ہمارے عہد کے عارف نے یہ کہا تھا "Pleasure of knowing" ۔ آدمی اس سے آشنا ہو تو تب زندگی خاک سے اوپر اٹھتی اور پرواز کرتی ہے ؎
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی؟
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی!
ہر بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن اگر معالج اہل اور مشفق ہوں‘ ڈھنگ سے علاج ہو جائے تو نہ صرف کوفت برائے نام رہ جاتی بلکہ نجات اور تشکر کا ایک گہرا احساس پھوٹ سکتا ہے۔ سی ایم ایچ راولپنڈی میں گزرے گیارہ دنوں کے درمیان مریض کچھ اور چیزوں کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔ ملک کے معالجاتی نظام کے بارے میں اور حیران ہوتا رہا کہ جب اسے درست کیا جا سکتا ہے تو کیوں نہیں کیا جاتا۔ کن چیزوں میں ہم پڑے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز اور چوہدری نثار علی خان کے فضیحتے میں؟ کون سا کمیشن؟ جس ملک میں رحمن ملک کا احتساب نہ ہو سکتا ہو اور ایک بڑے بحران میں سیاسی پارٹیوں سے رابطے کی ذمہ داری اسے سونپی جائے، وہاں یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ کہ کب کب انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے؟ اپنے لوگوں کا تو ذکر ہی کیا، نون لیگ کبھی پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کا احتساب کرے گی اور نہ پیپلز پارٹی سندھ میں نون لیگ کے کسی کارندے کا۔ یہ شعبدہ بازی، ریا کاری اور نعرہ بازی کی سیاست ہے اور اسی طرح جاری رہے گی۔
ہر تیسرے چوتھے برس سیلاب آتا ہے۔ یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ نقصانات کو محدود کرنے کے لیے ایک قومی منصوبہ کیوں نہیں بنتا؟ سیاسی پارٹی تو کیا، میڈیا اور کوئی تھنک ٹینک بھی نہیں۔ شہباز شریف دو چار سو افسر معطل کریں گے۔ گیلپ اور پلڈاٹ کے آئندہ سروے میں ان کی مقبولیت 53 سے بڑھ کر 93 فیصد ہو جائے گی۔ اللہ اللہ خیر سلّا ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
این اے 148 کے بارے میں اطلاع یہ ہے کہ مقرر ہ ووٹوں سے زیادہ بھگتائے گئے۔ 30 ہزار جعلی ہیں، 21 ہزار غائب۔ یہ ہے وہ ''جموریت‘‘ جس کے جمال پر دن رات دو غزلے اور سہ غزلے ارشاد ہو تے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے پنجاب میں کسی ایک ہسپتال، ایک تعلیمی ادارے کو بہتر بنانے کی کبھی کوئی سی کوشش ہوئی ہو؟ نام نہاد اپوزیشن اس پر واویلا کیوں نہیں کرتی؟ ہر روز ہزاروں لوگ سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہوتے اور بے یار و مددگار پڑے رہتے ہیں۔ اس پر کسی کا دل دکھتا کیوں نہیں؟ اس کے باوجود نواز شریف قائد اعظم ثانی ہیں۔ اس کے باوجود شہباز شریف شیر شاہ سوری ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
پیر 25 اگست کی شب سی ایم ایچ راولپنڈی پہنچا۔ ڈاکٹر نے درد کش انجیکشن لگایا۔ کمرہ کوئی خالی نہ تھا؛ چنانچہ جنرل وارڈ میں بھیج دیا۔ کچھ دیر میں درد زیادہ شدّت سے اٹھا اور توجہ دلائی تو زیادہ قوت کا ٹیکہ لگا دیا۔ اس کے بعد بیماری اور دوائوں کے اثرات تو بھگتے لیکن اذیت اور شکایت پھر کبھی نہیں ہوئی۔ جب بھی ڈاکٹروں، نرسوں اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا، اس کے سوا کبھی کوئی جواب نہ ملا: یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ نرسنگ کی سپرنٹنڈنٹ نے، جو دن میں دو بار ضرور آتی، ایک بار رنج سے صرف اتنا کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں، فوج بجٹ کھا جاتی ہے، یہاں ایک ایک کو پندرہ پندرہ آدمیوں کا کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ تبصرہ سو فیصد درست تھا۔ تازہ ہوا کھانے میں باہر جاتا تو دس میں سے نو بار سر جھکائے اسے مریضوں کی فائلیں پڑھتے اور کاغذات مرتب کرتے پاتا۔ ڈیوٹی؟ بارہ گھنٹے!
ہسپتال کا ایک کمانڈنٹ ایک ایک وارڈ کا دورہ کرتا اور اکثر تین چار مزید معالج۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ نہ کسی چھوٹے بڑے مریض کے ساتھ بے اعتنائی اور نہ وہ لعنت، جسے پروٹوکول کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ فوج ایک ادارہ ہے۔ خرابیاں اس میں بھی پائی جاتی ہیں مگر احتساب بھی ہوتا ہے۔ آپریشن سے پہلے بہت سے ٹیسٹ ہوئے، کچھ ایک بار سے زیادہ۔ کئی بار انہوں نے انٹرویو کیے لیکن جب وہ مرحلہ آیا تو سارے سوالات پھر سے پوچھے۔ بلڈ پریشر؟ شوگر؟ دانت درد؟ سانس میں خرابی؟ جواب دیا جا چکا تو سرجن کرنل مکرّم نے مسکراتے ہوئے کہا ''اب ہم آپ کو سلا دیں گے‘‘ اچھا سرجن ایک موسیقار اور مصوّر کی طرح ہوتا ہے، بجائے خود ایک فنکار۔ ''نیند‘‘ سے جاگا تو پیچیدہ آپریشن مکمل تھا اور حسن و خوبی کے ساتھ۔ صرف ایک مشکل تھی کہ تکیے بنا پانچ گھنٹے چت لیٹنا تھا۔ میرے لیے اور بھی دشوار کہ 40 سال سے تین تکیوں کا عادی ہوں۔ حیات کا حسن یہ ہے کہ بالآخر ہر مشکل تمام ہو جاتی ہے اور اپنے ساتھ راحت کا ایک جمیل احساس لے کر آتی ہے۔ چوہدری نثار نے کہا: عزتِ نفس کو بھول کر، ملک کی خاطر میں درگزر کرتا ہوں۔ جی نہیں، صبر اس کا نام نہیں۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: بلکہ وہ، جو پہلی چوٹ لگنے پر کیا جائے۔ رہی عزت تو وہ صابرو ںکو ملتی ہے، اعتزاز احسن ایسے چیخ پکار کرنے والوں کو نہیں، جس نے پہلا الیکشن ہی جعل سازی سے جیتا تھا۔
سرکارؐ نے فرمایا تھا: علالت صدقہ ہے۔ بیماری آدمی کو کیا دیتی ہے؟ صبر کی صلاحیت۔ آدمی ناشکرا اور شاکی نہ ہو تو یہ صلاحیت بڑھتی چلی جاتی ہے؛ حتیٰ کہ مستقل بھی ہو سکتی ہے۔ استعداد میں غیر معمولی اضافہ کر سکتی ہے۔ صبر کو پالنا اور سینچنا پڑتا ہے۔ اس کی نگہداشت کرنا ہوتی ہے؛ حتیٰ کہ وہ ثمربار ہونے لگے۔
سب کا سب وقت اذیت ناک نہ تھا۔ افغانستان اور پاکستان پر دو تاریخی تحریروں کے علاوہ مشتاق احمد یوسفی کی دو کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں۔ راتوں کے پُرسکون سناٹے میں ان کے ایک ایک جملے اور حسنِ تحریر کے ایک ایک پہلو سے حظ اٹھانے اور سیکھنے کی کوشش کی۔ ریاضت اور دردمندی ہم آہنگ ہو جائیں تو کیسے معجزے رونما ہو تے ہیں۔ اس مطالعے کے دوران رشید احمد صدیقی اور محمد حسین آزاد کو پھر سے پڑھنے کوجی بے تاب ہوتا رہا۔ ملک معراج خالد یاد آئے۔ وزیر اعظم تھے تو کچھ اخبار نویسوں سے نالاں۔ ایک دن پوچھا: وہ کس طرح لکھتے ہیں۔ عرض کیا، جس طرح کھڑے ہو کر پیشاب کیا جاتا ہے۔ مجبوری نہیں، زندگی مواقع کا نام ہے، اسے برتنا اور سیکھنا چاہیے۔ طالب علمانہ ذوق حیات کی سب سے بڑی متاع ہے۔ خود ترحمی اور تقلید اس کے عیب۔ سی ایم ایچ راولپنڈی سے میں امید کی متاع لے کر لوٹا۔ اگر ان حالات میں ایک ادارہ ایسا شاندار ہو سکتا ہے تو دوسرے کیوں نہیں؟
فوج کیا ملک کے تعلیمی اور معالجاتی نظام کی اصلاح میں مددگار ہو سکتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایک عشرے میں انقلاب عظیم برپا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ تبھی، جب سیاسی آلودگیوں سے بچنا ممکن ہو۔ پچھلے ہفتے تو یہ ہوا کہ ایک لیڈر اور ایک اخبار نویس نے استحکام کے اس امکان ہی کو سبوتاژ کر دیا، سیاسی سمجھوتے کو عسکری ضمانت دے کر جو استحکام کا دروازہ کھول سکتا تھا۔ کہانی دلچسپ ہے اور عبرت انگیز لیکن اپنے وقت پر۔ فی الحال صرف یہ کہ جو افراد اور معاشرے خود ترحمی اور ناشکری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ سیکھ نہیں سکتے، دلدل سے باہر نہیں نکل سکتے۔
ہمارے عہد کے عارف نے یہ کہا تھا "Pleasure of knowing" ۔ آدمی اس سے آشنا ہو تو تب زندگی خاک سے اوپر اٹھتی اور پرواز کرتی ہے ؎
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی؟
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی!