کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ اس طرح نہیں ہوتا حضور، اس طرح نہیں ہوتا۔ حبس رہے تو آندھی آیا کرتی ہے ۔ بنیاد کمزور ہو تو عمارت گرتی ہے ۔ کردار میں تضادات ہوں تو بالآخر تباہی لاتے ہیں ؎
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے
اور اب دس لاکھ پاکستانیوں کے لیے 50ہزارروپے فی کس کا غیر سودی قرضہ!اس تاریخی شہر اچ کے نواح میں ،ازراہِ احترام جسے اچ شریف کہا جا تاہے ، ایک چھوٹے سے گائوں کا نام لکھن بیلہ ہے ۔ دریا کنارے ، جنگلوں اور جھاڑیوں کے درمیان، یہ ایک گرد آلود قریہ ہے ۔ 1980ء سے یہاں ایک پرائمری سکول قائم چلا آتاہے ۔ طلبہ کی تعداد 350اور اساتذہ؟ ایک عدد، جی ہاں ایک عدد!
لکھن بیلہ تختِ لاہور سے بہت دور جنوبی پنجاب میں ہے ۔ باقی سرکاری تعلیمی ادارے بھی برباد ہی ہیں ۔کسی کو آباد کرنے کی فکر بھی نہیں ۔ پنجاب میں 65ہزار سکول ہیں ۔ کہیں فرنیچر نہیں ، کہیں چاردیواری یا ٹائلٹ نہیں۔ طلبہ کے ہجوم بے شمار اور اساتذہ نایاب! ان بچوں کا مستقبل کیا ہے ؟ ان کاجرم کیا ہے ؟
نگرانی کا کوئی نظام؟ کوئی منصوبہ بندی؟ ایک دردمند شہری زبیر نیازی نے رابطہ کیا۔ ایم پی اے کون صاحب کون ہیں ؟ ایم این اے کون ذاتِ گرامی؟ بے دردی اور بے حسی کی ایک اور المناک داستان۔
دردِ دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا
اس قدر خوفناک بے نیازی کہ خدا کی پناہ۔ بحث یہ ہے کہ راولپنڈی کی میٹرو بس سروس پہ روپیہ کتنا اٹھے گا۔ عمران خاں نے کہا: ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق چار ارب ۔ وفاقی وزیر نے یہ تو بتایا نہیں کہ بینک کی رپورٹ میں کیایہی لکھا ہے ؛البتہ یہ کہا کہ وہ کپتان کو آٹھ ارب دینے کو تیار ہیں ۔ پیشکش قبول کر لی گئی ۔ اب خاموشی ہے ۔ اسی وزیر کا آج ایک او ر بیان یہ ہے کہ عمران خان اقتدار کے خواب دیکھتا ہے ۔ اللہ کے بندے! سیاسی جماعتیں اور کس لیے بنائی جاتی ہیں ؟ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کا سربراہ وزیراعظم بننے کا سپنا اگر نہ دیکھے گا تو کیا ٹریفک وارڈن بھرتی ہونے کا؟ میاں محمد نواز شریف نے بھی ایک دن یہی خواب دیکھا تھا اور وہ بھی خاکی وردیوں کے سائے میں !
کیا راولپنڈی کو میٹرو بس کی ضرورت بھی ہے ؟ اکثر کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں ۔ ہر پانچ منٹ کے بعد منی بس چنگھاڑتی ہوئی آتی ہے ۔ پھر یہ کہ سبسڈی مستقلاً دینا ہو گی۔ ایک ار ب اسّی کروڑ روپے لاہور کے لیے ۔ جڑواں شہروں کے لیے ؟ اس کے بعد ملتان ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی باری ۔ چند برس کے بعد ہر سال آٹھ دس ارب روپے ضائع ہوا کریں گے ؟ ایک اور ریلوے ؟ ایک اور پی آئی اے ؟ سکول کیوں نہیں سنوارے جاتے ؟ گرما کی چھٹیوں میںاساتذہ کی تربیت کا انتظام کیوں نہیں ؟ سرکاری ہسپتالوں کی حالت کیوں بہتر نہیں بنائی جاتی ؟
محترمہ عظمیٰ گل اور جناب یوسف گل سے بات ہوئی ۔ ایک عشرہ قبل پنجاب حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت واران بس سروس کے لیے خریدی گئی ان کی بسیں چاردیواری میں کھڑی ایک دردناک داستان کے ابواب کا حصہ ہیں ۔ لگ بھگ 70کروڑ روپے اس منصوبے پر خرچ ہوئے تھے۔ شہری یاد کرتے ہیں کہ کیا سلیقے کا بندوبست تھا۔ پابندی ٔاوقات، شائستہ عملہ، خواتین خاص طور پہ خورسند کہ ان کا حصہ الگ تھا اور وہ خود کو محفوظ و مامون پاتیں ۔ 24ارب ضائع کرنے کی بجائے (ماہرین کہتے ہیں کہ نوبت 70ارب کو پہنچے گی ) ان سے بات کر لی ہوتی ۔
لکھن بیلہ کے بچّوں کو استاد میسر نہیں۔ راولپنڈی پہ ہن برس رہا ہے۔ 2013ء کا الیکشن نون لیگ یہاں سے ہار گئی تھی۔ اگلا بہرحال اسے جیتنا ہے ۔ سابق گورنر جنرل خالد مقبول کے بقول راولپنڈی میں طبّی اور تعلیمی سہولیات پنجاب کے باقی شہروں سے کم از کم دو گنا ہیں ؛ اگرچہ بائی پاس موجود نہیں ؛چنانچہ ایک ارب روپے سالانہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ گاڑیوں کا فالتو ایندھن، سڑکوں کی خرابی ، وقت کا ضیاع، ٹریفک کا ازدحام۔ چار سال ہوئے ، ایک چینی کمپنی سے معاہدہ کیا تھا ۔ کیا اسے شہد لگا کے چاٹیں؟
قرضوں کا اجرا شفاف کیسے ہوگا؟ پڑھا لکھا نوجوان 50ہزار سے کون سا کاروبار کرے گا ؟ ان پڑھ البتہ ، تو پھر یہ رقم اخوت کے ڈاکٹر امجد صاحب کو دے دی ہوتی ۔ وہ فقط تیس ہزار روپے فی کس دیتے ہیں ، مزدوری پیشہ بیچاروں کو ۔ واپسی کی شرح 99.7۔ روپیہ محفوظ اور ہر سال ہزاروں ملازمتیں ! ایک سو ارب روپے اس سے قبل رکھے گئے ۔ آدھا سود سرکار کے ذمّے ۔ ابھی ابھی معلوم ہوا کہ نیشنل بینک نے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا؛ چنانچہ اس کی انتظامیہ بدلنے کی تیاری ہے ۔ جس طرح کہ قطر میں سفیر کا تبادلہ کر دیا گیا ۔ کہا جاتاہے کہ ایل این جی گیس کے معاہدے پر وہ ناخوش تھا۔بتایا جاتاہے کہ معاہدہ جناب سیف الرحمن کے توسط سے ہوا۔ الزام ہے کہ گیارہ ڈالر کی بجائے 19ڈالر پہ خریداری کے منصوبے میں وہ شریک ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں بحث کیوں نہیں ؟ جمہوریت کیا فقط بیانات میں جگمگاتی رہے گی ؟
لاہور سے اطلاع یہ ہے : شریف خاندان نے اپنے ایک وفادار شخص ڈاکٹر عمر یوسف کو نادرا کا چیئرمین لگانے کی تیاری مکمل کر لی ہے ۔ انتخابی دھاندلی کی بازگشت میں طارق ملک کو ہٹایا گیا۔ نکتہ چیں یہ کہتے ہیں : شرائط ایسی ہیں ، جن پر عمر سیف ہی پورے اتر تے ہیں ۔ ان کے والد ایک سبکدوش کرنل ہیں ، جو میاں محمد نواز شریف کی حفاظتی ٹیم میں شامل تھے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری چاہیے اور وہ مبیّنہ منظورِ نظر رکھتے ہیں۔ عمر کی حد بھی ایسی ہی۔ 48اہم سرکاری مناصب خالی پڑے ہیں۔ کیا وہ سب اسی طرح پر ہوں گے؟ انتخابی دھاندلی کا قضیہ طے کرنے میں نادرا کے چیئرمین کا کردار بنیادی ہوگا۔ سوال اٹھائیے تو درباری برہم ہوتے ہیں ۔ چلیے ، ہر دور میں ہوا ہی کرتے ہیں ۔ ان کا کام فقط آقائوں کی مدح نہیں، تنقید کی جسارت کرنے و الوں کی کردار کشی بھی ہوتا ہے۔ بھوک، ازل کی بھوک، انحصار ، ازل کا انحصار۔
پلٹ کر کوئی کتاب کی طرف نہیں دیکھتا ''اور زمین میں کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق اللہ کے ذمّہ نہ ہو ‘‘
زبیر نیازی سے کہا: لکھن بیلہ کے سرکاری سکول کے لیے دو استاد رکھ لیجیے ۔ اہلِ خیر زندہ ہیں ۔ انشاء اللہ تنخوا ہ بھجوا دیا کریں گے ۔ کچھ قاری آمادہ ہوئے تو انشاء اللہ مزید اساتذہ بھی ۔ شریف خاندان مصروف ہے ۔ ابھی اسے اگلی نسلوں کے اقتدار کا اہتمام کرنا ہے ۔
اپوزیشن الائنس کے امکان سے کون شاد ہوگا ؟ ایک ا ور حکومت گرا دینے سے کیا حاصل ؟ وسط مدّتی الیکشن سے کیا حاصل؟ خدانخواستہ مارشل لا نافذ ہوا تواور بھی بڑی بدقسمتی ۔ اصل چیز تو سول اداروں کی تعمیر ہے ۔ اس کا جواب مگر کیا ہے کہ کپتان کے سرگرم ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ۔ الیکشن سے قبل اسی کی وجہ سے ہزاروں کو لیپ ٹاپ ملے ۔ پھر محترمہ مریم نواز کی سربراہی میں 100ارب روپے کے قرضوں کا اعلان اور اب دس لاکھ شہریوں کی مدد۔ مدد یا رشوت؟ حکومت سے زیادہ وہ کپتان کے شکرگزار ہوں گے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تین سو ارب لٹانے والوں کو کیا ملا تھا؟
کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ اس طرح نہیں ہوتا حضور، اس طرح نہیں ہوتا۔ حبس رہے تو آندھی آیا کرتی ہے ۔ بنیاد کمزور ہو تو عمارت گرتی ہے ۔ کردار کے تضادات بالآخر تباہی لاتے ہیں۔
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے