تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ خوشامدیوں کے جلو میں حکمران اس قدر عاقبت نااندیشی پہ اتر آئے ہوں۔ بار بار ایسا ہوا اور ہر بار نتیجہ وہی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کم ہی کوئی سبق سیکھتا ہے۔
وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری جناب محی الدین وانی کی طرف سے، اس اخبار نویس کے نام بھیجے گئے ایک پیغام کا متن ''گورنمنٹ پرائمری سکول مکھّن بیلہ اُچ شریف، تحصیل احمد پور شرقی، ضلع بہاولپور پی پی 267، سکول کا احاطہ: 4 کنال، کلاس روم: دو عدد، بجلی: ڈیمانڈ نوٹس پر رقم جمع کرائی جا چکی، چار دیواری مکمل، برآمدہ ایک عدد، منظور شدہ آسامیاں دو عدد، طلبہ کی تعداد 254، پالیسی کے مطابق اساتذہ کی مقررہ تعداد: 7۔ النّور ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے 6000 روپے فی کس کے حساب سے دو عدد اساتذہ کی منظوری۔ حکومتی پالیسی کے مطابق مکھن بیلہ سکول کے لیے 16 مئی کو دو سرکاری اساتذہ کی منظوری بھی دے دی گئی ہے‘‘۔
گزشتہ کالم کی اشاعت کے فوراً بعد جناب وانی نے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کی زحمت کی۔ بتایا کہ ساڑھے تین ارب کے غیر سودی قرضوں کی نگرانی کے نظام میں ''اخوت‘‘ کے ڈاکٹر امجد ثاقب شریک ہوں گے اور ایک دوسرا ادارہ بھی۔ عرض کیا: میں وضاحت کر دوں گا لیکن اصل مسئلہ دوسرا ہے۔ 65000 تعلیمی اداروں میں سہولتوں کا فقدان ہے۔ بہت سوں میں اساتذہ کم ہیں۔ ادھر اربوں روپے میٹرو بس پہ برباد، جن سے صوبے کا پورا تعلیمی نظام بحال کیا جا سکتا ہے۔
بارِ دگر آج انہوں نے رابطہ کیا۔ عرض کیا: آپ سمجھ نہیں رہے۔ ریاست کی عمل داری ختم ہو چکی۔ سول اداروں کی تعمیر پہ کوئی توجہ ہے اور نہ قانون کے نفاذ پر۔ ہرچند شائستگی سے بات کی مگر سننے کی بجائے، جب وہ سنانے پر ہی مصر رہے تو گزارش کی: محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک دن جب یہ بتایا گیا کہ ان کی حکومت برطرف ہونے والی
ہے تو وہ ہنستی رہیں۔ اسی شب ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ معاملہ کس قدر بگڑ چکا۔ آپ کے وزیرِ اطلاعات کا حال یہ ہے کہ وہ ریاست کے دشمن عناصر سے رابطے میں ہے جبکہ اسے ان سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک حال ہی میں واشنگٹن گیا اور کثرت سے بھارت جاتا ہے۔ بے چارگی سے وانی صاحب نے کہا: میں اس معاملے سے متعلق نہیں ہوں۔ اب اخبار نویس کو معلوم ہے کہ ہمہ وقت وہ وزیرِ اطلاعات اور اس سرکاری افسر کے ساتھ رہتے ہیں جسے ڈپٹی پرائم منسٹر کہا جاتا ہے۔ اس پر مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا: خدانخواستہ کل یہ حکومت ختم ہو جائے تو کیا آپ معاملے سے متعلق ہوں گے یا نہیں؟
ادراک ہی نہیں، بخدا کسی کو ادراک ہی نہیں کہ ملک کس خطرناک وادی میں داخل ہو چکا۔ مشکوک میڈیا گروپ کے باب میں سرکار نے کارروائی نہ کی تو خلقِ خدا اٹھے گی اور اس کے دفاتر بند کر دے گی۔ قلق کل سے بہت تھا۔ احتیاط اس قدر کی کہ کالم لکھنے سے گریز کیا اور ٹیلی ویژن سے بھی۔ احساس تھا کہ سیّدہ فاطمۃ الزہرا ؓ اور امیرالمومنین سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے باب میں گستاخی پر اگر کسی نے سوال کیا تو میں لفظ چبا نہ سکوں گا۔
خدا کے بندو، حکمرانی اس طرح نہیں ہوتی۔ آنکھیں بند کر کے نہیں۔ اوّل سرکاری لیڈروں اور سرکاری اخبار نویسوں نے افواج کے خلاف آگ بھڑکائی۔ خدا خدا کر کے ذرا ٹھنڈی ہوئی تو فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف نفرت پھیلانے والے اخبار نویس پہ حملہ ہوا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ ایک انتہا پسند مذہبی گروپ نے کیا‘ جو بھارت اور القاعدہ کے زیرِ اثر ہے۔ اس پر تین عدد سرکاری صحافیوں نے جنرل ظہیرالاسلام سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ ابھی یہ ہولناک تنازع جاری تھا کہ ملک ایک اور صدمے سے دوچار ہے۔ قانون کو حکومت بروئے کار نہیں آنے دے رہی اور اس طرح عملاً مشکوک میڈیا گروپ کی پشت پرکھڑی ہے۔ شاید فوج کی توہین قوم گوارا کر لے مگر اہلِ بیت؟ قانون سزا نہ دے گا تو شدّت پسند اس خلا کو پر کریں گے۔
جمعرات کو سخت ذہنی اذیت کے عالم میں، اس پروگرام کا ایک حصہ میں نے دیکھا۔ جیسا کہ ایک سے زائد بار اس کالم میں لکھا، اہلِ بیت کے بارے میں یہ ناچیز امام شافعیؒ کا قائل ہے۔ ''رافضی‘‘ کہلوانا گوارا ہے مگر ان کی محبت سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔ مسلم برصغیر کے مسلمانوں کا عمومی طرزِ احساس یہی ہے۔
پھر ایسی ہولناک جسارت کہ ایک بدنام اداکارہ کو اس پاک باز ہستی سے تشبیہ دی جائے جس کے لیے عربوں نے ''امّ ابیہا‘‘ کا لقب تراشا۔ ''بیٹی مگر ماں‘‘ جن کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: ایسا اعزاز تاریخ میں کسی دوسری ہستی کو کبھی حاصل نہ ہوا۔ رحمۃ للعالمینؐ کی نورِ نظر، سیدّنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی شریکِ حیات اور امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی والدہ ماجدہ۔ ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے اقبالؔکی رباعی سے فیض پا کر ایک خیرہ کن کتاب لکھی ''فاطمہؓ فاطمہ ؓ ہیں‘‘۔
پاکیزگی، ایثار اور ایمان کا تاریخ ساز استعارہ۔ دمِ رخصت سرکارؐ نے ان کے کان میں سرگوشی کی تھی: سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔ اور اداکارہ کیسی؟ جو اپنے عریاں بدن پر ملک کی سب سے اہم خفیہ ایجنسی کا نام کھدوا کر اس کی تحقیرکے منصوبے میں شریک ہوئی۔ وہ ادارہ جو اسلامی ریاست کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ ملک دشمنوں کا سب سے بڑا ہدف۔
میرا خیال نہیں کہ اس خاتون نے دانستہ طور پر ایسا کیا۔ وہ اخبار نویس نہیں۔ ان نزاکتوں کا اسے کیا پتہ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اتنی آزادی کیونکر دے دی گئی؟ کیا یہ ملک ایک چراگاہ بن چکا؟ اگر کسی اناڑی کو ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت دی جائے، پھر حادثے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو جائیں تو ذمہ دارکون ہو گا؟
جرم کا اعتراف کیا جا چکا۔ آئین کا آرٹیکل 298 اے یہ کہتا ہے: "Whoever by words......... directly or indirectly, defiles the sacred name of any wife (Ummul Mumineen) or members of the family (Ahle Bait) of the Holy Prophet (PBUH) or any of the righteous Caliphs (Khulafa-e-Rashideen) or companions (Sahaaba) of the Holy Prophet (PBUH) shall be punished with imprisonment.... which may extend to three years or with fine or with both۔
ایک ٹی وی پروگرام میں مشکوک میڈیا گروپ کے نمائندے نے جب یہ کہا کہ غلطی ہوئی اور معافی ملنی چاہیے تو عرض کیا تھا کہ بعض جرائم کی معافی نہیں، تلافی ہوتی ہے۔
میڈیا کو اب یہ بھی جان لینا چاہیے کہ قومی ذرائع ابلاغ کو بھارتی فلموں اور ڈراموں کی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بہت دن یہ تماشا ہو چکا اور اب ختم ہونا چاہیے۔ غضب خدا کا، پاکستان کی فلمی صنعت کے ملبے پر بھارتی فلموں کی نمائش جاری ہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ ملک کے دو بڑے چینل بھارتی فلموں اور ڈراموں کے تقسیم کار ہیں۔ عمران خان کو ایک بار یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھارتی فلمی صنعت کا ایک سیاسی ایجنڈا ہے۔ ان کے بعض فلم ساز ''را‘‘ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں؛ چنانچہ آئی ایس آئی کے خلاف درجنوں فلمیں بن چکیں۔ ملک کے بعض ابلاغی ادارے شریکِ کار ہیں۔ دولت کی پاگل کر دینے والی ہوس!
ایک ہی نہیں، کئی سیاستدان دبئی میں بھارتی فلمی صنعت کے ستاروں سے ملاقاتیں کرتے پائے گئے۔ تفصیل بتائی جا سکتی ہے۔ مشکوک میڈیا گروپ نے عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کے میزبان بن کر انہیں مدعو کریں، اس کے عوض صفحۂ اوّل پر ان کی خبر چھاپی جائے گی۔ آٹھ برس ہوتے ہیں، تین دن شائع بھی ہوئی۔ اس نے انکار کر دیا تو آخری صفحے پر سنگل کالمی!
نہیں جناب، یہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی قوم اب یہ گوارا نہ کرے گی۔ واحد راستہ یہ ہے کہ قانون کو بروئے کار آنے دیا جائے۔ اگر نہیں تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔
تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ خوشامدیوں کے جلو میں حکمران اس قدر عاقبت نااندیشی پہ اتر آئے ہوں۔ بار بار ایسا ہوا اور ہر بار نتیجہ وہی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کم ہی کوئی سبق سیکھتا ہے۔