رہی توہم پرستی‘ تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جنرل پرویز مشرف نے جب یہ کہا کہ تم مایوسی پھیلاتے ہو‘ تو میں حیران رہ گیا۔ ہمیشہ میں سنتا رہا کہ تم ایک ناقابلِ علاج امید پرست ہو۔ اب یہ صاحب کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ ان سے درخواست کی تھی کہ نوازشریف کے تعمیر کردہ ڈائیلے سیس سنٹر بند نہ کیے جائیں کہ غریب لوگ ہی گردے کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام طور پر وہ بگڑتے نہیں تھے اور اخبار نویسوں کی ناروا تنقید بھی گوارا کرتے۔ اس دن مگر وہ برہم ہوئے اور برہم بھی ایسے کہ سرکاری تقریبات میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ خیر‘ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ نہ تھا۔ سب کی سب حکومتیں ناراض رہیں‘ شوق سے ناراض رہیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے خیال کو کسی کے خیال سے بدل سکتا ہے‘ ایک دن وہ اپنے خدا کو کسی کے خدا سے بدل لے گا۔ حیات کا حسن صداقت کے ساتھ ہے۔ دانستہ غلط بیانی ایسا مرض ہے کہ دل ہی سیاہ کر دیتا ہے‘ روح کی تازگی ہی نوچ لیتا ہے۔ ایسی زندگی سے موت اچھی۔
اس دن کوئی اگر یہ بتاتا کہ ایک دن یہی طعنہ تحریک انصاف والوں سے بھی سننا پڑے گا تو شاید میں جنرل پرویز مشرف ہی کی طرح مشتعل ہوتا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ آج مگر وہ روزِ سعید طلوع ہوا ہے۔ ان کے نصیحت بھرے پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ تمہاری وجہ سے امید مرتی جاتی ہے۔ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ‘ کیا کہنے‘ کیا کہنے۔ ان سب کا شکر گزار ہوں کہ کم از کم گالی دینے سے گریز کیا۔ میرے ساتھیوں میں وگرنہ ایسے بھی ہیں‘ جو دشنام کا ہدف ہیں۔ ایسے لوگ بھی کہ عشروں سے جنہیں ہم جانتے ہیں اور جن کی دیانت پر اعتماد ہے۔ اس کے سوا کوئی قصور ان کا نہیں کہ اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ فرض کیجیے‘ رائے ان کی غلط ہے‘ تو بھی یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ بکائو ہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں جسٹس افتخار چیمہ کے خلاف ایک اخبار نے لوٹ مار کا الزام عائد کیا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو چیف جسٹس نے کہا تھا: میں اپنی قسم نہیں کھاتا‘ مگر جسٹس افتخار چیمہ کی دیانت کی قسم کھا سکتا ہوں۔ وہی‘ سیدالطائفہ جناب جنیدِ بغدادؒ کا ارشاد: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
ابوالاعلیٰ کی صحت بجھ گئی تھی‘ 78 برس کی عمر اور پے در پے صدمات۔ دِقت سے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ کسی نے ایک اسلام فروش مولوی کا حوالہ دیا: چپ چاپ آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے کہا: میں صبر کرتا ہوں‘ لیکن جو میرے اعصاب پہ گزرتی ہے‘ وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔ تحریک انصاف کے باب میں‘ اللہ کے فضل سے‘ جتنا صبر میں نے کیا ہے‘ جی اس پر شاد ہے۔ گاہے لیکن ملال بھی ہوتا ہے کہ واسطہ کن لوگوں سے آن پڑا ہے۔
ان واقعات میں سے‘ جنہیں میں لکھنے سے گریز کرتا رہا‘ ایک یہ ہے: علامہ طاہرالقادری کے علاوہ‘ جس ذات گرامی نے کپتان کو مہم جوئی پر آمادہ کیا‘ وہ ایک ''روحانی پیشوا‘‘ ہیں۔ کبھی تفصیل سے عرض کروں گا کہ بعض اخبار نویسوں کو کیا مرض لاحق تھا کہ ان صاحب کی تشہیر کی۔ حتیٰ کہ اللہ کے بہت سے دوسرے بندوں کے ساتھ عمران خان بھی اس کے جال میں پھنس گئے اور اندازہ ہے کہ اب پچھتا رہے ہوں گے۔ صرف انہی سے نہیں‘ کچھ اور شعبدہ بازوں سے بھی موصوف کا رابطہ ہے۔ وہی کیا‘ سیاسی لیڈروں کے کتنے ہی واقعات معلوم ہیں کہ اقتدار کی آرزو میں‘ واہی تباہی سنتے ہیں۔ پیش گوئی ایک
فن ہے۔ ہفتے بھر میں سیکھا جا سکتا ہے۔ دس میں سے سات اندازے درست ہو سکتے ہیں اور روحانیت کا کاروبار چمک سکتا ہے۔
اسلام آباد سے کراچی جاتے ہوئے‘ ممتاز شاہ کی خدمت میں یہ نکتہ عرض کیا تو انہیں یقین نہ آیا۔ عرض کیا کہ بوسیدہ ایئرلائن میں‘ مسافروں کی قطاروں کے درمیان تیزی سے بھاگتی ہوئی اس خاتون میزبان کے بارے میں تین باتیں میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ اول یہ کہ وہ بی اے پاس ہے‘ ثانیاً تعلیم میں وہ نمایاں رہی‘ ثالثاً آج کل اس کی منگنی کی بات چل رہی ہے۔ ممتاز شاہ ہمیشہ کے متجسس۔ مہمانوں کی مدارات سے وہ فارغ ہو چکی تو اسے بلایا اور ساری بات کہہ سنائی۔ حیرت زدہ اس نے کہا‘ کس نے آپ کو بتایا: میری طرف عالی جناب نے اشارہ کیا: پیر صاحب نے۔ اس سے پہلے کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو‘ میں نے ایک کاغذ جیب سے ڈھونڈ نکالا۔ اس پر ایک ٹیلی فون نمبر لکھا اور گزارش کی۔ ایک درویش ہیں‘ آپ چاہیں تو ان سے بات کر لیجیے‘ میں بیچارہ کچھ نہیں جانتا۔
پھر شاہ جی کو بتایا: اللہ کے بندے‘ ایئر ہوسٹس اگر بی اے نہ ہوگی تو کیا پرائمری ہوگی یا پی ایچ ڈی؟ رہی تعلیم تو اس کے بشرے پر ذہانت اور تیوروں میں تیزی۔ اچھے طالب علم ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ منگنی ایک اندازہ تھا جو درست ثابت ہوا۔ اس عمر کی برسر روزگار خواتین کے باب میں اکثر درست ہوگا۔ نکتہ اس میں یہ ہے کہ فضائی میزبان کی ملازمت غیر شادی شدہ خواتین ہی کو دی جاتی ہے۔
کپتان بلندی سے گرا تو پیر صاحب نے اسے یہ بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہو جائے گا۔ یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ دودھ میں ہلدی ڈال کر پیا کرے۔ کوئی بھی شخص یہ پیش گوئی کر سکتا تھا۔ کوئی بھی شخص یہ مشورہ دے سکتا تھا۔ وہ مگر جال میں پھنس گیا‘ اس لیے کہ کمزور ساعت میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
پوری کہانی میں نہیں لکھنا چاہتا اور نہ اس کی طرف اشارہ کروں گا‘ اس کے شہر کی طرف بھی نہیں۔ دعویٰ اس نے یہ کیا کہ رسولِ اکرمؐ‘ میاں محمد نوازشریف سے ناراض ہیں۔ وہی علامہ طاہرالقادری والی تکنیک۔ اس پر بس نہیں‘ یہ بھی ارشاد کیا کہ قطب الاقطاب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ہر روز اس کی ملاقات ہوتی ہے۔
عمران خان تصوف کی دنیا سے اگر آشنا ہوتے‘ اگر ان معاملات پر سنجیدگی سے انہوں نے غور کیا ہوتا تو فوراً ہی احساس ہو جاتا کہ یہ صریح کذب بیانی ہے۔ روحانی دنیا میں کبھی ایسا نہ ہوا اور کبھی ایسا نہ ہوگا۔ کشف ایک کیفیت ہے مگر اختیاری ہرگز نہیں۔ رہا دعویٰ تو وہ جہالت اور جھوٹ ہی نہیں‘ تکبر بھی ہے... اور درویش کو تکبر سے کیا تعلق؟
اس آدمی کی حقیقت بس اتنی ہے کہ طویل عرصے تک وہ ذہنی دبائو (Depression) کا شکار رہا۔ ایسے ذہن حساس بہت ہو جاتے ہیں۔ ان کا وجدان گاہے شدت سے بروئے کار آنے لگتا ہے۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں ہوتا کہ اس شخص کو روحانی قوت حاصل ہو چکی۔ روحانی قوت کا تعلق حقیقی علم‘ گہرے یقین‘ پاکیزگی کے تسلسل اور خود اپنے خلاف پیہم برسرِ جنگ رہنے سے ہوتا ہے۔ ایک ایک کر کے اپنی اپنی کمزوریوں پر قابو پانے سے۔ تصوف کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ مکمل صداقت شعاری اور مکمل راستی کے ساتھ یہ کئی عشروں کا سفر ہوتا ہے؛ اگرچہ اس کے بعد بھی کسی کو دوسروں کی تقدیر نہیں سونپ دی جاتی۔ قرآن کریم میں ہے‘ من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ۔ کون ہے جو مالک کی مرضی کے بغیر کسی کی سفارش کرے۔ قدرت کے قوانین میں کبھی کوئی استثنیٰ نہیں ہوتا‘ حتیٰ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں پر وہ یکساں نافذ ہوتے ہیں۔ دعا البتہ استثنا پیدا کر سکتی ہے‘ اگر توبہ اور توفیق طلب کی جائے۔ خود دعا مانگنے والے یا دکھ درد کے مارے کسی مسلمان بھائی کے لیے۔ اقتدار اس طرح نہیں ملا کرتا؛ البتہ خلق کی اجتماعی فریاد سے‘ جیسے کہ قائداعظم کے لیے کی گئی یا شاید ابرہام لنکن کے لیے بھی۔ قوموں کی تقدیر کا تعلق دعا سے بہت کم ہوتا ہے۔ بلکہ اجتماعی جدوجہد سے۔ ''لیس للانسان الا ماسعٰی‘‘ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی انہوں نے کوشش کی۔ توبہ فرد کے لیے ہوتی ہے اور مکمل طور پر اسے معاف کردیا جاتا ہے۔ ساری خطائیں لوح سے مٹا دی جاتی ہیں‘ اقوام کا معاملہ قدرے مختلف ہے ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
ولے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اس نے دعویٰ کیا تھا کہ 6 ستمبر تک نوازشریف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ نہ ہو سکی۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے کہ عمران خان کی حکومت کے عہدیدار وہ خود نامزد کریں گے۔ آزادی یا موت کا نعرہ بھی اسی نیم خواندہ نے دیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق کپتان اب دوسرے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ ابدی قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ سو‘ جو فروغ چاہتے ہیں‘ وہ قوانین قدرت کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ رہی توہم پرستی‘ تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات