عمران خان کے لیے مشورہ وہی ہے‘ جو جنرل محمد ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو ا فغانستان کے سلسلے میں دیا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر دیا تھا: "Water should be boiled at proper temperature" (پانی کو موزوں درجہ حرارت پر کھولنا چاہیے۔)
حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ عزم ان کا یہ ہے کہ دس لاکھ مظاہرین کے ساتھ دارالحکو مت پہ چڑھ دوڑیں گے۔ علامہ طاہر القادری تو اعلان ہی کرتے رہ گئے‘ کسی کی سمجھ میں آ نہ سکا کہ ان کا انقلاب کیا خریدے گا اور کیا بیچے گا... ٹائیں ٹائیں فش ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
اپوزیشن جماعتوں سے اب وہ حمایت کے طلب گار ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر کو اس میں شرکت سے گریز ہے مگر ایک نمائندہ اور طاقتور (All Powerful) وفد وہ اس اجتماع کے لیے ارسال کریں گے۔ چودھری صاحبان کے سوا‘ جو اس نائو پر سوار ہو کر پار اترنے کے آرزو مند ہیں‘ باقی پارٹیوں کا سلوک کیا ہوگا۔ پنجابی کہاوت یہ ہے: حجام سے پوچھا گیا کہ سر پہ کتنے بال ہیں۔ اس نے جواب دیا: ججمان! ابھی سامنے آئے جاتے ہیں۔ رزم کے ہنگام علامہ صاحب کا جو حال ہوا‘ اس کے بعد کون سا انقلاب اور کہاں کا انقلاب! ع
اڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا
کپتان مگر بے تاب ہے اور ملک کو وسط مدتی الیکشن تک لے جانے پہ تلا ہے۔ جوش و خروش اس میں بہت ہے اور کارکنوں میں بھی۔ پرویز رشیدوں کے طعنے سنتے سنتے وہ تنگ آ گئے اور حساب بے باق کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پوری طرح جائزہ انہوں نے لے لیا ہے۔ کیا یہ اندازہ قائم کر لیا ہے کہ انجام کیا ہے۔ کیا ایک کے بعد دوسرا متبادل منصوبہ موجود ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کے بقول: جنگ ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے۔ زمینی حقائق اور سیاسی حرکیات نظرانداز کر کے‘ اس کے برعکس کیا یہ محض آرزو کی بے قراری تو نہیں ؎
دل عشق کے دریا میں ڈالا
بسم اللہ مجریہا و مُرسٰہا
انسانی ذہن کس طرح فیصلے فرماتا ہے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ تین اقسام دماغ کی ہیں۔ اولاً Brain stem... ریڑھ کی ہڈی جہاں دماغ سے جڑتی ہے‘ وہاں یہ واقع ہوتا ہے۔ وہ دل کو دھڑکاتا ہے‘ معدے کو کھانا ہضم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ سانس لینے اور لیتے رہنے کے لیے پھیپھڑوں کو اکساتا ہے۔ بقا کی خواہش‘ غصہ‘ غلبے کی آرزو‘ زندگی کو باقی رکھنے والی صلاحیت کا محور و مرکز گویا یہی ہے۔ جنس مخالف کی کشش اسی میں ہوتی ہے اور یہی نسل کے فروغ کا ضامن ہے۔ رینگنے والے جانوروں‘ مثلاً کیڑوں‘ مکوڑوں اور سانپ کا دماغ اسی قدر ہوتا ہے‘ بس اتنا ہی۔
دوسرا لمبک سسٹم (Lumbic system) ہے۔ یہ جذبات کی جولانگاہ ہے۔ مثال کے طور پر ممتا اس میں کارفرما ہوتی ہے۔ بچے میں کھیلنے کودنے کی خواہش اور بڑوں میں سیرو تفریح کی تمنا۔ یہ میملز بشمول چار ٹانگوں والے جانوروں میں بھی موجود ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم حصہ‘ سامنے کا دماغ (Fore brain) کہلاتا ہے اور غورو فکر کرنے والا دماغ بھی‘ (Reasoning Mind)۔ انسانوں میں دماغ کا یہ حصہ کرہ ارض کے باقی سب جانوروں سے اعلیٰ ہے۔ آدمی کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت یہیں مرتکز ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی یہی کرتا ہے۔ ذہانت کا مرکز یہی ہے۔ قرآن کریم میں ہے ''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو‘‘۔ اس سے مراد عقل انسانی کا یہی مرکز ہے اور حیوانات پر اس کا اطلاق‘ جبلتوں کی سطح پر ہوتا ہے کہ ان کے مختصر سے دماغ سامنے ہی ہوتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اچھے اور برے رجحانات انسانی ذہن میں ہم نے الہام کر دیئے‘ اب وہ چاہے تو شکر کرے اور چاہے تو ہمارا انکار ہی کردے۔ حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے کہا کہ چل پھر کے دکھا‘ پھر اس پہ ناز فرمایا اور یہ ارشاد کیا: کسی کو جو کچھ بھی دوں گا‘ ترے طفیل دوں گا اور جو کچھ لوں گا‘ تیرے ہی سبب لوں گا (کہ آدم زاد بصیرت کے تقاضوں سے انحراف کرے۔) قرآن کریم‘ غورو فکر پہ پیہم اصرار کرتا ہے۔ اللہ کے ان بندوں کی نشانیاں بیان کرتے وہ یہ کہتا ہے: غصہ پی جانے والے‘ احسان کرنے والے! جتلاتا ہے کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ خوش خبری دیتا ہے کہ اللہ مومنوں کا دوست ہے‘ وہ انہیں تاریکی سے روشنی (کنفیوژن سے یکسوئی) کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان کافروں کا ولی ہے‘ روشنی سے وہ انہیں تاریکی (اور یکسوئی سے کنفیوژن) کی طرف لے جایا کرتا ہے۔ اگر یہ تصور درست ہے کہ قرآن کریم کا آخری سپارہ‘ جس کی اٹھارہ سورتیں زیادہ تر آغاز وحی میں نازل ہوئیں‘ تو اس میں انہماک زیادہ چاہیے۔ سورہ والعصر کا خلاصہ یہ ہے: زمانہ طاقتور بہت ہے اور آدمی اس کی تاب نہیں لا سکتا‘ اس کے مقابل کھڑا نہیں ہو سکتا‘ مگر ایک استثنیٰ بھی ہے‘ وہ لوگ جو ایمان لائے‘ جو سچائی اور صبر کا دامن ہمیشہ تھامے رکھتے ہیں۔ صبر‘ وسیع تر معنی میں‘ اللہ پہ توکل‘ حکمت اور تدبر کے لیے غورو فکر‘ مشاورت اور تحمل۔
سٹینلے والپرٹ نے لکھا کہ محمد علی جناح مقدمے کی تیاری کر کے آتے تو عدالت کے ماحول پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی۔ تمام پہلوئوں پر سوچ لیا ہوتا۔ جس طرف نگاہ ڈالتے ایک مرعوبیت سی چھا جاتی۔ جج حضرات کو محتاط رہنا ہوتا کہ غیر ضروری سوال اور طنز سے گریز کریں۔ اگر کسی نے حماقت کا ارتکاب کیا‘ اسے تلوار کی دھار ایسی تیز ذہانت سے واسطہ پڑا۔ ایک جج نے مثلاً یہ کہا: مسٹر جناح! آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے بات نہیں کر رہے۔ جواب ملا: مائی لارڈ آپ کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں۔ تاریخ ساز برطانوی شخصیات سے فیض پانے والے‘ جناح جھوٹ کبھی نہ بولتے‘ اپنی توانائی ضائع نہ کرتے۔ غیبت سے گریز کرتے۔ وعدہ کبھی توڑا نہیں اور بددیانتی کا کبھی ارتکاب نہ کیا۔ 1913ء میں جب وہ مسلم لیگ کے ممبر نہ تھے‘ اس کے سالانہ اجلاس میں وہ مدعو تھے۔ آزادی کے لیے ہندو مسلم اتحاد ان کی آرزو تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ کم از کم اس وقت کانگرس اور مسلم لیگ کو تصادم سے گریز کرنا چاہیے۔ لیگ کے بعض لیڈروں کو یہ گوارا نہ تھا؛ چنانچہ بہت سے تماشائی انہوں نے جمع کر لیے۔ قائداعظم مائیک پر پہنچے تو ہجوم نے ہنگامہ برپا کردیا۔ مولانا حسرت موہانی ان میں پیش پیش تھے۔ حریت کیش مگر جذباتی۔ چیخ چیخ کر کہا: جناح کا لباس اسلامی ہے اور نہ ان کی زبان۔ پورے وقار کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے قائداعظم سٹیج سے اترے اور احتجاج درج کرانے کے بعد تشریف لے گئے۔ اگلے ہی برس لیگ نے ان کے لیے خراج تحسین کی ایک قرارداد منظور کی‘ جب وائسرائے کونسل کے ایک منتخب ممبر کی حیثیت سے انہوں نے مسلم وقف املاک کے تحفظ کا قانون منظور کرایا۔ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگا۔ تاریخ کا عجوبہ مگر یہ ہے کہ قائداعظم تب بھی اس جماعت میں محترم تھے‘ جب وہ شامل نہیں تھے اور گاہے بہت تلخی کے ساتھ اس سے اختلاف کرتے۔
یہ عبارت عمران خان اوراس کی کور کمیٹی کے لیے لکھی ہے۔ دھاندلی کے باب میں ان کی شکایت بالکل بجا ہے‘ مگر جذبات کی لو کو وہ ضرورت سے زیادہ بھڑکا رہے ہیں۔ گزارش ان سے یہ ہے کہ ؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے
طاہرالقادری کھیت رہے‘ شیخ رشید محض برہم ہیں‘ چودھری صاحبان کا موقف برحق مگر وہ اپنی کوئی قوت نہیں رکھتے۔ کم از کم اس وقت اکثریت حکومت کو مہلت دینے کے حق میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے امکانات آشکار ہیں۔ مشکوک میڈیا گروپ کی سرگرم حمایت ترک کرنے اور وزیرستان میں کارروائی کے آغاز سے اسلام آباد‘ راولپنڈی کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
عمران خان کے لیے مشورہ وہی ہے‘ جو جنرل محمد ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو ا فغانستان کے سلسلے میں دیا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر دیا تھا: "Water should be boiled at proper temperature" (پانی کو موزوں درجہ حرارت پر کھولنا چاہیے۔)