مدثر حسین شاہ ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں تو مایوس ہونے کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ انشاء اللہ ایک دن اس دیار کے در و بام پر صبحِ صادق کا نور طلوع ہو کر رہے گا ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئنہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
بدھ کو پنجاب پولیس جب نابینائوں پر لاٹھیاں برسا رہی تھی تو میں کھاریاں میں تھا، خصوصی بچوں کے لیے جہاں ایک عظیم الشان ادارہ قائم ہے۔ جہاں انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس قابل بنانے کی کوشش بھی کہ عملی زندگی کے میدان میں اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ میں اس محیرالعقول سائنسدان سٹیون ہاکنگ کے بارے میں سوچتا رہا، جسے عصرِ حاضر کے عظیم ترین دماغوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عزیزم بلال الرشید نے مجھے اس بارے میں بتایا تھا۔ وہ 21 سال کا تھا، جب ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہوا۔ اسے بتایا گیا کہ دو تین برس میں قضا اسے آ لے گی۔ سر سے پائوں تک وہ مفلوج ضرور ہوتا چلا گیا مگر جیتا رہا۔ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ ایک انگلی بھی اگرچہ ہلا نہیں سکتا مگر کیسی ثمربار زندگی 72 برس کے اس آدمی نے بسر کی ہے۔ طبیعیات دان، فلکیات دان، کبھی فراموش نہ کیا جانے والا ایک مصنف۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ڈائریکٹر آف ریسرچ۔ وہ اس منصب پہ تیس برس تک فائز رہا، جو کبھی نیوٹن کے پاس تھا۔ وہ کئی کائناتوں کے نظریے کا پُرجوش حامی ہے۔ ابھی چند برس پہلے تک سائنسدان جس کے منکر تھے اور قرآنِ کریم جس پر شاہد ہے۔ سائنسی دنیا کی مقبول ترین کتاب ''The brief history of time‘‘ اس کا شاہکار ہے، جس نے فروخت اور مقبولیت کے کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ حیرت سے میں نے سوچا، کیا عجب ہے کہ المدثر ٹرسٹ کے ان طلبہ میں سے، جو سٹیج پر ایک کے بعد دوسرا کھیل پیش کرتے رہے، کوئی سٹیون ہاکنگ پیدا ہو جائے۔ ذہنی طور پر اپاہج اور معذور لیڈروں کی اس دنیا میں، جو ہمارے پیر تسمہ پا ہیں، نوچ نوچ کر جو ملک کو کھاتے رہتے ہیں۔
تیس پینتیس برس سے پیرس میں مقیم مدثر حسین شاہ ایک سادہ سے‘ دیہاتی سے آدمی ہیں، 1999ء میں جنہوں نے یہ ادارہ قائم کیا اور مدّتوں فقط اپنی ذاتی آمدن سے اسے چلاتے رہے۔ اب مگر یہ بہت پھیل گیا ہے۔ تحصیل گوجر خان کے سبزیاں اگانے والے قصبے دولتالہ میں اس کی عمارت تعمیر کے آخری مراحل میں ہے، جس کے بعد بریگیڈیئر سلطان کے گائوں ڈومیلی میں آغازِ کار ہو گا۔ مدثر حسین شاہ یہ عزم رکھتے ہیں کہ پورے ملک میں وہ اس کی شاخیں قائم کریں گے۔ اگرچہ وہ اس کی آرزو نہ رکھتے تھے مگر اب انہیں عوامی عطیات کی ضرورت آ پڑی ہے۔
ایسی کوئی دوسری مثال نہیں کہ معذور بچّوں کے لیے کسی نے ایسا عظیم ادارہ بنانے کی ٹھانی ہو۔ 23 ایکڑ پر پھیلا ہوا کمپلیکس، ایک لاکھ دس ہزار فٹ پر ایک دلکش عمارت، جو ایک فرانسیسی آرکیٹیکٹ کے فن کا اعجاز ہے۔
کھاریاں شاید پاکستان کا سب سے خوشحال علاقہ ہے۔ ربع صدی ہوتی ہے، احمد ندیم قاسمی ناروے گئے۔ وہاں کھاریاں کے بہت سے محنت کشوں سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے لکھا تھا: اب اس ملک کا نام بدل کر ''کھاروے‘‘ رکھ دینا چاہیے۔ جس ملک کے حکمران شاید بدترین ہیں، وہاں عوامی بہبود کے میدان میں دنیا کے بعض بہترین ادارے وجود میں آئے ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن، شوکت خانم ہسپتال اور اخوت۔ اندازہ یہ ہے کہ اوسطاً تین سو ارب روپے پاکستانی عوام ان ہزاروں چھوٹے بڑے سکولوں اور خیراتی اداروں پر صرف کرتے ہیں۔
آغازِ شباب ہی میں سید مدثر حسین شاہ بیرونِ ملک چلے گئے۔ ایف اے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر۔ ان سے میں نے پوچھا کہ یہ ادارہ تعمیر کرنے کا خیال کب انہیں سوجھا۔ کہا: ہوش سنبھالتے ہی۔ بتایا کہ ان کے تین بہن بھائی معذور ہیں۔ اللہ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ انہی کی نہیں، ایسے تمام بچوں کی انہیں مدد کرنی چاہیے۔ ''ہم کچھ بھی نہیں کرتے‘‘ انہوں نے کہا ''مگر جب اللہ ہمیں توفیق دے‘‘ اپنی پہلی تنخواہ میں سے، جب وہ زیورات بنانے والی ایک مشہور فرانسیسی فرم میں کام کرتے تھے، انہوں نے کچھ رقم الگ کر دی تھی۔ ساڑھے چھ برس کے بعد اپنی ذاتی آمدن سے اس قدر وہ پس انداز کر چکے تھے کہ پیرس میں ایک تعمیراتی کمپنی کا آغاز کیا، وقت کے ساتھ جو پھلتی پھولتی رہی‘ جسے اب اس لیے انہوں نے سمیٹ دیا ہے کہ اپنا سارا وقت وہ المدثر ٹرسٹ کو دینا چاہتے ہیں۔ ''اپنے بچوں کو‘‘ انہوں نے کہا اور ان کی آواز میں ہرگز کوئی دکھاوا نہ تھا۔
بدر مرجان گائوں کے ایک عام سے خاندان میں مدثر شاہ نے آنکھ کھولی۔ ان کے والد بشیر حسین شاہ پٹواری تھے، مگر کیسے پٹواری؟ رزقِ حرام نہ کھانے کی جنہوں نے قسم کھا رکھی تھی۔ پابندی سے تہجد پڑھا کرتے اور ان کی اہلیہ بھی۔ مدثر حسین شاہ ایسے فرزند ایسے ہی گھروں میں پیدا ہوتے ہیں۔
317 بچّے اس کالج میں زیرِ تعلیم ہیں، 28 اساتذہ، جن میں سے 17 خصوصی تعلیم میں ایم ایس ایس ڈگریوں کے حامل ہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے الگ سے ایک ادارہ قائم ہے۔ شاہ صاحب سے میں نے پوچھا: ہوسٹل میں رہائش اور کھانے کا حال کیا ہے؟ جواب ملا: لاہور کے ایچی سن کالج سے اس کا معیار کسی طرح کم نہیں۔ پھر بتایا کہ اس خواب کو متشکّل کرنے کے مہ و سال میں یورپ اور امریکہ کے ایسے کتنے ہی اداروں کا انہوں نے خود جا کر جائزہ لیا۔ ایک سبکدوش ڈی ایس پی راجہ ظفر اور ریٹائرڈ ایڈیشنل آئی جی چوہدری تنویر کا وہ بڑی محبت سے ذکر کرتے رہے۔ تقریب سے قبل آئی بی کے سابق سربراہ جنرل رفیع اللہ نیازی سے ملاقات ہوئی۔ لمبا تڑنگا صحت مند آدمی جو آج بھی ایک جواں سال کپتان کی طرح پُرجوش رہتا ہے۔ نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو!
دو طرح کے بچے ہیں۔ ایک وہ جو دیکھ اور سن نہیں سکتے۔ دوسرے وہ جو ذہنی طور پر پسماندہ ہیں۔ ماہرینِ نفسیات اور ڈاکٹروں کی خدمات ان کے لیے حاصل کی گئی ہیں۔ مدثر شاہ سے میں نے پوچھا: دشواریاں تو بہت رہی ہوں گی۔ بچوں کی سی معصومیت سے انہوں نے بتایا: خواتین اساتذہ کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ اپنے گھروں کو وہ رخصت ہوتی ہیں۔ سارا وقت میں استاد ہی ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ بدر مرجان گائوں میں ایک خیراتی ہسپتال بنانے کے لیے کسی دوست نے زمین عطیہ کی تھی۔ اس پر عدالت سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا گیا۔ ایک بڑا لطیفہ انہوںنے یہ سنایا کہ چار سال قبل شہباز شریف کے ایک وزیر تشریف لائے۔ کسی درخواست کے بغیر چار عدد گاڑیوں کا انہوں نے وعدہ کیا مگر اس کے بعد کبھی فون بھی سن کر نہ دیا۔ بر سبیلِ تذکرہ، میاں شہباز شریف کی صاحبزادی نے خود بھی ایسا ہی ایک ادارہ بنایا ہے۔ نسبتاً چھوٹا سا مگر قابلِ رشک۔
ورق تمام ہوا اور داستان باقی ہے۔ ایک کالم میں ایک پوری زندگی سمٹ کیسے سکتی ہے۔ سارا وقت البتہ میں یہ سوچتا رہا کہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک درد اور احساس کی دولت سے مالامال مدثر حسین شاہ اور ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے‘ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ایک حرص و ہوس کے مارے ہوئے لیڈروں ایسے، جن کے شکم کی آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا: ابنِ آدم کا پیٹ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔
مدثر حسین شاہ ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں تو مایوس ہونے کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ انشاء اللہ ایک دن اس دیار کے در و بام پر صبحِ صادق کا نور طلوع ہو کر رہے گا ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئنہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی