واعظوں سے دنیا بھری ہے۔ ہمیشہ بھری رہی اور لسان الغیب حافظِ شیراز نے ان کے بارے میں یہ کہا تھا۔
واعظاں چوں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بہ خلوت می روند، آں کار دیگر می کنند
منبر پر واعظ اور ہوتا ہے اور خلوت میں بالکل مختلف!
الطاف حسین خوب آدمی ہیں۔ بعض باتیں ایسی پتے کی کہتے ہیں کہ بدترین مخالف بھی اتفاق پر مجبور ہو۔ پھر ایک ایسا شوشا چھوڑ دیتے ہیں کہ کوئی آئن سٹائن بھی گتھی سلجھا نہ سکے۔ بیدلؔ کی طرح کوئی ایسا مصرعہ کہ وہی اس کی تشریح پہ قادر ہوتے ہیں۔ اب کی بار مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ اگر اسٹیبلشمنٹ مدد کرے تو ایم کیو ایم اقتدار میں آ سکتی ہے۔ کرنا ہو تو اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کی مدد ہی کیوں کرے‘ اس میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہے۔ اس سے بھی پہلے یہ کہ کسی کی مدد کیوں کرے۔ جمہوریت کی تاریخ میں جتنی بھی ظفرمند حکومتیں ہو گزری ہیں‘ ان میں دو اصول ہمیشہ کارفرما رہے۔ اول عوام کی خوش دلانہ حمایت‘ ثانیاً اس کی اخلاقی اساس۔ حمایت جس قدر زیادہ اور ساکھ جتنی مضبوط ہو گی‘ اتنی ہی سیڑھیاں کوئی جماعت چڑھتی جائے گی۔ دونوں کی کثرت اقتدار دلا سکتی ہے مگر عوام کی تائید برقرار رکھنے کے لیے حسن کارکردگی چاہیے۔ تیس برس گزر جانے کے باوجود بھی شہری سندھ کے سوا آبادی کا کوئی طبقہ اگر ایم کیو ایم کا ہمنوا نہ ہو سکا تو قصور کس کا ہے‘ قوم کا یا پارٹی کی پالیسیوں اور ترجیحات کا؟ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا کہ قدر و قیمت اس کے ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ: لوگوں کے اندر ان کے رجحانات کی طرف سے داخل ہونے کی کوشش کرو۔ مچھلی کو کوئی تیرنا نہیں سکھاتا۔ کوئی نہیں ہے جو الطاف حسین کو سیاست سکھا سکے۔ ان کی خیرہ کن کامیابی ان کے اپنے اندازِ فکر و عمل کے طفیل ہے۔ ان کی ناکامیوں کا راز بھی انہی کے طرزِ سیاست میں پوشیدہ ہے ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
اصولی طور پر ان کا یہ مطالبہ سو فیصد درست ہے کہ ملک کو نئے انتظامی یونٹوں کی ضرورت ہے۔ ساری دنیا میں‘ خود ہمارے پڑوسیوں بھارت‘ ایران اور افغانستان میں آئے دن نئے صوبے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اپنی سماجی اور سیاسی تشکیل میں‘ ہم کیا دنیا کی تمام دوسری اقوام سے یکسر مختلف ہیں کہ یہاں الٹا طریق اختیار کیا جائے۔ اگر چھوٹے صوبے سارے عالم کو سازگار ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی اور انتظامی ماہرین اگر اس قرینے کے حامی ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ البتہ یہ کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ سیاست کی رزم گاہ کا یہ اہم ترین اصول ہے۔ خود اپنے آپ سے انہیں سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ نئے صوبے تشکیل دینے کا وقت ہے یا اس سے پہلے سیاسی استحکام حاصل کر کے فضا کو سازگار بنانے کا۔ ایسی فضا جس میں قومی اتفاق رائے ممکن ہو۔ نئے صوبوں کے قیام میں اصل رکاوٹ یہی ہے اور جب تک دور نہیں ہو جاتی‘ خواہ آسمان سے کوئی فرشتہ اُتر کر آئے‘ قوم نہیں مانے گی۔ یہ بات خود وہ بھی سمجھتے ہیں مگر تجاہلِ عارفانہ۔
بلدیاتی الیکشن کے باب میں ان سے اختلاف رائے البتہ ممکن نہیں‘ الّا یہ کہ کوئی جہالت پر تُلا رہے۔ ملک کا آئین ہے‘ جو شہری حکومتوں کے قیام کا تقاضا کرتا ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ شہری حکومتوں کے بغیر‘ دیہات‘ قصبات اور شہروں میں متوازن ترقی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ بلدیاتی ادارے اگر نہ ہوں گے اور بجٹ انصاف کے ساتھ تقسیم نہ کیا جائے گا تو بے چینی پیدا ہو گی۔ اضطراب شکایت میں ڈھلے گا۔ شکایت رنج میں۔ رنج برہمی اور پھر بغض و عناد کی شکل اختیار کرے گا۔ آخر کو شدید عدم اعتماد اور جتھے بندی‘ آج دارالحکومت میں‘ جس کے مظاہر ہم دیکھتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ سیاستدان وعظ تو بہت کرتے ہیں لیکن اختیار ملتا ہے تو محمود اچکزئی بن جاتے ہیں۔ کل شام سرکاری ٹیلی ویژن پر وہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم آئین میں ایک شق شامل کرنے کا مطالبہ کریں گے کہ آئندہ اگر جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے تو فیڈریشن کو ختم کر دیا جائے۔ خدا نہ کرے کہ جمہوریت کا خاتمہ ہو۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ فرض کیجیے مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری سمیت‘ سب کے سب لیڈر فرشتے بن جائیں اور فقط جنرل ہی ممکنہ طور پر ذمہ دار ہوں تو فیڈریشن کا قصور کیا‘ عوام کا جرم کیا؟ محمود اچکزئی کو مگر اس سے کیا غرض۔ انہیں میاں محمد نواز شریف سے غرض ہے۔ انہی کی عنایت سے پشتون مدبر کے بھائی صوبے کے گورنر ہیں۔ انہی کی مہربانی سے قوم پرست پارٹیاں بلوچستان میں حکمران ہیں۔ اکثریت انہیں حاصل نہ تھی۔ وزیر اعظم نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ میڈیا‘ عسکری قیادت اور رائے عامہ نے بھی۔ اچکزئی صاحب کے نزدیک صلہ اس کا یہ ہے کہ ان سب کو خوف زدہ رکھا جائے۔ اب لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے‘ جو وسعتِ ظرف کو کمزوری پر محمول کریں۔ پی ٹی وی کا میزبان‘ اس قدر محتاط تھا اور اس شتابی سے ان کی تائید فرما رہا تھا‘ گویا اس کے سامنے ایک کہنہ مشق سیاستدان نہیں بلکہ ایک ناراض بچہ ہو‘ جس سے اندیشہ ہو کہ بگڑا تو چھت سے چھلانگ لگا دے گا۔
کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کو انصاف نہ دیا گیا‘ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں اور کس کو انصاف ملا۔ الحمدللہ بلوچستان میں اب تو تلافی کی تدبیر بھی ہے۔ ملک بھر میں نسبتاً سب سے بہتر انتظامیہ کوئٹہ میں قائم ہے‘ جہاں سب فعال اداروں میں تقریباً مثالی تعاون کی فضا ہے۔ بجٹ بڑھا دیا گیا کہ ان کا حق تھا۔ جرائم کم ہونے لگے۔ اغوا برائے تاوان تقریباً مسدود ہو چکا۔ فوج نے تعاون کیا اور ایسا تعاون کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اچکزئی ایسے لیڈروں کو وعظ فرمانے کی بجائے‘ اب دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا نہ کرنا چاہیے؟ پانی یہیں مرتا ہے۔ نعرہ فروش سیاستدان عمل کے میدان میں کھوٹے سکّے ہوا کرتے ہیں۔ بس باتوں کے دھنی۔
معاشرے کے دوسرے عناصر کی طرح سیاستدانوں کا مسئلہ بھی ان کی عجلت پسندی ہے۔ پوٹھوہاری ضرب المثل یہ ہے: ''اتوائی ترے دفعہ موترنی ایں‘‘... جلد باز آدمی تین بار غسل خانے تشریف لے جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فتح یابی کا آغاز ہو چکا۔ کراچی کی صورتِ حال ہرگز اطمینان بخش نہیں مگر جرائم کی شرح کم از کم چالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ اب اگر پیش رفت نہیں تو فوج یا رینجرز اس کے ذمہ دار نہیں‘ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ان میں سے چار عدد کو سپریم کورٹ بھتہ خوری کا مرتکب قرار دے چکی۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی فوج کے خلاف واویلا ضرور کریں لیکن کبھی ان پارٹیوں کے طرز عمل کی بات بھی تو کریں۔ تھوڑی سی اخلاقی جرأت سے ان کے سیاسی مفادات کو انشاء اللہ کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ کچھ فائدہ ہی پہنچے گا۔ تھوڑی سی ساکھ بنے گی۔
پنجابی محاورہ یہ ہے: بھاگتے گھوڑے کو درّہ مارنے کی کیا ضرورت؟ خوفناک حالیہ بحران میں عسکری قیادت نے ثابت کیا ہے کہ ماضی کی حماقتوں سے اس نے سبق سیکھا۔ جنرل راحیل شریف چوکنا اگر نہ ہوتے‘ اگر بُغض کا شکار ہو جاتے تو اچکزئی اور فضل الرحمن سمیت سارے سیاست دان ہوا میں معلق ہوتے۔ صحت مند اندازِ فکر پہ اگر وہ ڈٹ کر کھڑے رہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے یا مذمت؟
اس ملک کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کرنے میں عسکری قیادت کی غلطیوں کا عمل دخل کم نہیں۔ سیاستدانوں نے مگر کیا کیا؟ کیا انہوں نے لوٹ نہ مچائے رکھی؟ کیا ہر بار معیشت کو انہوں نے برباد نہ کیا؟ دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر مغرب میں جن بے شمار جائیدادوں کے مالک ہیں‘ ان کا آئینی اور اخلاقی جواز کیا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی اور ملک بھی ہے‘ جس کے رہنما‘ اس دھڑلے سے بیرون ملک کاروبار کرتے ہوں۔ چوری اور سینہ زوری۔ ہم سب خطا کار ہیں۔ میڈیا سمیت ہم سب نے غلطیاں کیں۔ سبھی کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تلاش کرنے سے پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دیکھنا چاہیے۔
واعظوں سے دنیا بھری ہے۔ ہمیشہ بھری رہی اور لسان الغیب حافظِ شیراز نے ان کے بارے میں یہ کہا تھا ؎
واعظاں چوں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بہ خلوت می روند، آں کار دیگر می کنند
منبر پر واعظ اور ہوتا ہے اور خلوت میں بالکل مختلف!