کوئی استثنیٰ نہیں ، اللہ کے قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ پیغمبرانِ عظامؑ سمیت سب کو خون پسینہ ایک کرنا پڑا، تب مراد برآئی۔ امیر مینائی نے یہ کہا تھا کہ ڈھنگ کا ایک شعربھی خونِ جگر مانگتاہے ؎
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت
وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت بڑھی ہے ۔ اگر اسے اقتدار مل گیا تو کیا ہوگا؟ کیا وہ کامیاب رہے گا؟ کیا ملک کو سیاسی استحکام حاصل ہوگا اور وہ پٹڑی پہ چڑھ جائے گا؟ شاید اب اس موضوع پر بات ہونی چاہیے۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک اور نکتہ اور اس کا موضوع سے تعلق نہیں ۔ تنقید کا تعلق اکثر آدمی کے کردار سے نہیں بلکہ اس کی اہمیت سے ہوتا ہے۔ ہم تو خیر خطاکار ہیں ۔ ہمارے خلاف اگر لکھا جائے تو بہت کچھ درست بھی ہو سکتاہے ۔ تاریخ کی عظیم ترین ہستیوں کا مذاق اڑیا گیا۔ دوستوں کو رنج ہوتاہے ۔ نہ ہونا چاہیے۔ یوں بھی فکری یتیموں اور ذہنی بھکاریوں سے ہرگز نہ الجھنا چاہیے۔
تحریکِ انصاف اگر وسط مدّتی الیکشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور جیت گئی ؟ اب نہیں تو چار برس کے بعد ؟ انتخابی میدان میں اترنے کے لیے وہ مرتّب اور منظّم ہرگز نہیں۔ اسے تنظیمِ نو کی ضرورت ہے ۔ خود عمران خان اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ وہ مگر احتجاجی سیاست کے ہو کر رہ گئے۔ یہ ایک فاش غلطی ہے ۔ وقت آنے پر انہیں اس کا احساس ہوگا اور اذیت بھی کہ کارکنوں اور لیڈروں کی تربیت کے بغیر زمامِ کار سنبھالنا خطرناک ہوتاہے ۔ہنگامی دبائو سے حاصل کی جانے والی کامیابی بہت جلد ناکامی میں بدل جاتی ہے ۔ پھر ایک حادثے کی یاد باقی رہ جاتی ہے ؎
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر ا س مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
مورخ لکھتاہے کہ اپنے عہد کے لیڈروں میں قائد اعظم بہترین منتظم تھے ۔ اپنے لوگوں کو سکھاتے اور بتدریج انہیں ذمہ داریاں سونپتے۔ اگر واقعی مصروف ہوں یا آرام کرنے کے آرزومند تو انگریز گورنر یا وائسرائے تک سے ملاقات نہ کرتے ۔ کسی نائب کو بھیجتے یا معاملے کو موخر کر دیتے ۔ اس باب میں تحریک انصاف سب دوسری پارٹیوں سے پیچھے ہے! حالانکہ مخلص، پرجوش اور تعلیم یافتہ کارکنوں کی بہت بڑی تعدادہم رکاب ہے۔ سیکھ سکیں تو وطن کا آنے والا کل وہ منوّر کر سکتے ہیں ۔
میڈیا کے محاذ پر بھی عالم یہی ہے ۔پشاور سے آنے والے ایک اخبار نویس نے ابھی ابھی بتایا :پٹواری کا مسئلہ حل کرلیا گیا ہے ۔ پشاور کے سب تندوروں پر روٹی کا وزن یکساں اور پنجاب سے زیادہ ہے ۔ پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے اس سے کہاکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ مستعفی ہونے پر آمادہ ہے ۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت بھی پنجاب سے بہتر ہے ۔ یہ کامیابیاں میڈیا میں کیوں نہیں جھلکتیں ؟ اس لیے کہ اس باب میں وہ نالائق ہیں ۔
قائداعظمؒ کی مسلم لیگ نے بدیسی حکمرانوں کے بارے میں بارہا نرم رویّہ اختیار کیا۔ اکثر یہ کمزوری یا بزدلی نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا حصہ تھا ۔ کانگرس پر دبائو ڈالنے یا مسلم عوام کے حقوق جیتنے کے لیے ۔ اسی کا نام سیاست ہے کہ گاہے ایک قدم آگے بڑھایا اور کبھی ایک قدم پیچھے ہٹا جائے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ اعلیٰ مقاصد سے وابستہ رہتے ہوئے، طاقتور گروہوں کو کس طرح نمٹایا جاتاہے ۔ ابھی تک وہ فوج ، کاروباری طبقات ، امریکہ اور پاکستان کی سیاست میں دخیل عرب ممالک کے بارے میں حکمتِ عملی مرتّب نہیں کر سکے۔ معاملے کی اہمیت کا انہیں ادراک ہی نہیں۔
سب سے اہم یہ کہ مختلف شعبوں کے لیے لازم ،قومی اصلاحات کے باب میں ابھی تک ریاضت کا آغاز تک نہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں، ملک کے بہترین پولیس افسروں کے ساتھ عمران خان کی کچھ ملاقاتوں کا بندوبست ناچیز نے کیاتھا۔ دعویٰ یہ ہے کہ وہ پولیس کو بدل ڈالیں گے لیکن مجال ہے کہ ذرا سی عرق ریزی بھی فرمائی ہو ۔ ایک حالیہ ملاقات میں کپتان نے اتفاق کیا کہ سول سروس کی حالت بہت بری ہے ۔ میں نے اس سے یہ کہا تھا : جب تک سرکاری افسروں کو قانون کے دائرہ کار میں مکمل آزادی نصیب نہ ہو گی ، ان کی صلاحیت بروئے کار نہ آئے گی ۔ لاہور کے ایک تھنک ٹینک نے اس موضوع پر بہت ہی قابلِ قدر کام کیاہے ۔ اس کے سربراہ سے بھی خان صاحب کے رابطے کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے دوستوں نے لیکن دردمند آدمی کی حوصلہ شکنی فرمائی اور وہ گھر جا کر بیٹھ رہا۔ بار بار خان صاحب اعلان فرماتے ہیں کہ وہ ٹیکس وصول کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ قوم کو ان پر اعتماد ہے ، بچگانہ بات ! موجودہ نظام کی خامیوں کو سمجھنے اور ایک نیا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ بہترین حکومت وہ ہوتی ہے جو کاروبار کو نقصان پہنچائے اور کاروباری طبقات کو زیادہ ناراض کیے بغیر ٹیکس وصولی میں اضافہ کر سکے ۔ ظاہر ہے کہ پتہ ماری کرنا ہوگی ۔ چند روز اور چند ہفتے نہیں بلکہ مہینوں تک ۔ سنگین ترین مسئلہ نظامِ انصاف کی ژولیدگی ہے ۔ نچلی عدالت خاص طور پہ عذاب بن چکی۔ تفتیش ناقص ، کام کے دبائو میں الجھا ہو ا عدالتی عملہ کرپٹ یا پریشان حال۔نچلی سطح پر ججوں کا حال بھی پتلا ہے ۔ اس پر وکلاء کے جارحانہ تاخیری حربے۔ سچ کہیں کھو جاتاہے اور سائل درماندہ ہو کے رہ گیا ہے۔ وکلاء تحریک سے امید کی جو کرن پھوٹی تھی ، اسے خود وکلا اور ان سے زیادہ سابق چیف جسٹس نے بجھا دیا۔ اس تحریک سے حاصل ہونے والی قوّت کو انہوں نے ذاتی اناکے لیے استعمال کیا۔ایک بلند مقام سے بتدریج وہ نیچے اترتے گئے؛ حتیٰ کہ اب وہ جناب ارسلان افتخار کے والدِ گرامی کے سواکچھ بھی نہیں ۔اس المناک مسئلے کی تفہیم کرنا ہوگی اور ظاہر ہے کہ طویل غور و فکر کے ساتھ ہی یہ کارِ عظیم ممکن ہے ۔ نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی مثال نہ دیجیے ۔ چار عشروں کا تجربہ یہ کہتاہے کہ مسائل حل کرنے کے وہ آرزومند ہی نہ تھے ، فقط اقتدار سے لطف اٹھانے کے ۔ کیا تحریکِ انصاف بھی ایسی ہی ایک پارٹی ہے ؟ خوش گمانی کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ، الّا یہ کہ وہ اپنے عمل سے امکان اور امید پیدا کرے ۔ تحریکِ انصاف کے کسی لیڈر کو میں نہیں جانتا جوافواج اور خفیہ ایجنسیوں کے نظام اور طریقِ کار کا ادراک رکھتا ہو ۔ پاکستانی فوج کو تشکیلِ نو کی ضرورت ہے اور عسکری خفیہ ایجنسیوں کو بھی ۔ اخلاقی اساس کے علاوہ آپ کا علم ہی آپ کا مددگار ہوگا ۔ صحت اور تعلیم کے لیے ہمارا بجٹ شرمناک حد تک کم ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک یہ کہ تنخواہوں کے سوا، اس کا بیشتر حصہ ضائع ہو جاتاہے۔ کیا ماہرین کی کمیٹیاں قائم کرنے کی ضرورت نہیں، جو گہرائی میں ان مسائل کا جائزہ لیں ۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک بے حد پسماندہ ہے ۔ تحریکِ انصاف سمیت کیا کبھی کسی پارٹی نے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کا ارادہ کیا؟ خدا کی دنیا جذبات سے نہیں ، حسنِ نیت ، علم اور حکمت سے بدلتی ہے۔ خان سے میں نے کہا : اگر اچانک تمہیں اقتدار مل جائے تو کیا ہوگا؟ ایک او رپارٹی، ایک اور حکومت ، ایک اور ناکامی ؟ وہ خاموش رہا۔ کیا وہ متفق تھا؟ اپنی ذاتی زندگی کو بھی اسے سنوارنا ہوگا وگرنہ حادثہ ہوگا۔ اس باب میں تھوڑے لکھے کو وہ بہت جانے۔
کوئی استثنیٰ نہیں ، اللہ کے قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ پیغمبرانِ عظامؑ سمیت سب کو خون پسینہ ایک کرنا پڑا، تب مراد برآئی۔ امیر مینائی نے یہ کہا تھا کہ ڈھنگ کا ایک شعربھی خونِ جگر مانگتاہے ۔
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت