کیسی کیسی چمک تمام ہوئی ۔ کیسے کیسے روپ ،بہروپ ہوئے۔ کیسے کیسے لوگ رسوا ہو گئے ۔ آدمی کے عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محض اپنی عقل کے بل پر کامران ہو سکتاہے ۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ رسولِ اکرمؐ کے اس فرمان کی تسبیح کیا کرتے ''الصدق ینجی و الکذب یہلک‘‘ سچ نجات دیتا اور جھوٹ تباہ کر ڈالتاہے ۔ بدترین جھوٹ شاید وہ ہے ، جو آدمی اپنے آپ سے بولتاہے ، فریبِ نفس۔ فرمایا: خدا نے نفس کو پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ والہانہ اقبالؔ لاہور سے سرنگاپٹم پہنچے۔ اس سفر کا گداز ایک نظم میں ڈھلا ؎
روزِ ازل مجھ سے یہ جبریلؑ نے کہا
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی ۔ کوئی نہ کوئی جذبہ اس کے ساتھ جڑا ہوتاہے ۔ نمود و نمائش کی تمنّا ، دولت یا اختیارو اقتدار کی ہوس ۔ یہی خود فریبی ہے اور یہی تباہ کن ۔
لکھنے والے کو اپنا حوالہ دینے سے بالعموم گریز ہی کرنا چاہیے۔ اندازے درست ثابت ہوتے ہیں اور غلط بھی ؛با ایں ہمہ اس کشمکش کے آغازہی میں عرض کیا تھا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ حاصل نہ کیا جا سکے گا لیکن تحریک چلانے والے اپنے باقی سب مطالبات منوا سکتے ہیں۔ ''ناکامی ،دیوار پہ لکھی ہوئی ناکامی‘‘ ایک تحریر کا عنوان تھا۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ تھا کہ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل اور گزشتہ انتخابات کے احتساب کے علاوہ آئندہ کے لیے شفاف الیکشن کی ضمانت حاصل کی جا سکتی ہے ۔
لگ بھگ دس دن علالت میں بیت گئے ۔ بعض اوقات اخبارات نہ پڑھے جا سکے ۔ ٹی وی کی نشریات سرسری طور پر ہی دیکھ سکا۔ مدّو جزر آتے رہے ۔ کسی مرحلے پر مگر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ کی۔ پلٹ کر دیکھیے ، برسرپیکار گروہوں میں سے ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کھو دیا ہے ۔
عمران خان کی فوجِ ظفر موج ، جس دن شاہراہِ دستور پر اتری، وہ ان کے لیے بہترین دن تھا۔ چھ میں سے ساڑھے پانچ مطالبات منوائے جا سکتے تھے ، جب مولانا فضل الرحمن ارشاد فرما رہے تھے کہ اس تحریک کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ محمود اچکزئی کے اس ولولے کی طرح کہ حکومت اگر مظاہرین کا سدّباب نہیں کر سکتی تو انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے ۔ سبحان اللہ، بلوچستان میں کامیابیوں کے جو جھنڈے آپ نے گاڑے ہیں ، دور ہی سے دکھائی دیتے ہیں ۔ ریاست دشمن عناصر نے امن و امان کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ۔ جہاں آپ کی قوّت کارفرما ہے ، وہاں ڈھنگ کا ایک بیان تک آپ جاری نہیں فرما سکتے اور جہاں میڈیا محض مروّت میں آپ کی بات سنتاہے ، وہاں آپ سکندرِ اعظم ہیں ۔ خیالی تلوار اٹھائے خیالی مارشل لا سے نبردآزما ۔ اس پر اپنی حریّت کیشی کی داد بھی چاہتے ہیں ، حالانکہ عالی جناب آج مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اسی قدو قامت اور انہی تیوروں کے ساتھ۔ اپنی عمر بھر کی کمائی اچکزئی صاحب نے ضائع کر دی ہے ۔ کمال یہ ہے کہ اس کا ادراک اور احساس بھی نہیں ۔
نون لیگ کی ابتدا یہ تھی کہ لاہور شہر کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ماڈل ٹائون میں قتل عام کیا۔ آخر کو حال یہ تھا کہ فوج سے امداد کی درخواست کی ، پھر اس خوف کے ساتھ کہ رہی سہی قوّت بھی مذاق بن جائے گی ، یہ پیشکش واپس لے لی گئی ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اوّل پنجاب کے آئی جی ، پھر ایک کے بعد اسلام آباد کے دوسرے انسپکٹر جنرل پولیس ، حتیٰ کہ ایس ایس پی نے احکامات کی تعمیل سے انکار کر دیا۔ ریلوے کے بارہ سو سپاہیوں نے لا تعلقی اختیار کر لی ۔ سرکار منہ دیکھتی رہ گئی ۔ ایک ڈی ایس پی نے استعفیٰ دے دیا۔ نیک نامی اور ایسی نیک نامی کہ گلّو کے بعد پومی اور پھر بلّو بٹ۔ کسی ایک وزیر، کسی ایک مشیر کو اس پر غور فرمانے کی فرصت نہیں کہ جن مطالبات کا وہ مذاق اڑایا کرتے ، آج ان میں سے 90فیصد کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں ۔ مولانا طاہر القادری کی خدمت میں مودبانہ انہیں حاضر ہونا پڑا اور تکبر سے اکڑی گردنوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ وہ ننگے پائوں کپتان کے ہاں جانے کے لیے تیار ہیں ۔ شروع میں تقاضا صرف اتنا تھا کہ قومی اسمبلی کے صرف چار حلقے کھول دیے جائیں ۔ اب یہ بھی تسلیم ہے کہ سپریم کورٹ اگر قرا ر دے ڈالے تو الیکشن از سرِ نو کرائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت دعویٰ یہ تھا کہ ہمارا کوئی اختیار ہی نہیں ، الیکشن کمیشن کا ہے ۔ اب اس کی بساط لپیٹنے پر بھی آمادگی ہے ۔
عمران خان کی تحریک اس ولولے کے ساتھ اٹھی کہ وزیراعظم سے وہ استعفیٰ لے کر ٹلیں گے ۔ اب تک جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ ملک میں امن و امان برباد ہوا، معیشت بتاہ ہو گئی اور دنیا بھر میں پاکستان کا تمسخر اڑایا گیا۔ ایک قابلِ ذکر مبصر ایسا نہیں ، جس نے سول نافرمانی یا اسمبلیوں سے استعفے کی تائید کی ہو ۔ اس کے باوجود عمران خان نظر ثانی پر آمادہ نہ ہوئے۔ ہر شب اس موہوم امید کے ساتھ انہوں نے گزاری کہ فوج ان کی حمایت میں مداخلت کرے گی ۔ کیا وہ پاگل ہوئے تھے کہ ایسا کرتے ؟ ملک کی پوری تاریخ میں کبھی کسی اپوزیشن پارٹی کو اس قدر اور اتنے بنیادی مطالبات تسلیم کرانے کا موقعہ نہ ملا تھا ، اب فقط شرمندگی ہے ۔ اب حال یہ ہے کہ عمران خان طاہر القادری کے چھوٹے بھائی ہیں۔
پیپلز پارٹی بظاہر ایک اصولی موقف لے کر اٹھی لیکن آخر کار وہ نون لیگ کی تتمہ بن گئی ہے ۔ حسنِ وکالت میں قمر زمان کائرہ کا کوئی ثانی نہیں مگر خورشید شاہ کا دفاع وہ تو کیا، اے کے بروہی بھی نہیں کر سکتے، اگر وہ اپنی قبر سے اٹھ کر چلے آئیں ۔ اس تاویل پر وہ حکومت کی تائید کر تے رہے کہ دستور کو وہ منسوخ کرنے کی اجازت نہ دیںگے۔ دستور کی تنسیخ کا مطالبہ کس نے کیا تھا؟
کمال شان و شوکت کے ساتھ جاوید ہاشمی بروئے کار آئے۔ ان کا بنیادی موقف بالکل درست تھا ۔ اگر وہ ایک موزوں بیان جاری کر کے ، جیسا کہ پروگرام تھا، علاج کے لیے بیرونِ ملک چلے جاتے تو گھر گھر ان کا ذکر احترام سے ہوتا۔ اب مگر ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اپنی پارٹی کی پیٹھ میں انہوں نے خنجر گھونپ دیا۔ نون لیگ کی حمایت میں وہ بروئے کار آئے۔ ساری عمر اب وہ وضاحتیں پیش کرتے رہیں گے ۔ کہاں یہ کہ وہ ملک کے معتبر ترین سیاستدان بن کے ابھر سکتے ، کہاں یہ کہ سازش کا ایک مہرہ دکھائی دئیے ۔ کیا اس لیے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ انہوں نے مشورہ کیا، جن کے اپنے مفادات تھے اور ان کے حصول میں وہ بے تاب ۔ کیا اس لیے کہ ان پر انتقام کا بھوت سوار ہو گیا؟
افسوس کہ اتنے بڑے بحران سے بھی کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ شاہ محمود ایوان میں آئے تو ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ کیا ساری کی ساری حکمران جماعت اور ان کے حلیف پرویز رشید کی سطح پر اتر آئے ہیں ؟ بچے تو ایک سراج الحق ، اس لیے کہ آغاز ہی سے انہوں نے خود ہیرو بننے یا اپنی جماعت کے لیے مفادات کی مچھلیاں پکڑنے سے گریز کیا۔ صلح کی کوشش کی اور پوری دیانت کے ساتھ ۔
نجات کی راہ اب بھی کشادہ ہے مگر ذاتی ظفر مندی نہیں بلکہ سچائی کے ادراک میں۔کیسی کیسی چمک تمام ہوئی ۔ کیسے کیسے روپ، بہروپ ہوئے ۔کیسے کیسے لوگ رسوا ہو گئے ۔آدمی کے عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محض اپنی عقل کے بل پر کامران ہو سکتا ہے۔