پارلیمان میں عمران خان کے خلاف خواجہ سعد رفیق کی دھواں دار تقریر سنی تو وہ دن یاد آئے‘ جب وہ اپنے لیڈر نوازشریف سے بھی اتنے ہی نالاں تھے۔ اگرچہ اظہار وہ برملا نہ کرتے تھے۔ پنجاب میں نون لیگ کے وہ سیکرٹری جنرل تھے اور اچانک ہٹا دیے گئے۔ اس پر وہ حیران اور برہم تھے۔ چٹھیاں بھیجتے تھے اور دانت پیستے تھے۔ آخر کار انہوں نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا‘ ارادہ نہیں فیصلہ۔ کپتان سے وہ ملاقات کے آرزو مند تھے۔ فیڈرل لاجز میں ان کا ٹھکانہ پہلی منزل اور عمران خان کا تہہ خانے میں تھا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ نیچے نہ اتریں۔ کپتان کو ان کے گھر لے جایا گیا اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ اس کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ عمران نے فیصلہ کیا کہ رابطہ کرنے کی بجائے‘ جواں سال لیڈر کو خود ہی کسی نتیجے پر پہنچنے دیا جائے۔ نجیب اور عالی ظرف مشترکہ مہربانوں کے حلقے میں بحث ہوئی تو بالآخر یہ قرار پایا کہ خواجہ کو انتظار کرنا چاہیے۔ دلیل یہ تھی کہ مشورہ ایک امانت ہے اور جو اس کا طالب ہو‘ اس کی خیر خواہی ملحوظ رکھنی چاہیے۔ محسوس ہوا کہ خواجہ صاحب خود بھی انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں کہ آخری بار شریف خاندان کے ساتھ بات کرلی جائے۔ تفصیلات سے گریز ہے کہ ؎
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
خواجہ کے اچھے پہلو بھی کئی ہیں‘ مثلاً وہ ایک دلیر آدمی ہے‘ مثلاً اس نے ڈوبتی ہوئی ریلوے کو بچانے کی ایک بھرپور کوشش ضرور کی مگر وہ اسی پابہ زنجیر اور مصلحت کوش سیاست کا فرزند ہے۔ ان پارٹیوں میں سے ایک پارٹی کا لیڈر‘ آخری تجزیے میں جہاں بقا کا انحصار لیڈر کی خوشنودی پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ ضروری تحقیق کے بعد اس جواں سال کی کہانی لکھوں کہ اس میں عبرت کے ہزار مقامات ہیں۔ مگر یہ سوچ کے رُک جاتا ہوں کہ عمر بھر زعماء کرام کے باب میں بے رحمی کا رویہ روا رکھا ہے تھوڑی سی نرمی اب اختیار کرنی چاہیے۔ پھر یہ کہ بعض خرابیوں کے باوجود‘ بہتوں سے وہ بہتر ہے۔ کبھی کبھی اپنے مرحوم والد کی نجابت اور وضع داری اس میں جھلک اٹھتی ہے۔
تو‘خیر‘ شریف خاندان کو احساس ہوا کہ ایک متحرک اور جارح سپاہی کو اگر انہوں نے کھو دیا تو اس کی قیمت شاید بہت زیادہ ہو؛ چنانچہ انہوں نے اس سے مصالحت کر لی اور اس نے ان سے۔ بعدازاں آنجناب کے اس دعوے پر البتہ حیرت ہوئی کہ عمران خان کی دعوت کو اس نے کبھی درخور اعتنا ہی نہ سمجھا۔
ابھی ابھی رئوف کلاسرا کا پیغام مجھے ملا ہے: اگر تمہارا پِتّہ نکل گیا تو کیا ہوا‘ اپنے قلم سے تم نے کتنوں کے پتّے نکال دیئے۔ کلوروفارم سنگھائے اور ٹانکے لگائے بغیر۔ اس نے ٹھیک کہا: ایسا ہی بے رحم میں رہا ہوں۔ ڈاکٹر کلاسرا کو بھی البتہ میں نے کبھی نشتر سے نہیں‘ ہمیشہ چاقو سے آپریشن کرتے دیکھا اور وہ بھی مریض کو فرش پر لٹا کر۔ سوائے برادرم بابر اعوان کے‘ جن پر اس کی ممتا جاگ اٹھتی ہے‘ وگرنہ ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
نظریات کے اختلاف سے قطع نظر‘ ہمارا اتفاق رائے کبھی ایک قول پر ہوا تھا ''گھوڑا اگر گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟‘‘ اس نے تو جزوی خلاف ورزی ہی کی‘ عمران خان کے باب میں یہ ناچیز ایک عظیم الشان حماقت کا مرتکب ہوا۔ اخبار نویس کا کام تجزیہ کرنا ہے‘ سیاست نہیں۔ خیر‘ میں نے اس کی قیمت چکائی اور بہت کچھ سیکھا۔ آئندہ سے مگر ارادہ کر لیا کہ خواہ ذاتی دوستی ہو‘ کسی لیڈر‘ کسی پارٹی کے قافلے میں کبھی شامل نہ ہونا چاہیے۔ کسی قیمت پر۔ ایک آخری زنجیر پائوں سے کاٹ کر پھینک دی ہے‘ جس کا احوال‘ پھر کبھی۔ آخر کار یہ اندازہ ہو گیا کہ اس لنکا میں سبھی باون گزے ہیں۔ اخبار نویس کے لیے کاروبار سیاست کوئلوں کی دلالی ہے‘ لیڈروں میں اگر کوئی فریب کار نہ بھی ہو تو دھڑے بند یا مصلحت کیش لازماً ہوتا ہے۔ محمد علی جناح اور ابرہام لنکن ایسے استثنیٰ تاریخ شاذ و نادر جنتی ہے‘ النادر کالمعدوم ؎
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
خواجہ کا ذکر رہا جاتا ہے۔ کبھی مجھے اس پر پیار بھی بہت آتا ہے اور کبھی حیرت بھی بہت۔ کیسی غیر معمولی صلاحیت وہ رکھتا ہے اور گاہے کیسی حماقت کا وہ ارتکاب کرتا ہے۔ ہم سب ایسے ہی ہیں‘ ہیجان کے مارے ایک جذباتی معاشرے کے ادھورے لوگ ؎
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
غور و فکر کی فرصت کسی کو نہیں۔ خود احتسابی کا دماغ کسی کو نہیں۔ ابھی چند دن پہلے خواجہ صاحب یہ فرما رہے تھے کہ وہ ننگے پائوں عمران خان کی خدمت میں حاضر ہونے پر آمادہ ہیں اور اب ان پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ فرما رہے ہیں۔ خود عمران خان کا حال بھی یہی ہے۔ اپنے ایک خیرخواہ کے بارے میں‘ جواب بھی ان کے باب میں نرمی روا رکھتا ہے‘ ایک اخبار نویس کو فون کر کے‘ انہوں نے کہا: اس نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ خان صاحب کی ذہنی حالت بھی یہ ہے کہ خود کو خدا کا‘ فرستادہ سمجھنے لگے۔ کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ بھول گئے کہ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ دوسروں کا کیا ذکر اپنی پارٹی اور اپنے نائبین کی نہیں سنتے‘ جن میں سے 80 فیصد ایجی ٹیشن جاری رکھنے کے خلاف ہیں۔ ان کے ارکان اسمبلی اور وزیراعلیٰ سمیت۔ ایک دن تنہا رہ جائیں گے اور سینہ کوبی کریں گے ؎
اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو‘ یوسفِ بے کارواں ہو کر
کیا اعتزاز احسن نے ٹھیک کہا تھا کہ شریف حکومت جوں ہی مستحکم ہوگی‘ رویہ اس کا بدل جائے گا۔ میرا خیال بھی یہی ہے‘ بلکہ یہ کہ دو ماہ کے اندر جب بحران شاید تمام ہو چکا ہو‘ قوم ایک نئے نوازشریف کو دیکھے گی۔ (جاری)