ساری متاع نذر کرنی پڑتی ہے ، تب قوموں کی تقدیر بدلتی ہے ۔ آثار تو ہیں کہ تاریکی کا جگر شاید چاک ہو ۔ شاید کوئی اٹھے، شاید کوئی کہہ سکے ؎
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
(زندگی کی ساری متاع محبوب کی نذر کی ۔ شاد ہوں کہ فرض انجام دے ڈالا)
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو میاں محمد نواز شریف کی حکومت سے خلقِ خدا بیزار تھی ۔ 70فیصد پاکستانی شہریوں نے مارشل لا کا خیر مقدم کیا تھا۔ اوروں کا حال وہ جانیں ، اس طالبِ علم کو اندیشہ تب ہوا، جب انہوں نے یہ کہا : پاکستان پر حکومت کرنا مشکل ہے مگر امید ہے ، میں اس کا لطف اٹھا سکوں گا "I hope I'll enjoy it"
دو عظیم مغالطے ہیں ۔ ایک یہ کہ اختیار و اقتدار نعمت ہے ، امانت نہیں ۔ فرمانِ رسولؐ یہ ہے : کلّکم راع و کلّکم مسئول۔ ہر ایک صاحبِ اختیار ہے اور ہر ایک جواب دہ۔ ثانیاً یہ کہ زندگی اگرچہ حکمت و بصیرت اور ذہن رسا پہ بسر کی جاتی ہے ، اوّلین شرط مگر حسنِ نیت ہے... اخلاص ۔ روزِ ازل شیطان نے ، کروڑوں برس سے جو آدمی کو جانتا تھا ، جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ اسے گمراہ کر ے گا تو خالقِ کون و مکا ں نے تردید نہ کی اور یہ فرمایا: مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے ۔ذہین نہیں ، مخلص بندے۔ اقبالؔ نے شاید اسی لیے کہا تھا ع
عبد دیگر، عبدہٗ چیزے دگر
بندہ مختلف ہے ، اس کا بندہ مختلف۔ ایسا اکرام کسی کا نہیں ۔ سراجاً منیرانہیں کہا، دمکتا ہوا سورج۔ رحمتہ للعالمین قرار دیا ، سب جہانوں کے لیے باعثِ رحمت۔ ''رئوف اور رحیم‘‘ اپنے دو بابرکت نام عالی مرتبتؐ کو عطا کر دیے ۔ بار بار قرآنِ کریم میں ارشاد ہے اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی ۔ کیا عجب ہے کہ یہ آیت اقبالؔ کے لاشعور میں تڑپ رہی ہو ، جب یہ کہا تھا ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
علّامہ ابنِ قیّم کے گرامی قدر استاد ان کے شہر میں وارد ہوئے تو ملاقات کی تیاری کی۔ معاً خیال آیا:سرکارؐ کا اگر زمانہ ہوتا اور زیارت ممکن ہوتی تو کیا ایسا ہی اہتمام کرتا؟ دل نے جواب دیا ، ہرگز نہیں ۔ جس حال میںہوتا، بھاگ نکلتا۔
با ایں ہمہ ، معراج کی جب خیرہ کن ساعت طلوع ہوئی ، جب عصرِ رواں اور آنے والے زمانوں کے سوا، آسمانوں کے، عرش اور کرسی کے بھید آپؐ پر آشکار ہونا تھے تو قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا: سُبحٰن الّذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ۔ پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ ۔ تب انہیں فقط اپنا بندہ کہا، عظمت کے اوجِ کمال پر!
''بندگی‘‘... عظمت و علم کا ، نجات اور فروغ کا یہی اسمِ اعظم ہے ۔ کیسی وہ دل گداز ساعت ہوگی ، سرکارؐ نے جب اپنے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا تھا : تو جانتاہے کہ ایک غلام کی طرح میں کھاتا پیتا اور ایک غلام کی طرح میں اٹھتا بیٹھتا ہوں ۔
کچھ چیزیں ہیں، عہدِ اوّل کے بعد مسلمانوں نے کم ہی جن کا ادراک کیا۔اوّل یہ کہ اللہ کی رحمت کس قدر بے کراں ہے ۔ ثانیاً علوم و معارف کا قرآنِ کریم کیسا حیران کن خزینہ ہے ۔ ثالثاً یہ کہ مسلم تاریخ میں کبھی کوئی عارف نہ اٹھا، جس نے سرکارؐ کی پیروی کا تہیہ نہ کر لیا۔ مکاتبِ فکر کے اساتذہ کی اندھی تقلید سے دروازہ نہیں کھلتا۔
اقبالؔ اسی خردسے بیزار تھے ، جو خود پہ انحصار کرتی ہے ۔ اوّلین دو عشروں کے بعد جذبے کا طوفان جب کسی قدر تھم چکا۔ عقل اور عشق کی بحث میں مشرق کا عظیم فلسفی توازن کے قریب آپہنچاتو اس نے یہ کہا ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
ارادہ یہ تھا کہ مردِ دانا چوہدری نثارعلی خان کی سیاست پر بات کی جائے۔ انسانی ذہن کا معاملہ عجیب ہے ۔ پرواز کرتاہے تو حدود باقی نہیں رہتیں ۔ چوہدری بڑا سیانا ہے ، بہت ہی سیانا۔ کوئی د وسرا آدمی نہیں ، سیاست کی بھول بھلیوں کا جو اس قدر ادراک رکھتا ہو ۔ چھوٹی چھوٹی جزئیات سے لے کر عہدِ آئندہ کے امکانات تک، یکساں انہماک سے وہ غور کرتاہے ۔ اکثر اس کے اندازے درست ہوتے ہیں مگر بالآخر وہ حساب کتا ب ہی کا آدمی ہے۔ خوش گفتار لیکن دو جمع دو کے اسحٰق ڈار سے اس کا موازنہ موزوں ہے اور نہ اپنی انا کے اسیر خواجہ آصف سے ۔اپنے لہجے کی تمکنت سے جو لطف اٹھاتے اور اپنے خیال کے سحر کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ وضع داری نبھا نہیں سکتے اور زبان پہ قابو نہیں رکھ سکتے۔ حسابی کتابی چوہدری بہت ہے ۔ کسی پرانے منیم کی طرح گوشوارہ مرتّب کرنے والا۔ خواجہ آصف سے تب وہ شیر و شکر تھا، جب ایک بار اس نے مجھ سے کہاتھا: بہت سی کامیابیاں میں دیکھ چکا ۔ اس قدر اطمینان ضرور ہے کہ (احسن اقبال ایسوں کی طرح) جرائم اور مجرموں کی سرپرستی میں نہیں کرتا۔ اشارۃً یہ کہا کہ روحانی جہت کی آرزو البتہ تشنگی کا احساس دلاتی ہے ۔ دلاتی ہی رہے گی ۔ روحانیت ایک برتر چیز ہے ۔ پڑھنے کو تو خواجہ آصف بھی برسوں دعائیں پڑھتے رہے مگر حاصل کیا؟ ایک دن خود اپنے صاحبِ علم اور پاک باز استاد کی بارگاہ میں بدتمیزی کی ۔
نثار علی خان کا سیاسی سفر تھم گیا ہے ۔میاں محمد نواز شریف اور وہ دونوں مخمصے کا شکار ہیں ۔ بس میں ہو تو ایک دوسرے سے نجات پالیں مگر فی الحال یہ ممکن نہیں ؛چنانچہ مصالحت کرنا پڑی ۔ چوہدری نے پارٹی سے وابستگی کے اعلان کی اور نہ میاں صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ وزیراعظم نے بھی ان کی خدمات کو ہرگز نہ سراہا۔ بظاہر نون لیگ میں چوہدری کا اب کوئی مستقبل نہیں ۔ یہ سہولت کی شادی ہے ۔ عمران خان دانا ہوتے تو چیئرمین یاصدارت کا منصب ان کے لیے خالی کر دیتے ۔ چوہدری صاحب جراتِ رندانہ کا مظاہرہ فرما سکتے تو ایک نعرۂ مستانہ کے ساتھ الگ ہو جاتے ۔
کچّا ٹانکا ہے ، کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے ۔ ایک چیز ہے ، قائداعظم جسے Pure Politics کہا کرتے ۔ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ، پوری حقیقت پسندی سے حکمتِ عملی وضع کرنا ۔ چوہدری میں صلاحیت بے پایاں تھی مگر اخلاقی اور روحانی جہت معمولی ۔ کھٹ سے اللہ کی رحمت کا دروازہ کھلتا مگر بن مانگے تو گاہے وہ گھاس بھی نہیں دیتا ؛چہ جائیکہ کہ عظمت و رفعت ۔ یوں بھی عظمت غریبوں، دکھ جھیلنے اور ایثار کرنے والوں کے لیے ہوتی ہے ۔ چوہدری کہاں ، شریف برادران کہا ں ۔ ان کے مقاصد محدود ہیں ۔ اقتدار کا انبساط ،جو دنیا کا سب سے تباہ کن نشہ ہے ۔ جان چھوڑتا ہی نہیں ۔ عزتِ نفس اور شان و شوکت کاایک سطحی سا تصور ۔ کوئی دن مجبوری کی یہ مصالحت باقی رہے گی ، پھر بکھر جائے گی۔ عمران خان سمیت سبھی کا حال پتلا ہے ۔ پانی پت کی تیسری جنگ لڑنے جاتے ہیں اور لشکر سراج الدولہ سے بدتر۔ رہے علّامہ طاہر القادری تو سو بار الحذر! جرأت ہی نہیں ، جسارت ہی نہیں ۔کردار کا ایک ذرّہ نہیں ، فقط زور ِ خطابت۔ کوئی دن میں غبارہ پھٹ جائے گا۔
ساری متاع نذر کرنی پڑتی ہے ، تب قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ نہیں، یہ ان میں سے کسی کے بس کا نہیں ۔ آثار تو ہیں کہ تاریکی کا جگر چاک ہو ۔ شاید کوئی اٹھے، شاید کوئی کہہ سکے ۔
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم