اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان تو یہ ہے: الصدق ینجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ رہے دانشور اور لیڈر تو ان کی اپنی الگ شریعت ہے۔ وہ جو چاہیں ارشاد کریں۔
علامہ طاہر القادری نے اپنے کارکنوں اور حلیفوں سے مشورہ کیے بغیر‘ یکایک اور اچانک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ وعدہ انہوں نے یہ کیا تھا کہ وہ ''عوامی پارلیمنٹ‘‘ کی رائے معلوم کیے بغیر کوئی اقدام نہ کریں گے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے وقائع نگار نے لکھا کہ پارٹی کے کارکن ایک دوسرے سے گلے مل کر روتے اور حیران ہوتے رہے کہ یہی کرنا تھا تو اس اذیت کی ضرورت کیا تھی؟ اپنی نوکریاں اور کاروبار چھوڑ کر وہ آئے تھے کہ انقلاب برپا کریں۔ چودھری شجاعت حسین اب یہ کہتے ہیں کہ وسط مدتی الیکشن تک کا کوئی امکان نہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے وزراء کو علامہ صاحب اور ان کی پارٹی پر تنقید سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ آخر کیوں؟ جب ایک حریف نے آپ کے خلاف تلوار سونت رکھی ہو‘ آپ کی حکومت ختم کرنے ہی کے در پے نہ ہو بلکہ پھانسی کے پھندے کی نوید سناتا ہو تو اس عالی ظرفی کا راز کیا ہے؟
بہت دنوں سے کچھ لوگ دعویٰ کر رہے تھے کہ حکومت اور علامہ صاحب میں خفیہ مذاکرات ہیں۔ علامہ صاحب تردید کرتے رہے۔ وہ مگر ایسے شخص نہیں‘ جن کی ہر بات پر اعتبار کیا جا سکے۔ جس شب وزیراعظم ہائوس پر حملہ کیا گیا‘ انہوں نے اعلان کیا کہ اب تک ستر سے زیادہ لاشیں اٹھائی جا چکیں۔ وہ ستر لاشیں کہاں ہیں؟ علامہ صاحب کا فرمان یہ ہے کہ اسلام آباد کے دھرنے کو اب وہ ملک بھر میں پھیلا دیں گے۔ ان کے کارکن مگر یہ کہتے ہیں کہ اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
شریف حکومت کی ناکردہ کاری اور نامقبولیت اپنی جگہ۔ اس پر عوامی برہمی اپنی جگہ۔ دھرنے کا ڈرامہ خوش فہمیوں اور ناقص بنیادوں پر استوار تھا۔ تحریک انصاف کی شکایت تو قابل فہم تھی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور بہترین کوششوں کے باوجود تدارک کی تدبیر نہ کی گئی۔ تدارک تو الگ وفاقی وزرا مذاق اڑاتے رہے۔ کبھی وہ پوچھتے کون سی دھاندلی۔ کبھی یہ کہتے کہ تحریک انصاف کو الیکشن ٹربیونل اور عدالتوں کا رُخ کرنا چاہیے۔ کون سی عدالتیں اور کون سے ٹربیونل؟ جہاں مقدمات کے فیصلے اکثر اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک صادر نہیں ہوتے۔ یہ سوال تو تھا ہی نہیں کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں۔ خود وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اعتراف کیا تھا کہ ہر حلقہ انتخاب میں ساٹھ ستر ہزار ووٹ شناخت نہیں کیے جا سکتے۔ پھر جس بھی حلقہ انتخاب کے صندوقچے کھولے گئے‘ اس میں جعلی ووٹ پکڑے گئے۔ سوال تو صرف یہ تھا کہ کتنے حلقوں میں گڑبڑ ہوئی۔ تحریک انصاف طویل عرصے تک بھنگ پی کر سوتی رہی اور ہڑبڑا کر جاگی تو وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ داغ دیا۔ وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ کل نہیں‘ آج ہی حکومت کو مستعفی ہونا چاہیے۔ ہر روز یہ خوش خبری مظاہرین کو سنائی جاتی کہ ایک آدھ دن میں حکومت رخصت ہونے والی ہے۔ عمران خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ امپائر کی انگلی بس اٹھنے ہی والی ہے۔
اس سوال کا واضح جواب بھی اب تک نہیں دیا گیا کہ شریف حکومت نے اپنے ماضی اور مزاج کے برعکس تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہرین کو اسلام آباد آنے کی اجازت کیوں دی؟ وہ اتنی فراخ دل کیسے ہو گئی؟ اطلاعات یہ تھیں اور کبھی ان کی تردید نہ کی گئی کہ جناب سراج الحق نے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے علامہ طاہرالقادری کی ضمانت دی تھی۔ یہ ضمانت کہ اسلام آباد میں وہ مقررہ مقامات تک محدود رہیں گے۔ پھر اس عہد کی انہوں نے پاسداری کیوں نہ کی؟ اور جب ایسا ہوا تو جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے دم کیوں سادھے رکھا؟ حقیقت حال سے قوم کو خبردار کیوں نہ کیا؟ دعویٰ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے اپنے دوست چودھری نثار علی سے بھی پیمان کیا تھا کہ شاہراہ دستور کا رُخ نہ کریں گے۔
نام اب اس کا یاد نہیں‘ یہ 2002ء کے انتخابات تھے‘ جب کپتان نے میانوالی میں ایک آزاد امیدوار کو تحریک انصاف کے ٹکٹ کی پیشکش کی۔ الیکشن سے چند ہفتے قبل‘ جنرل پرویز مشرف سے ان کی مفاہمت ختم ہو گئی تھی۔ اس لیے ختم کہ جنرل نے چودھری برادران کو پنجاب کا اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسلام آباد کے ایوان صدر میں عمران خان جنرل سے ملے اور اس پر احتجاج کیا۔ ان کا جواب یہ تھا‘ صوبوں سے آپ کو کیا لینا دینا‘ بڑا عہدہ (The big slot) آپ کے لیے محفوظ ہے۔ انہی دنوں کہانی کپتان نے مجھے سنائی اور یہ کہا ''زمین مجھے گھومتی ہوئی نظر آئی‘‘۔ یہ ناچیز خاموش رہا کہ بارہا اس نے آنجناب کو ریفرنڈم کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اب بہرحال یہ ہوا کہ آئی ایس آئی ان کے در پے ہو گئی۔ پارٹی کے ہر اس امیدوار کو اُچک لیا گیا جس کی کامیابی کا کچھ بھی امکان تھا۔ زیادہ تر نے قاف لیگ سے نکاح ثانی کر لیا اور وہ بھی طلاق لیے بغیر۔
آزاد امیدوار نے انکار کردیا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ تحریک انصاف کی حمایت اس کے لیے اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ ثابت ہوئی۔ میانوالی میں عمران خان کی رو چل نکلی‘ جیسی کہ اب پورے ملک میں ہے تو وہ صاحب خان کے پاس آئے اور پارٹی ٹکٹ کی درخواست کی۔ اب مگر ایک رکاوٹ حائل تھی۔ ٹکٹ کسی اور کو دیا جا چکا تھا۔ الیکشن جیت کر اپنے گھر میں چائے کی میز پر آسودہ کپتان نے مجھے بتایا: پارٹی کے تمام عہدیداروں اور دوستوں نے مشورہ دیا کہ ایک کمزور اور گمنام آدمی سے ٹکٹ واپس لے کر اس آزاد اور طاقتور امیدوار کو دے دیا جائے مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے ان سے یہ کہا: قرآن کریم میں لکھا ہے کہ آدمی کو اپنا وعدہ بہرحال پورا کرنا چاہیے۔
دسمبر 2011ء کو کراچی کے جلسۂ عام میں ایک طوفان برپا تھا۔ جاوید ہاشمی سمیت حفیظ اللہ خان غائب تھے اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اندیشہ ہونے لگا اور بڑھتا گیا کہ ممکن ہے جاوید ہاشمی پارٹی میں شمولیت کا اعلان ہی نہ کریں۔ پارٹی کے پریشان لیڈر میرے پاس آئے۔ حفیظ اللہ خان کو میں نے فون کیا تو وہ برہم تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ شاہ محمود عمران خان سے فوراً پہلے خطاب کرنے پہ مصر تھے۔ حفیظ اللہ اس پہ ناراض تھے کہ جاوید ہاشمی کے مقابلے میں شاہ محمود کی حیثیت کیا ہے اور وہ بھی آج کے دن۔ حیرت زدہ‘ میں کپتان کے پاس گیا کہ یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے جو سلجھایا نہ جا سکتا ہو۔ اس کا جواب دو ٹوک تھا۔ شاہ محمود سے میں وعدہ کر چکا ہوں کہ ہر جلسے میں وہ اس سے پہلے خطاب کیا کرے گا۔ پھر ایک لمحہ تامل کے بغیر اس نے کہا: ''مسلمان کی زبان ہی سب کچھ ہوتی ہے‘‘۔ چپ چاپ میں واپس آ گیا اور حفیظ اللہ خان کی منت سماجت کی‘ جس نے یہ کہا: ''مجھے تنگ نہ کرو‘ میں پہلے ہی دو سکون آور گولیاں کھا چکا ہوں‘‘۔ جاوید ہاشمی نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا اگرچہ شاہ محمود نے ایک طویل تقریر سے جلسے کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ سحر‘ وہ آنسوئوں کے ساتھ رو پڑا تھا کہ عمران خان‘ کراچی کے ہوائی اڈے پر جاوید ہاشمی کا خیرمقدم نہ کرنے جائیں۔ ''یہ میری عزت کا سوال ہے‘‘، بار بار اس نے کہا۔
جو شخص رسول اللہﷺ سے کوئی سی بات منسوب کر سکتا ہو‘ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سوال البتہ پریشان کرتا ہے کہ عمران خان وعدہ شکنی کے مرتکب کیسے ہوئے؟ جمہوریت بجا مگر اخلاقی بنیاد کے بغیر ہی؟ مگر ایک کے بعد دوسرے جھوٹ پہ استوار بالکل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح؟ ججوں کی بحالی پر تحریری معاہدے سے مکر جانے کے بعد صدر زرداری نے یہی کہا تھا کہ وعدہ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔ اس پر ان کی ہوا اکھڑی تھی جو بالآخر شرمناک شکست پر منتج ہوئی۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان تو یہ ہے: الصدق ینجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ رہے دانشور اور لیڈر تو ان کی اپنی الگ شریعت ہے۔ وہ جو چاہیں ارشاد کریں۔