عربوں کا محاورہ مگر یاد رہے : لکل فنّ رجال۔ ہر کام کے لیے مخصوص مردانِ کار ہوتے ہیں ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے ''اللہ کو بندے سے جو کام لینا ہو، وہ اس کے لیے سہل کر دیتاہے‘‘۔ جس کا کام اسی کو ساجھے ، دوجا کرے تو ٹھینگاباجے!
آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پنجاب کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف کے اس خط کا جواب تو کل عرض کروں گا ۔ فی الحال خود آنجناب کے قلم سے ان کے اوصافِ حمیدہ ۔ صرف اس ایک نکتے پر غور کیجیے کہ کالم اور اداریے کا فرق آپ کو معلوم نہیں۔ میرے نام کے ہجے تک نادرست!
اخبار نویس کو اس پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر یاد آئے۔ ایبٹ آبادکا سانحہ ہوا تو آنجناب نے دعویٰ کیا کہ اسامہ بن لادن کو ڈیڑھ سال پہلے ہی قتل کیا جا چکا تھا۔ سوال کیا کہ ان کے پاس کوئی شواہد ہیں ؟ جواب میں ایک داستانِ امیر حمزہ انہوں نے لکھی مگر اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ ہر آدمی کو ہر چیز کا علم نہیں ہوتا ۔ یہ مگر کیوں لازم ہوا کہ بہرحال وہ رائے دے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا ''جس نے کبھی یہ نہ کہا 'میں نہیں جانتا‘ وہ ٹھوکر کھانے والی جگہ پر ٹھوکر کھا کر رہے گا‘‘۔
مشاہدہ یہ ہے کہ علوم اور فنون کے غیر معمولی ماہر اردگرد پھیلی ہو ئی زندگی سے اکثر یکسر بے خبر ہوتے ہیں ۔ 1999ء میں بھارت کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور غوری میزائل داغا تو ایک ممتاز سائنس دان سے ملاقات ہوئی ۔ کہا : میں رازداری کا پابند ہوں لیکن پھر گفتگو کا آغاز ہوا تو دو گھنٹے میں ساری کہانی کہہ دی ۔ ملک کے ایک مشہور اور ممتاز سائنس دان اصرار کرتے رہے کہ یہ نا چیز پاکستانی ایٹم بم کی پوری داستان لکھے تاکہ اپنے حصے کی داد وہ وصول فرما سکیں ۔ اندازہ اور احساس ہی نہ تھا کہ اس کا فائدہ امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل کو ہوگا۔ آج تک مجھ سے خفا ہیں ؛حالانکہ دل کی گہرائیوں سے میں ان کی عزت کرتا ہوں ۔ سوچتا البتہ یہ ہوں ؎
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے
ڈاکٹر عمر سیف نے اپنے کارنامے گنوا دئیے ۔ اس سوال پر غور کرنے کی مگر زحمت نہ کی کہ نادرا کے چیئرمین کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ علمی قابلیت نہیں ، اس کے لیے انتظامی تجربہ اور صلاحیت درکار ہے ،وگرنہ فخر الدین جی ابراہیم جیسا انجام، جو اب اپنی شکست کی آواز ہیں ۔ عبرت کا ایک المناک نمونہ !ڈاکٹر عمر سیف کا خط ملاحظہ کیجیے ۔
''محترمی ہارون رشید صاحب!
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ آپ نے اپنے گزشتہ کالم میں میرے اور میرے والد صاحب کے بارے میں جو لکھا ہے وہ حقیقت کے منافی ہے اور اس میں صحافیانہ اقدار کی پاسداری بھی نہیں کی گئی ہے‘ جس کی کم از کم آپ جیسے اعلیٰ پائے کے صحافی سے کسی طور بھی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ میں نہایت اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں تصویر کاحقیقی رخ لانا چاہتا ہوں ۔
میں پہلا پاکستانی تھا جس نے کیمبرج یونیورسٹی جیسے نامور ادارے سے صرف 22سال کی عمر میں کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد میں نے MITسے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی اور دنیا کی اس بہترین یونیورسٹی میں تحقیق اور درس و تدریس سے منسلک رہا۔ میری MITکی ریسرچ پر مجھے Mark Weiser ایوارڈ دیا گیا جواس شعبہ تحقیق میں دیا جانے والا اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے۔
کمپیوٹر سائنس کے میدان میں مسلسل تحقیق کی بدولت مجھے عالمی سطح پر مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) 2013 ACM CHI Best Paper Award. (2) 2011 Google Faculty Research Award. (3) 2011 MIT TR35: World Top 35 Young Innovators. (4) 2010 Young Global Leader, World Economic Forum. (5) 2008 MIT Technovator Award (Grassroot Technologies). (6) 2008 IDG Technology Pioneer Award. (7) 2008 IEEE Percom Mark Weiser Award. (8) 2006 Microsoft Research (MSR) Digital Inclusion Award. (9) 2001 Fellow, Cambridge Commonwealth Trust. (10) 1998 National Commonwealth Scholar, University of Cambridge.
میرا شمار LUMSکے ان چیدہ پروفیسرز میں ہوتا ہے جنہیں ان کی بہترین ریسرچ اور درس و تدریس کی خدمات کی بنا پر Permanent Tenureدیا گیا ۔ میری خدمات اور اعزازات کو روزنامہ ڈان سمیت پاکستانی میڈیا نے کھل کر سراہا۔
ایک جانب آپ بات کرتے ہیں‘ برین ڈرین کی اور اگر کوئی یہاں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ڈ الر ٹھکرا کر وطن کی محبت میں واپس آکر اپنا علم اپنا ہنر پاکستان کے عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرنا چاہے تو میری ناقص رائے میں ایسے شخص کی اگر ہم حوصلہ افزائی نہ کر سکیں تو کم از کم حوصلہ شکنی بھی نہیں کرنی چاہئے۔ بیرون ملک لاکھوں ڈالر کی آمدنی والی پر کشش ملازمت اور LUMSکی Tenured Appointment پر قوم کی خدمت کو ترجیح دی اور نہایت کم تنخواہ پر PITBکے چیئر مین کی حیثیت سے کام شروع کیا۔
PITBکا پنجاب میں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پنجاب میں تقریباً ہر شعبے میں اب آئی ٹی کا ایک کلیدی کردار ہے۔ خواہ وہ ڈینگی کا مانیٹرنگ سسٹم ہو، میٹروبس کا شفاف E Ticketing کا نظام ہو یا Startup Incubator (Plan 9)ہو ۔ان تمام پروگرامز کی افادیت اور شفافیت کو نہ صرف ملک بھر میں سراہا گیا بلکہ نیو یارک ٹائمز، بی بی سی، سی این این، New Scientist, The Economist, Tech Crunchاور ٹائم میگزین جیسے بڑے اور بین الاقوامی میڈیا ہائوسز کی جانب سے بھی ان پروگرامز کو بارہا سراہا گیا۔
مختلف سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے، رشوت ستانی کے خاتمے اور عوام کو سرکاری سہولیات کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے صوبہ پنجاب میں Punjab Model For Pro Active Governanceجیسے نظام کی داغ بیل ڈالی جس نے صوبے بھر میں جہاں نظام کی شفافیت پر عوام کے اعتماد کو بڑھایا وہاںسرکاری اداروں کی کارکردگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا‘ جس کے نتیجے میں ابتدائی چند ماہ میں ہی چوالیس لاکھ افراد نے رابطہ کیا اور 3600اصلاحی اقدامات کئے گئے۔
PITBکے پروجیکٹس اب دیگر ممالک اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے بھی اپناناچاہ رہے ہیں۔
میں 2011ء میں پنجاب کی پہلی پبلک سیکٹر کی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی(آئی ٹی یو) کا سب سے کم عمر ترین وائس چانسلر بنا اور آئی ٹی یو تیزی سے ایک عالمی سطح کی یونیورسٹی بن رہی ہے۔آپ کے اداریے سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے میں سازش کے بل بوتے پر کسی عہدے کا خواہاں ہوں۔
آپ سے ادنیٰ گزارش ہے کہ آپ اپنا فیصلہ میرٹ پر کریں۔ آپ کے اداریے سے میرے والد صاحب کی دل آزاری ہوئی ہے جو حکومت میں کسی عہدے پر فائزنہیں ہیں ۔ میں اور میرے والد صاحب نے کسی عہدے کی پروا کیے بغیر وطن عزیز کی خدمت کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔آخر میں آپ کی خدمت میں یہ شعر پیش کرنا چاہوں گا ۔
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
فقط
آپ کا خیر اندیش
ڈاکٹر عمر سیف‘‘
ڈاکٹر صاحب کا خط من و عن چھاپ دیا ہے ۔ عربوں کا محاورہ مگر یاد رہے : لکل فنّ رجال۔ ہر کام کے لیے مخصوص مردانِ کار ہوتے ہیں ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے ''اللہ کو بندے سے جو کام لینا ہو، وہ اس کے لیے سہل کر دیتاہے‘‘۔ جس کا کام اسی کو ساجھے ، دوجا کرے تو ٹھینگاباجے!