیں۔ آخری نتیجہ مگر کیا ہوا؟ ملک کو کس حال میں مگر وہ چھوڑ گئے۔ اپنی ذات کی نفی کیے بغیر‘ کوئی بڑی خدمت انجام دینا تو کجا‘ راہِ راست پہ ہی آدمی چل نہیں سکتا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: جو صبر چاہتا ہے‘ اسے صبر دے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت صبر اور غوروفکر ہی اس جذباتی توازن کی بنیاد ہے کہ ملک تو کجا‘ ایک گھر اور ایک چھوٹا سا کاروبار بھی‘ جس کے بغیر ڈھنگ سے چلایا نہیں جا سکتا۔ یہ وعظ ہے اور نتیجہ خیز تب ہو گا‘ جب خود کہنے والا بھی اس پر عمل کرے۔ وہی نہیں‘ تب اس کا گردوپیش بھی منوّر ہو سکتا ہے۔
خواجگانِ مسلم لیگ‘ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے جنرل پرویز مشرف کے باب میں جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کی منطق سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے بھی کہ جناب جاوید ہاشمی نے بھی یہی ارشاد کیا۔ وہ سب ان کے معتوب تھے۔ ان کی جیل میں ڈالے گئے۔ ان میں سے کم از کم دو کے ساتھ بدسلوکی ہوئی اور ایسی بدسلوکی جو اذیت ناک تھی۔ با ایں ہمہ یہ حبِّ علیؓ نہیں‘ بغضِ معاویہؓ ہے۔ قصاص نہیں‘ یہ انتقام کی آرزو ہے۔ جمہوریت سے محبت ہو تو اس کے دوسرے مظاہر بھی نظر آئیں۔ نون لیگ ایک وراثتی پارٹی نہ ہو۔ جاوید ہاشمی یہ دعویٰ کرنے میں تامل سے کام لیں کہ انہی کا نہیں‘ یہ پوری پارٹی کا نقطۂ نظر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خود عمران خان کی رائے قدرے مختلف ہے۔
جوشِ غضب میں خواجہ آصف نے یہاں تک کہہ دیا کہ جنرل پرویز مشرف ہی نہیں‘ ان کے ساتھیوں کا احتساب بھی ہو گا۔ کیسے ہو گا۔ وزیر وہ بنا دیئے گئے‘ مشیر وہ ہو گئے۔ ان کا احتساب کیسے ہو گا‘ خواجہ صاحب!
مقدمہ برحق۔ اگر آئین کی حکمرانی ہے تو مقدمے کے جواز سے انکار کون کر سکتا ہے مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ تنہا جنرل پرویز مشرف کیسے مجرم ہو گئے؟ ان کے رفقا معصوم اور اس قدر معصوم کہ نون لیگ سمیت‘ سبھی پارٹیوں نے ان کی خدمت میں اسمبلیوں کے ٹکٹ پیش کیے۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں‘ ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے۔
اصول واضح ہے اور بار بار واضح کیا جا چکا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: وہ قومیں برباد ہوئیں‘ جو کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں۔ قرآن کریم میں یہ لکھا ہے: کسی گروہ کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے۔ موجودہ صورتِ حال میں جنرل پرویز مشرف طاقتور ہیں یا کمزور؟ طاقتور وہ ہیں‘ بیچنے کے لیے‘ جن کے پاس کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنی سیاست تو ہے۔ وہ محفوظ ہیں اور محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں۔
انصاف کا قاعدہ یہ ہے کہ صرف وہ ہونا ہی نہیں چاہیے‘ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ جنرل کے معاملے میں انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ زخم خوردہ وکلاء کی جمعیت ان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان کے لیڈر کا کہنا یہ ہے کہ شریف حکومت دراصل جنرل کو رہا کرنے کا فیصلہ کر چکی‘ مقدمہ محض ڈرامہ ہے۔ اخباری گروپ‘ ان کے خلاف سرگرم عمل ہیں کہ اقتدار کے دنوں کا حساب برابر کر سکیں۔ جنرل کے باب میں افواہ بھی خبر ہے اور ان کے حق میں جانے والی خبر بھی افواہ۔ انصاف کیسے ہو گا؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بجلی کی گود میں وہ خود گھسے ہیں۔ فوجی قیادت نے مشورہ انہیں یہ دیا تھا کہ وہ پاکستان آنے سے گریز کریں مگر وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ خیرخواہوں میں سے‘ جس کسی نے روکنے کی کوشش کی‘ فرمایا: تم میری مقبولیت سے حسد کرتے ہو۔ ایک ٹھکرائے ہوئے آدمی سے حسد؟ اس پر‘ جس انداز میں مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا‘ وہ بھی عالی جناب کی بصیرت کا شاہکار ہے۔ میرے عزیز دوست‘ احمد رضا قصوری ہی کیا کم تھے کہ ایک رانا صاحب بھی شامل کیے گئے۔
خصوصی عدالت کے طرزِ عمل میں کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ برہمی کا جواز ہو۔ غیر معمولی صبر و تحمل کے باوجود جو ججوں کے شایانِ شان ہوتا اور اعتبار عطا کرتا ہے‘ ان کا مذاق اڑایا گیا۔ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ اپنے پائوں پر کلہاڑی انہوں نے خود ماری مگر ایک آدمی کا نہیں‘ ملک کا مسئلہ ہے۔ بڑی تصویر دیکھنا ہوتی ہے۔ مضمرات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ تجزیہ کرتے ہوئے‘ ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مستقبل پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات پر غوروفکر کی۔
اطلاعات یہ ہیں کہ وزیر اعظم نرمی کی طرف مائل ہیں۔ ان کا مزاج تو نہیں کہ آسانی سے معاف کر دیں لیکن وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں۔ زیادہ نہ سہی تلخ تجربات سے‘ کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہو گا۔ خواجہ سعد رفیق کہہ سکتے ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے میاں محمد نواز شریف نہیں کہہ سکتے۔
اوّل اوّل تحقیق جب نہیں کی تھی تو میرا خیال یہ تھا کہ افواج میں بڑے پیمانے پر ناراضی پیدا نہ ہو گی۔ گزشتہ چند دنوں میں جائزہ لیا تو حیران رہ گیا۔ عسکری قیادت تو الگ اور ظاہر ہے کہ وہ لب نہیں کھولتے مگر عام فوجی افسروں اور جوانوں میں ردِّعمل شدید ہے۔ عدم تحفظ کے مارے ایک معاشرے میں نئے قبیلے بنا کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم اس کی ایک مثال ہے‘ دوسری پیپلز امن کمیٹی۔ فوج بھی ایک قبیلہ ہے۔ خاص طور پر اس احساس کے طفیل کہ بیرون ملک سے ان کے خلاف پیہم سازشیں ہوتی ہیں اور ملک کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں‘ جو ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ بعض تو کھلّم کھلّا۔ بعض تو علی الاعلان‘ روپیہ لے کر... اور یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ حکومتیں بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں‘ حتیٰ کہ فوجی حکومتیں بھی نہیں۔ فوج میں ایک نظام ہے‘ ماہانہ انٹیلی جنس رپورٹس کا۔ کسی سے پوچھا کہ کیا ان میں ناراضی جھلک اٹھی ہے۔ جواب یہ تھا: ان رپورٹوں کو چھوڑیے‘ ردِّعمل تو سامنے دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمارا سابق سربراہ‘ اس پاکستان نژاد‘ امریکی سے بھی کمتر ہو گیا‘ جسے بیرون ملک جانے کی اجازت عطا ہوئی تھی۔
جہاں انصاف نہ ہو‘ اوّل وہاں غیبت ہوتی ہے‘ پھر جذباتیت کا غلبہ‘ اس کے بعد دشمنی اور دشمنی میں گروہ بندی۔ ہارنے والا تو ہارتا ہے مگر جیتنے والا بھی ہار جاتا ہے۔ نہ صرف عدل لازم ہے بلکہ حکمت بھی۔ مشرف کا مارشل لاء پہلا نہیں تھا۔ حکومت سے الگ ہو کر‘ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پہلی عوامی جماعت تخلیق کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے میاں محمد نواز شریف‘ فوج کی گود میں پلے بڑھے‘ حتیٰ کہ طاقتور ہو گئے‘ مگر کتنے طاقتور؟ لوہے کے بت‘ جن کے پائوں مٹی کے بنے تھے۔
مارشل لاء سے مکمل اور حتمی نجات کے لیے‘ جو ایک اعلیٰ مقصد ہے‘ صرف کسی جنرل کو سزا دینا کافی نہیں‘ کچھ اور تقاضے بھی ہیں۔ پاکستان ایک مختلف ملک ہے۔ کوریا اور تائیوان کی طرح۔ اس کی سلامتی کے تقاضے سنگین اور نازک ہیں۔ اس کی یہ ضرورت‘ کسی بھی دوسرے ملک سے بڑھ کر ہے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہوں۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ ایک کاغذ پر تو ہیں مگر ایک صفحے پر ہرگز نہیں۔ ایک ورق کے دو طرف۔ یہ بھی غنیمت ہے اور اس لیے ہے کہ سیاسی اور عسکری دونوں اداروں نے تجربات سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا ہے۔ مگر یہ کافی نہیں‘ کچھ اور احتیاط کچھ اور سلیقہ مندی۔
ایک معمولی اخبار نویس کا منصب نہیں کہ تجویز پیش کرے۔ الجھی ہوئی صورتِ حال‘ بہت ہوش مندی اور بہت دانائی کا تقاضا کرتی ہے۔ نعرہ بازی کا نہیں‘ جذباتی توازن کا۔ نعرہ بازی تو ہم سن ہی رہے ہیں‘ وہ دانائی کہاں ہے؟ 20 کروڑ انسانوں کے مستقبل کا‘ جس پر انحصار ہے؟ ایک شعر ہے کہ بے طرح یاد آتا رہا۔
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے؟