"HRC" (space) message & send to 7575

قسم ہے زمانے کی

قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ۔
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اجلے کیے ۔
حق کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر کی ۔
کچھ بھی نہیں ہے ، صاحب کچھ بھی نہیں ۔ جو کچھ بھی نظر آتا ہے ، خواہ کتنا ہی خالص، خوبصورت ، شاندار اور بے پناہ ہو ، اسی کی جلوہ گری ہے ، جس نے یہ زمین و آسمان تخلیق کیے ہیں ۔ اس کی مرضی ہے اور اس کی منشا ہے ، جو چاہتاہے ، وہ کرتاہے ۔ آئن سٹائن نے سچ کہا تھا: دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ ذاتِ قدیم و عظیم کیا چاہتی ہے ۔ باقی سب تفصیلات ہیں ۔ 
پرسوں شام میانوالی جانا تھا۔ گرمی ایسی شدید تھی کہ مہین سے سوتی کپڑے کا ایک کرتا شلوار ڈھونڈا۔ پتلون پہننے کے خیال سے بھی وحشت ہوئی۔ کل شام واپس پہنچے اور رات گئے تک دفتر میں مصروفیت رہی۔ لوٹ کے گھر پہنچے تو صاحبزادے نے پنکھا چلانے کو ہاتھ بڑھایا۔ منع کیا اور خیال یہ آیا کہ معلوم نہیں کیوں ، ٹھنڈ سی محسوس ہوتی ہے ۔ تکان سے اسی حال میں نیند آگئی اور کچھ دیر میں سردی کا احساس قدرے زیادہ ہونے لگا۔ پھر رعد کی دہلا دینے والی کڑک سے آنکھ کھلی اور مختار حسن مرحوم یاد آئے۔ وہ کہاکرتے : راولپنڈی کے مکینوں کو مئی کے آخر تک گرم چادر پائنتی پہ رکھنی چاہیے ۔ برکھا برسی اور کھل کے برسی۔ نیند پوری کیے بغیر گھر سے نکلنا پڑا کہ ایک فریضہ ادا کرنا لازم تھا ۔ مکان سے باہر قدم رکھا تو ٹھنڈی ہوا نے سواگت کیا ۔ اوائلِ فروری کا موسم۔ اگر کوٹ اوڑھ لیا ہوتا تو لطف اٹھایا جا سکتا۔ 
سیاسی موسم بھی یکایک اسی طرح بدل گیا ہے ۔ اسلام آباد میں عمران خان کے جلسے سے ایک دن قبل ایک وفاقی وزیر نے کہا تھا: ہنگامہ اٹھانے کی ناکام کوشش کے بعد تحریکِ انصاف اپنے زخم چاٹے گی اور ہم جشن برپا کریں گے ۔جشن کے اس عزم کاکیا ہوا ؟ تدبیر کند بندہ ، تقدیر زند خندہ۔ 
بارش اس طرح برسی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سوکھے دھان ہرے ہو گئے ۔ بیچ بازار میں نون لیگ شرمسار سی کھڑی ہے ، جیسے کوئی غیر حاضر دماغ پروفیسر ادائیگی کیے بغیر سٹور سے باہر نکلتے پکڑا جائے ۔ سامنے دیوار پہ وہ سوال رقم ہے ، جو عباس اطہر مرحوم نے 2007ء کے موسمِ بہار میں فوجی حکمران سے پوچھا تھا : اب تیرا کیا ہوگاکالیا ؟ پھر ایک خیال ذہن میں ابھرا ،کیا یہ لاز م ہے کہ یہی موسم برقرار رہے ؟ کون جانتا ہے کہ کل کڑی دھوپ ہو اور میدان کے آسودہ سائے کی تلاش میں سرگرداں۔ کون جانتاہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا، کون جانتاہے ؟ 
منیر نیازی دنیا سے اٹھے تو ڈاکٹر خورشید رضوی سے رہنمائی کی درخواست کی ، عظیم شاعر کو تاکہ خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔ ضروری سوالات کے علاوہ ، روا روی میں یہ بھی پوچھ لیا : کیا سیاست سے بھی کچھ دلچسپی کبھی مرحوم کو رہی ۔ بے ساختہ بولے: اس سطحی چیز سے انہیں کیا شغف ہوتا؟ 
سیاست کے سب موسم بے اعتبار۔پرسوںجو سریر آرائے سلطنت تھا ۔پرسوں جس کے نام کا سکّہ ڈھلتا تھا۔پرسوں جس کا فرمان قانون تھا، کل وہ رسی پہ جھول گیا۔ بادشاہت بس اللہ کی، دائمی بادشاہت ، بس اسی کی۔ شاعر منصور آفاق نے کہا: خالقِ ارض و سما کے لیے ''اس ‘‘اور''وہ ‘‘کے الفاظ موزوں نہیں ۔ کچھ دیر یہ طالبِ علم سوچتا رہا پھر یہ گزارش کی: اسے تویہ قبول ہے ، خود اس کی کتاب میں یہی الفاظ برتے گئے۔ا س میں مگر کلام نہیں کہ اس واحد و یکتا، اس قادرِ مطلق و بے نیاز کے لیے انسانی لغت کبھی ڈھنگ کے الفاظ نہ ڈھال سکے گی۔ خود ارشاد فرمایا : سب سمندر اگر سیاہی ہو جائیں ، سب درختوں کے اگر قلم تراش لیے جائیں تو بھی اس کی مدح کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ رب العالمین کیا،رحمتہ اللعالمین ؐکی مدح ممکن نہیں ۔ ایک شب عارف نے یہ کہا: نفس کے فریب اور مصطفی ؐکے مقامات شمار نہیں کیے جاسکتے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : جہاں کہیں روشنی ہے ، انؐ کے طفیل ہے یا ان کی تلاش میں ۔ اسد اللہ خاں غالبؔ نے کہ جدید اردو زبان کی تشکیل انہی کے اندازِ اظہار سے ہوئی ، یہ کہاتھا۔ ؎
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
اتوار کی شام تک میاں محمد نواز شریف اور ان کا خاندان مغل بادشاہوں کی شوکت کا امین تھا ۔ عمران خان ایک تمنّائی کے سوا کچھ نہ تھے ۔ آج کی پیش گوئی یہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں شاید ان کے گرد جمع ہو جائیں ۔ ایک ہوش مند اخبار نویس نے لکھا ہے : ممکن ہے کہ 1977ء ایسی تحریک وہ برپا کر سکیں ۔ کل کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔ 30اکتوبر 2011ء کو بھی ملک انہوں نے فتح کر لیا تھا ، چند ماہ بعد کراچی میں اس فتح کا اعادہ کیا تھا۔ امریکی ادارے نے سروے کر کے بتایا تھا کہ تحریکِ انصاف سب سے مقبول پارٹی ہے ۔ پھر کیا ہو ا؟ پھر کیا ہوا؟
نہیں ، سب عوامل کا حساب کوئی نہیں لگا سکتا۔ پاکستان ایسے تغیر پذیر معاشرے میں بالکل نہیں ۔ آمریت رخصت ہوئی مگر کہاں رخصت ہوئی ۔ جمہوریت آئی مگر ہے کہاں؟ عدالتیں آزاد ہیں مگر ان کی آزادی کا ثمر؟ میڈیا بھی آزاد ہے مگر حاصل وصول کیا؟ جی نہیں ، فقط آزادی نہیں ، انفرادی ہو یا اجتماعی ، زندگی ایک آہنگ اور نظم کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ہر چیز اپنی جگہ پر ۔ ترتیب اگر نہ ہو تو ایک چھوٹی سی دکان، ایک معمولی سا دفتر نتیجہ خیز نہیں ہوتا ، بیس کروڑ متلون مزاج ، جذباتی انسانوں کا ملک کیونکر؟ 
تحریکِ انصاف والے شاد ہیں ۔ اسلام آباد کا موسم ٹھنڈا ہے اور ان کی آنکھیں بھی ،مگر کل کاکیا بھروسہ۔ مقصوداگر بس یہ ہے کہ دل کا بوجھ اتر جائے او رطبیعت آسودہ ہو تو وہ حاصل ہو چکا۔ ملک اگر سنوارنا ہے ، قوم کی تقدیر اگر بدلنی ہے تو ریاضت درکار ہے ، صبر وتحمل درکار ہے ، حکمت مطلوب ہے ، عالی ظرفی چاہیے ، غور و فکر اور منصوبہ بندی ۔ کسی ایک گروہ کی فتح اور کسی ایک جماعت کی شکست نہیں بلکہ سبھی کی ظفر مندی ۔ کسی لیڈر کی نہیں ، کسی پارٹی کی نہیں ، قانون اور آئین کی بالاتری ...اور یہ وہ چیز ہے ، جس کی فکر ، دردمندی اور یکسوئی سے ابھی یہ ترجیح کسی کی نہیں۔ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ اہمیت ملک اور قوم کی ہے ، سیاست کی رزم گاہ میں برسرِ پیکار لشکروں میں سے کسی ایک کی نہیں۔
کیا ابھی وقت نہیںآیا کہ جوش پہ ہوش غالب آئے۔ کیا ابھی اس ادراک کا لمحہ طلوع نہیں ہوا کہ ہم سب کو یہیں رہنا ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی ۔ ایک نہیں، بے شمار چیلنج ہیں ۔ گزرے ہوئے برسوں اورعشروں میں کتنی بے شمار پیچیدگیاں ہماری سہل کوشی ، سطحیت اور خود غرضی نے پیدا کردی ہیں ۔ رسّی میں کتنے بے شمار بَل ہیں جو کھولنے ہیں ۔ فرض کیجیے ، اگر وہ سب کچھ ممکن ہو جائے ، جو کپتان اور اس کے حامی و فدائی چاہتے ہیں تو کیا ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے ؟ سکون اور قرار لوٹ آئے گا؟ وہ امن حاصل ہو سکے گا، جو اجتماعی فروغ کی بنیاد بنا کرتاہے ۔ دہشت گردی تمام ہو جائے گی ؟ معیشت توانا ہو سکے گی ؟ اس قدر توانا کہ انکل سام اور اس کے بغل بچّے برطانیہ سے نجات حاصل ہو سکے ، آئے دن جس کے لیڈر ہمیں وعظ فرماتے ہیں ۔ ہمارے زخموں پہ نمک چھڑکتے ہیں۔ سہل نہیں ہے ، قوموں کی تعمیری سہل نہیں۔ خلوص اور دردمندی تو اوّلین شرط ہے مگر علم ؟مگر حکمت؟ فرمان یہ ہے :
قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ۔
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اجلے کیے ۔
حق کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر کی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں