"HRC" (space) message & send to 7575

کوئی چارہ ساز ہوتا‘ کوئی غم گسار ہوتا

ان کے دروازوں پر دستک دی جائے، جن کے دل پتھر ہو گئے، جنہوں نے 27رمضان المبارک کی شب وجود میں آنے والے وطن سے بے وفائی کا ارادہ کر لیا ع 
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے 
اللہ کا نام لے کر ارادہ کر لیاہے اور انشاء اللہ اب اس پر عمل کر کے رہوں گا۔ اس کے بھروسے پر ، جو فقط اہلِ تقویٰ کا نہیں ، ہم خطاکاروں کا بھی رب ہے ۔ جس کافرمان یہ ہے کہ اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوا جائے۔ 
اسلام آباد میں واقع اپنے گھر سے کراچی تک ، انشاء اللہ میں پیدل مارچ کروں گا۔ ایک عرصے سے واک میں کاہلی کا شکار تھا ۔ امید ہے کہ لگ بھگ100دن کی یہ ریاضت اس کا مجھے عادی بنادے گی۔ عمران خان کہاکرتے ہیں : اس وقت آدمی ورزش کرنا چھوڑتا ہے ، جب اس کا بد ن اس کا اور زیادہ متقاضی ہوتا ہے ۔ 
شب بھر جاگنے اور شب بھر سوچنے کے بعد یہ فیصلہ میں نے کیوں کیا؟ یہ بات میں ٹیلی ویژن پر بتا چکا ہوں اور بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ 
ایک ممتاز اخبار نویس پر حملے کا اقدام شرمناک ہے ۔ فقط اس کی مذمت پر اکتفا نہ کرنا چاہیے ۔ فقط اخباری برادری ہی نہیں ، ہر صاحبِ احساس کو پوری اخلاقی قوت کے ساتھ اصرار کرنا چاہیے کہ تفتیش ہو۔ نتیجہ خیز تفتیش۔ اللہ کا فرمان واضح ہے اور ہرگز ہرگز اس میں کوئی ابہام نہیں ۔ بار بار ہم اسے دہراتے ہیں مگر حلق سے ،دل اور دماغ کے آہنگ سے نہیں۔ عمل کے ارادے اور اس باب میں اپنا فرض ادا کرنے کے ایقان سے نہیں وگرنہ یہ کیسے ہو گیا کہ 50ہزار بے گناہ قتل کیے جا چکے ا ور خوں ریزی روکنے کا کوئی جامع اور حقیقی منصوبہ اب تک بنایا نہیں گیا۔ پنجاب میں سخت جان ایلیٹ فورس کے 4000 جانباز اہم افراد کی حفاظت پر متعین ہیں ۔باقی نو کروڑ کے لیے صرف 1700۔ دیگر صوبوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں بلکہ سندھ کا شاید اس سے بھی برا۔ 
اس عنوان پر برسوں سے بحث جاری ہے کہ کن عوامل نے اس طوائف الملوکی تک ہمیں پہنچایا ہے ۔ تدارک کرنے والا مگر کوئی نہیں ۔ وعظ کرنے والے بہت ہیں ۔ حیرت اور رنج کے ساتھ آدمی یہ سوچتاہے ؎ 
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح 
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
زوال کا سفر پیہم جاری ہے ۔ ملک میں صرف ایک ادارہ باقی بچا ہے ۔ پاکستان کی مسلّح افواج ۔ پہاڑ جیسی غلطیاں اس نے بھی کیں ۔ پوری قوم کو ان کا خمیازہ بھگتنا پڑا ، خود اسے بھی۔ اب بالآخر کچھ نہ کچھ ادراک ہے ۔ اپنی اصلا ح کی کچھ نہ کچھ کوشش گذشتہ ساڑھے چھ برس میں انہوں نے کی ہے ۔ رہے سول ادارے تو ان کاحال یہ ہے کہ ایف بی آر چالیس لاکھ دولت مندوں میں سے فقط دس لاکھ سے ٹیکس وصول کرتاہے ۔ باقی دندناتے پھرتے ہیں اور فیصلہ یہ ہے کہ دندناتے رہنے کی انہیں اجازت ہوگی۔ ایک صوبے ، پختون خوا کے سوا، جہاں کوشش بہرحال کی گئی ، باقی ملک میں پٹوار سرکار کی باندی ہے ۔ ظلم کا ایک بے رحمانہ ہتھیار، کروڑوں زندگیاں جس کے ہاتھوں اجیرن ہیں۔ رہی پولیس تو اس کا کام ہی یہ ہے کہ طاقتوروں کی مدد کرے اور 
مظلوموں پہ کوڑے برسایا کرے۔ اللہ کے بندے اس میں بہت ہیں ۔ صاف ستھری زندگیاں گزار نے کے آرزومند۔ موٹروے پولیس ایک درخشندہ مثال ہے۔ حکمرانوں کا فیصلہ مگر یہ ہے کہ بھرتی میرٹ پہ ہوگی ، تقرری اور نہ تبادلہ۔ نتیجہ معلوم۔ 
سرکاری دفاتر میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ رشوت لے کر بھی جو کام کر ڈالے ، وہ غنیمت ہے وگرنہ تذلیل بھی ، تحقیر بھی۔ ایک نہیں، ہر حکومت کا نامۂ اعمال یہی ہے ۔ فوج کی ہو یا سول کی۔ پیپلز پارٹی یا نون اور قاف لیگ کی۔ رہی تحریکِ انصاف تو اس کا معاملہ یہ ہے ع 
طفلانِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
قومی ادارے باہم متصادم ہیں ۔ فوج اور سول کی کشمکش پر بات زیادہ کی جاتی ہے مگر عدالت اور میڈیا کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ حشر کا میدان گویا لگا ہے ۔ ہر ایک کو اپنی فکر لاحق ہے ۔ کہیں کہیں کوئی سعید آواز بھی ہے ۔ کہیں کہیں کوئی قابلِ رشک بھی مگر الّا ماشاء اللہ ۔ عدالت سے امید بہت تھی کہ 83فیصد پاکستانیوں نے جج بحال کرنے کی حمایت کی۔ ایک تاریخ ساز تحریک برپا ہوئی اور قیامِ پاکستان کے بعد ایسے اتحاد کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ افسوس کہ امیدیں پوری نہ ہو سکیں ۔ بعض جج گاہے اس معیار سے نیچے اتر آتے ہیں، کم از کم جس کی ان سے امید کی جاتی ہے ۔ 
میڈیا گروپوں میں ایسے ہیں ، جو خود سے قومی ایجنڈہ تشکیل دینے پر مصر ہیں ۔ آزادیِ اظہار برحق۔ برحق ہی نہیں ، مبارک اور لائقِ تحسین۔ ہر چیز کی مگر حدود ہوتی ہیں ۔ میں اپنی چھڑی گھما سکتا ہوں مگر وہیں تک ، جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ اخبار نویسوں میں اب ایسے بھی ہیں ، جن کا مطالبہ یہ ہے کہ بھارت ، افغانستان ، برطانیہ اور امریکہ سے تعلقات کی نوعیت کا فیصلہ اب ہم کریں گے ۔ وہ بھی ہیں ، جو خلقِ خدا کی توہین کا حق مانگتے ہیں ؎ 
ان کی محنت بھی مری، حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے، قوتِ بازو بھی مری 
میں خداوند ہوں اس وسعتِ بے پایاں کا 
موجِ عارض بھی مری، نگہتِ گیسو بھی مری
تنظیمیں ہیں اور ایسی تنظیمیں کہ دھڑ لے سے غیر ملکی امداد قبول کرتی ہیں ۔ ڈٹ کر امریکہ اور بھارت کے گیت گاتی ہیں اور کوئی پوچھنے و الا نہیں ۔ وہ بات جو اقبالؔ نے مجلسِ اقوام کے بارے میں کہی تھی ع 
بہر تقسیم قبور، انجمنے ساختہ اند 
اخبار نویس پہ حملہ ہوا تو بہت برا ہوا۔ یہ مگر کیسے طے ہو گیا کہ فلاں شخص اور فلاں ادارہ اس کا ذمہ دارہے ۔ فرض کیجیے ، ہو بھی تو تفتیش کے بغیر ہی مشتبہ کو ملزم اور ملزم کو مجرم کیسے بنایا جا سکتاہے ۔ کیا فیصلہ اس کے حق میں صادر ہوگا، جس کا حلق بڑا ہے اور جس کی آواز دور تک پہنچتی ہے ؟ قتل کرنے کی کوشش المناک ہے مگر 20کروڑ انسانوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دینا ، بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی دلیل کے، ملک کے دفاعی اداروں کی توہین اور تحقیر کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا کیا مطلب ہے کہ بھارت اور پاکستان کے بعض چینل ہم آواز ہوں ؟ ایک ہی بات کہیں ، ایک ہی لہجے میں او رایک ہی ادارہ ان کا ہدف ہو ۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے ۔ کیوں؟ آخر کیوں ؟ 
حملے کی مذمت برحق ۔ اگر نہ کی جاتی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ملک کا ملک بے حس ہے ۔ سات گھنٹے تک دفاعی اداروں کی مسلسل توہین پر مگر وہ سب کے سب کیوں دم سادھے رہے ؟ بولے تو فقط پانچ سات اخبار نویس ، فقط پانچ سات۔ 
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار 
صحرا مگر بہ تنگیِٔ چشمِ حسود تھا
جیسا کہ عرض کیا ہے ۔ شب بھر یہ ناچیز سو نہ سکا۔ ایسی بے وفائی، اپنے وطن سے ایسی بے وفائی ؟ سبحان اللہ، کس قدر مضبوط اعصاب کے لوگ ہیں ؟ نابھائی ! ہم نہیں ہیں ۔ اللہ کے بھروسے پر فیصلہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اپنے گھر سے پیدل روانہ ہوں گا اور کراچی تک چلتا جائوں گا۔ کوئی ساتھ چلے تو سبحان اللہ۔ اگر نہیں تو کہکشائیں اور آلوچے کے شگوفے کھلانے والے مالک سے دعا کرتے ، تنہاہی ؎ 
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون 
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟ 
ان کے دروازوں پر دستک دی جائے، جن کے دل پتھر ہو گئے، جنہوں نے 27رمضان المبارک کی شب وجود میں آنے والے وطن سے بے وفائی کا ارادہ کر لیا ع
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں