بھٹکتے رہو، جب تک اور جہاں تک چاہو بھٹکتے پھرو۔ اقبالؔ نے کہا تھا: جہاں کہیں روشنی ہے ، وہ مصطفی ؐ کے طفیل ہے یا مصطفی ؐ کی تلا ش میں ۔ باقی سب ژولیدہ فکری ، باقی سب گمراہی ۔
الطاف حسین کی تجویز یہ ہے کہ بحران بڑھ جائے تونواز شریف مستعفی ہو جائیں اور اپنی ہی پارٹی سے نیا وزیراعظم چن لیں۔ ظاہر ہے کہ اس تجویز کی پذیرائی کا کوئی امکان نہیں ۔ کہاوت یہ ہے : حافظ جی، کھیر کھائو گے؟ ''جی ہا ں!اور کس لیے اندھے ہوئے تھے؟‘‘ پاکستانی سیاست قدیم سے چلی آتی اسی اشرافیہ کا تسلسل ہے ، جو فاتحین کے سائے میں پروان چڑھتی رہی ۔ عدم تحفظ کے ایک خوفناک احساس ،کمتری کی نفسیاتی کیفیت اور ذاتی مفاد کے سوا کسی چیز کی پروا اسے نہیں ہے ۔ چوہدری نثار علی خان سے ایک بار ناچیز نے کہا : شاید یہ دنیا کی بدترین اشرافیہ ہے ۔ کچھ حیران سے ہوئے اوریہ کہا : شاید عرب معاشرے ہم سے بھی بدتر ہیں ۔ ٹھیک کہا لیکن بدترین ہی سے موازنہ کیوں ؟
حالات جس نہج پہ آگئے ،شاید ایک قومی حکومت کاقیام اس میں بہترین لائحۂ عمل ہے۔یہ بات مگر حکمرانوں کو کون سمجھائے ؟ لاہور ، راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس پہ کتنا سرمایہ برباد ہوگا؟ ڈیڑھ سو ارب کے لگ بھگ۔جناب شہباز شریف نے اب پچیس ارب روپے سے پیلی ٹیکسیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔دل دہلا دینے والی اطلاع یہ ہے کہ پنجاب میں سرکاری سکولوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے ۔بتایا گیا ہے کہ گرتے گرتے یہ صرف 54ہزار رہ گئی ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول مدغم کیے جا رہے ہیں ۔ والدین اس پر پریشان ہیں کہ دیہات میں نسبتاً بڑی عمر کے بچے
تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ۔مذہبی جماعتوں اور علما کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے مگر خیر سے وہ کاروبارِ سیاست میں مصروف ہیں ۔ برسبیلِ تذکرہ مولانا فضل الرحمن یہ کیا راگ الاپ رہے ہیں کہ عمران خان یہودیوں کے ایجنٹ ہیں ۔ کیا ان کی پارٹی میں ایک صاحبِ ضمیر بھی نہیں ، جو احتجاج کرے ۔ سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صدام حسین ،کرنل قذافی اور پرنس مقرن کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ۔کس لیے ؟ عمران خان سے لاکھ اختلاف مگر مولانا ایسی حرکتیں کرتے وہ کبھی نہیں پائے گئے ۔
ملک کے اصل مسائل کیا ہیں ؟ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ شہری یرقان (Hepatitis)میں مبتلا ہیں ۔ ہر بیسویں پاکستانی کی زندگی خطرے میں ۔ اگر یہ ایک مہذب حکومت ہوتی ، اگر یہ ایک مہذب اپوزیشن ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ ہومیو پیتھی کی ایک دوا کے چند قطرے، پاکستانی طبّی بورڈ کی مدد سے طے کردہ چند جڑی بوٹیاں خطرے میں پڑی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتی ہیں ۔ اگر کچھ اور نہیں تو ہر خاندان کے لیے پانی صاف کرنے والا فلٹر ، جو 75فیصد رعایتی قیمت پر فراہم کیا جائے ۔ تین کروڑ خاندانوں کے لیے دس ارب روپے بھی درکار نہ ہوں گے ۔
نچلی عدالتوں میں ایک ایک دن میں درجنوں مقدمات ۔ حکومت کو پروا کیوں نہیں ؟ اوّل تو پولیس تفتیش ہی نہیں کرتی ۔ کرے تو اس کا اعتبار کیا ۔ پھر قانون دان مسئلہ حل کرنے کی بجائے مسئلے کا حصہ بن گئے ۔ تاخیر پہ تاخیر۔ ایک اندازے کے مطابق جیلوںمیں پچاس فیصد قیدی بے گناہ ہیں ۔ کسی لیڈر کا دل اس پر نہیں دکھتا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ افتادگانِ خاک کی زندگی قابلِ برداشت بنانے کی تدبیر کی جائے ۔ بھوکے بھیڑیوں کی طرح سیاستدان ایک دوسرے کے درپے ہیں ۔ کیاکبھی وہ ایک مشترکہ قومی ایجنڈے کی تشکیل کے بارے سوچتے ہیں ؟
سول سروس سیاستدانوں کی باندی بن چکی۔ غضب خدا کا، عید کے دن 35شہری سمندر میں ڈوب گئے ۔ سندھ کے چیف سیکرٹری پرسوں وزیرِ اعلیٰ سے ملے مگر افسوس کہ سچ بتانے کی جرأت نہ کر سکے ۔ سمندر میں اترنے کی ممانعت کا حکم 23 جولائی کو غیر موثر تھا۔ ہنگامہ ہوا تو ایک جعلی حکم نامہ تیار کر کے اس پر 28جولائی کی تاریخ ڈال دی گئی ۔ خاک نشینوں کا خون اس قدر بے وقعت ہو گیا کہ مرکز کو پروا ہے اور نہ صوبائی حکومت کو ۔ آصف علی زرداری کے کان پہ جُوں رینگی نہ بلاول بھٹو کے۔ وہی جمعیت علمائِ اسلام والا مسئلہ۔ پیپلز پارٹی میں ایسا کوئی نہیں ،جو چیخ کر کہے کہ خدا کے بندو، قصورواروںکو سزا دو۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور رضا ربانی فلسفہ خوب بھگارتے ہیں لیکن وہ درد مندی جو آمادۂ عمل کرتی ہے؟
پاکستانی سیاستدان اتنے بے حیا ہو گئے کہ فرمانِ رسولؐ صادق یاد آتاہے ''جسے شرم نہیں، وہ اپنی مرضی کرے‘‘ کب تک مگر کب تک؟
سب جانتے ہیں کہ اس سے آدھا ٹیکس جمع ہوتا ہے ، جتنا کہ ہونا چاہیے۔ ایک قومی حکومت ٹیکس وصولی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر سکتی ہے ۔اس تباہ کن احتیاج سے نجات جس کی وجہ سے انکل سام کے سامنے ہم کشکول پھیلائے رکھتے ہیں۔ 5000ارب روپے سالانہ وصول کیے جارہے ہوں تو مزید قرض مانگنے کی بجائے، ہر سال دس بلین ڈالر ہم واپس کر رہے ہوں گے۔ کاروباری طبقات اور اپوزیشن کے خوف سے کوئی حکومت کبھی کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کر سکی ۔ ایک قومی حکومت ہی کر سکتی ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف اپنے دوستوں سے پوچھتے پھر تے ہیں : ہر بار ہماری حکومت کیوں گرجاتی ہے ؟ جنابِ والا! ناقص ترجیحات کی وجہ سے ، خوئے انتقام کے طفیل، اصل مسائل سے نمٹنے کی بجائے شعبدہ بازی کا روّیہ اختیار کر لینے کے سبب۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ فوج ایسے قومی ادارے کی بجائے، مشکوک میڈیا گروپ کا ساتھ دیں ۔ آپ کو کس نے بتایا کہ اس عمل میں قوم آپ کا ساتھ دے گی ؟ کیا آپ کو یہ اطلاع دینے والاکوئی نہیں کہ میڈیا اور عدالتوں کی آزادی کے بعد کوئی معاشرہ کسی بادشاہ سلامت کو گوارا نہیں کیا کرتا۔
وزیراعظم نے اپنے ذاتی دوستوں کو جمع کیا کہ مشورہ کریں ۔ اس پر اظہارِ تاسف کیا کہ بھارت اور افغانستان نے ان کی طرف سے بڑھا یا گیا دوستی کا ہاتھ تھامنے سے انکارکر دیا۔یوں نہیں ہوتا حضور! قوموں کے باہمی تعلقات کا انحصار ان کی قوّت پر ہوتاہے یا باہمی مفادات پر۔ لجاجت کے ساتھ ہاتھ پھیلانے سے کیا حاصل ؟ ایک امریکی اخبار کی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ بھارتی گجرات کے چالیس ہزار سکولوں کو ایک انتہا پسند مصنف کی کتاب پہنچا دی گئی ہے۔ اس میں دعویٰ یہ ہے کہ سکم ، بھوٹان، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان اس عظیم بھارت کا حصہ ہیں ، جو کبھی تھا اور جسے وجود میں آنا چاہیے۔ اس کتاب کا دیباچہ جناب نریندر مودی نے لکھا ہے ۔
خارجی اور داخلی خطرات سے بے بہرہ سیاستدانوں کا روّیہ کب بدلے گا؟ اس وقت ، جب قوم ان کے احتساب کا آغاز کرے گی ؟ ان کا گریبان پکڑے گی ؟ یہ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے : برائی سے اگر روکا نہ جائے گااور بھلائی کی اگر ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلّط کر دیے جائیں گے ۔
بھٹکتے رہو، جب تک اور جہاں تک چاہو بھٹکتے پھرو۔ اقبالؔ نے کہا تھا: جہاں کہیں روشنی ہے ، وہ مصطفی ؐ کے طفیل ہے یا مصطفی ؐ کی تلا ش میں ۔ باقی سب ژولیدہ فکری ، باقی سب گمراہی ۔
پسِ تحریر: جناب حسین نقی کو مظالطہ ہوا۔ سیّد عباس اطہر کے جنرل ضیاء الحق سے ہرگز کوئی مراسم نہ تھے ، گورنر سوار خان سے البتہ کچھ دن مراسم رہے ۔ پاسپورٹ انہیں ضیاء الحق حکومت سے نہیں ملاتھا۔ وہ ان کے قیدی رہے اور ان کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر تھے ۔ محمد عباس کے نام سے شناختی کارڈ بنوایا گیا۔ معروف اخبار نویس سعود ساحر کی مدد سے پائلٹ گیٹ سے انہیں جہاز میں سوار کرایا گیا۔ وہ مارشل لا کے معتوب تھے ، اسی لیے انہیں امریکہ فرار ہونا پڑا۔