خطرناک مراحل سے گزرے بغیر افراد اور قوموں کی بلوغت کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ صبر و تحمل کی اس وقت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، جب دبائو شدید اور اعصاب شکن ہو۔ قرآنِ کریم یہ کہتاہے ''فصبرجمیل‘‘ صبر ہی سب سے خوبصورت اور اعلیٰ ترین راستہ ہے ۔
بظاہر ایسا لگتاہے کہ دونوں طرف کی سیاسی قوّتیں فوجی مداخلت کو ناگزیر بنانے پر تلی ہیں ۔ اس حکومت کے بارے میں کیا کہا جائے، جس نے اپنے ہی قائم کردہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ دو ہفتے تک چھپائے رکھی۔ دنیا ٹی وی سے سنائی گئی تو رانا ثناء اللہ کا ردّعمل یہ تھا : رپورٹ ٹی وی چینلوں اور طاہر القادری تک پہنچائی گئی ہے اور یہ ایک منصوبے کا حصہ ہے ۔ کس نے پہنچائی ہے ؟ کمیشن نے ؟ اسی ہائیکورٹ نے، حکومت کو جس سے کوئی شکایت نہیں ؟چار دن میں رانا صاحب درجن بھر صحافیوں کی توہین کر چکے ۔ برہمی کے شکار اس شخص کو ٹی وی پر آنا ہی نہیں چاہیے، جو اتنی سادہ سی بات نہیں سمجھتا کہ صحافیوں کا کام ہی خبروں کی تلاش اور خلقِ خدا کو ان سے آگاہ رکھنا ہے۔ چند روز قبل رانا صاحب نے ایک ٹی وی پر یہ کہا کہ عمران خان منشّیات کے زیرِ اثر ہیں۔ اس پر ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ کیا حکومت طاقت کے نشے (Intoxication) کا شکار نہیں؟ فرمایا: یہ تو بہت گھٹیا بات آپ نے کی ۔ پھر اس جملے کو وہ دہراتے رہے ۔ پیہم ان کا اصرار یہ ہے کہ ساری خرابی اخبار نویسوں کی پیدا کردہ ہے ۔ ناراض وہ اس قدر ہیں کہ امتیاز گل ایسوں کو بھی برا بھلا کہتے ہیں ، جو حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔
دوسری طرف عمران خان اس خیال کا شکار ہیں کہ ان کا وقت آپہنچا ۔ اگر وزیراعظم کو الگ کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں تو
اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گا۔ اندرخانہ تحریکِ انصاف کے اکثر ممتاز رہنمائوں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور جہانگیر ترین کی رائے قدرے مختلف ہے ۔ خان صاحب مگر ڈٹے ہوئے ہیں ۔اس کے باوجود مصالحت پر آمادہ نہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کو سپریم کورٹ کی تحقیقات سے وابستہ کر دیا جائے ۔ کل شب پارٹی کے ایک رہنما سے دیر تک ناچیز نے اس موضوع پر گفتگو کی۔ عرض کیا کہ استعفے کے سوا آپ کے تمام مطالبات مان لیے گئے ؛اگرچہ کمیشن کی رپورٹ اس وقت منظرِ عام پر نہیں آئی تھی ؛تاہم ان سے گزارش کی کہ مزید ایک مطالبہ منوایا جا سکتاہے ۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ ۔ مزید برآں ووٹ ڈالنے کے بائیو میٹرک سسٹم کا پختہ وعدہ ، جس کے بعد دھاندلی مشکل نہیں ، تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ شریف حکومت کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ سمجھوتہ اگر ہوا تو باقاعدہ ہو گا۔ خود وزیراعظم کو اعلان کا پابند کیا جا سکتاہے ۔ دونوں طرف کے قانونی ماہرین ضمانتوں پر بات کر سکتے ہیں ۔ ریڈ زون کی حفاظت پہ متعین فوج اس سارے معاملے میں شریک ہو چکی ۔وہ مذاکرات سے تنازعات حل کرنے پہ زور دے چکی ؛چنانچہ اس کی ضمانت کیوں نہیں ؟
میاں محمد شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ براہِ راست ہی نہیں، بالواسطہ بھی اگر کوئی عدالت انہیں ذمہ دار قرار دے دے تو فوراً وہ الگ ہو جائیں گے ۔ ایک نہیں ، دو عدالتوں نے ان کی فرمائش پوری کر دی ہے ۔ اوّل سیشن جج نے قرار دیا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، ثانیاً اب عدالتی کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ ماڈل ٹائون میں خون کی ہولی کھیلی گئی اوریہ حکومتِ پنجاب کے ایما پر ہوا۔ ادھر حمزہ شہباز چیخ چیخ کر یہ کہتے ہیں : مائی کے کسی لعل کی جرأت ہے کہ ان کے والد یا میاں نواز شریف سے مستعفی ہونے کا اعلان کرا سکے ۔ محترمہ مریم نواز نے ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ عمران خان چاہیں تو ساری عمر کنٹینر میں گزار دیں، وزیراعظم ہرگز اپنے منصب سے الگ نہ ہوں گے ۔ شریف خاندان کی نئی نسل آگ بجھانے کی کوشش کر رہی ہے یا بھڑکانے کی؟
پہلی بار یہ تماشا برپا نہیں ۔ 1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نئے الیکشن پر آمادہ تھے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دستور میں ان تمام ترامیم پر بھی ، نواب زادہ نصراللہ خان کی قیاد ت میں اپوزیشن جن کا پرچم لے کر اٹھی تھی ۔ فخرِ ایشیا ، قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو مگر فساد کی آگ بھڑکاتے رہے ؛حتیٰ کہ ایوب خاں نے اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ کئی ہفتوں کے خوں ریز واقعات کے بعد زمامِ کار انہوں نے کمانڈر انچیف یحییٰ خان کو سونپ دی۔
انتخابات ہوئے اور ایسے انتخابات ، جن کے نتائج کو سبھی نے قبول کیا مگر ذوالفقار علی بھٹو ان پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن گئے اور یحییٰ خان بھی ۔ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو بھٹو نے شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ مینارِ پاکستان پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ مشرقی پاکستان جانے والے ارکانِ اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ لاہور کے چیئرنگ کراس میں یہ ناچیز اس وقت موجود تھا، جب انہوں نے ارشاد کیا ''سندھ اور پنجاب اقتدار کا سرچشمہ ہیں اور ان کی چابیاں میری جیب میں ہیں‘‘ یہ چابیاں وہیں پڑی رہیں اور ملک دو لخت ہو گیا۔
سات برس کے بعد پھر وہی منظر تھا۔ حکمران گروہ اور نو جماعتی پاکستان قومی اتحاد ایک دوسرے کا خون پینے پر تلے تھے ۔ ٹھیک اس وقت ،جب مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے، جناب ذوالفقار علی بھٹو ، سولہ ملکوں ، جی ہاں سولہ ملکوں کے دورے پر چلے گئے ۔ سخت گیر لیڈر سیاسی معرکوں میں ہمیشہ خسارے کا سودا کیا کرتے ہیں ۔ 1977ء کے مارشل لا کے حوالے سے اس قدر جھوٹ بولا گیا ہے کہ تاریخ میں اس کی کم ہی مثال ہوگی۔ جذبات کے مارے ہوئے اخبار نویس اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے اپریل ، مئی اور جون کے تین مہینے انتظار میں کیوں گزار دیے؟ ہر روز لاشیں گرتی رہیں ۔ ہرر وز مخالفین گرفتار کیے جاتے رہے ؛حتیٰ کہ مرنے والوں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہو گئی اور اسیروں کی پچاس ہزار کے لگ بھگ۔ مارشل لا سے بچنا ممکن تھا، وزیراعظم اگر لچک کا مظاہرہ کرتے۔ اگر ائیر مارشل اصغر خان اور بیگم نسیم ولی کسی قدر تحمل اختیار کر سکتے۔ اعتماد کا فقدان ، اعتماد کا شدید فقدان ۔ سیاستدان ایسے میں کبھی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ نفرت اور انتقام میں مبتلا، وہی توافواج کو مداخلت پر اکساتے ہیں ۔
کیا ایک بار پھر وہی کھیل ؟ اس حقیقت سے بے نیاز کہ اگر ملک بھر کی پولیس جلسے جلوسوں میں الجھ گئی تو دہشت گردوںکو ایک بار پھر خود کو منظم کرنے کا موقعہ مل جائے گا، حکمران ٹولہ طاقت کے جوابی مظاہروں میں مگن ہے۔ عوامی تائید کا تاثر ہی اجاگرکرنا ہے تو زیادہ سے زیادہ دو بڑے شہروں میں عام جلسوں کا انعقاد کافی رہے گا۔مشکل میں گھبراہٹ ایک دوسری مشکل کو جنم دیتی ہے ۔
وزیراعظم نے اوّل اسلام آباد میں دفعہ 245نافذ کی۔ اب بار بار وہ آرمی چیف سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ عمران خان، طاہر القادری کی اوّل وہ ڈٹ کر توہین کرتے رہے ۔ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سمیت ،علّامہ کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی کا اعلان بھی۔ ایک کے سوا، کپتان کے سب مطالبے ماننے پر اب وہ آمادہ ہیں ۔تازہ اطلاع یہ ہے کہ طاہر القادری سے معافی مانگنے کے علاوہ ، دوارب روپے سے زیادہ ہرجانہ )دیت)ادا کرنے پر بھی ۔
فوج محتاط ہے ۔اس قسم کے حالات میں پہلی بار اس قدر محتاط اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ فوجی مداخلت کا ثمر ہے کہ ملک ذہنی طور پر لولے لنگڑے لیڈروں سے بھرا پڑا ہے ۔ کتنی ہی خرابی کیوں نہ ہو ، عسکری قیادت کو اصرار کرنا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں خود ہی مسئلہ حل کریں ۔ بدنامی کا طوق گلے میں ڈالنے اور فعال طبقات سے برسرِ پیکار ہونے سے ہر حال میں اسے گریز کرنا چاہیے۔ مذاکرات میں تعاون کے سوا اور کوئی کردار ہرگز اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔
خطرناک مراحل سے گزرے بغیر افراد اور قوموں کی بلوغت کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ صبر و تحمل کی اس وقت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، جب دبائو شدید اور اعصاب شکن ہو۔ قرآنِ کریم یہ کہتاہے ''فصبر جمیل‘‘ صبر ہی سب سے خوبصورت اور اعلیٰ ترین راستہ ہے۔