کل انشاء اللہ اس موضوع پر کچھ مزید گفتگو کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سول حکومت آخر بروئے کار آتی کیوں نہیں؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
بنیادی بات وہی ہے۔ اصل چیز ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ حکومت کیا واقعی عزم رکھتی ہے یا وہی زرداری عہد کی سی اشک شوئی اور شعبدہ بازی؟
جنرل راحیل شریف نے جب یہ کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سبھی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تو ان کی مراد کیا تھی؟ تفصیل انہوں نے بیان نہ کی۔ ان کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ زیادہ محتاط اور زیادہ شائستہ رہیں ؎
تفصیل نہ پوچھ، ہیں اشارے کافی
یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں
افراد ہوں یا اقوام، دو طرح کے روّیے ہوتے ہیں۔ گھبراہٹ اور خود ترحمی یا چیلنج کا مقابلہ کرنے کا عزم۔ اقبالؔ آنسو پونچھتے اور درد بھرے لہجے میں کہا کرتے کہ کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔ امید کا دامن مگر کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آخری ایّام کی کہانی ڈاکٹر چغتائی نے لکھی ہے۔ سانس کی بیماری سے نڈھال، بستر پہ پڑے رہتے۔ اس پہ مگر اصرار تھا کہ پاکستان بن کے رہے گا۔
اندھیری شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
ہم پہ ایسی کون سی مصیبت آ پڑی ہے کہ دوسری اقوام کو جس سے واسطہ نہ پڑا ہو۔ دوسری عالمگیر جنگ میں یورپ ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس... اور ان کے علاوہ جاپان اور کوریا۔ ماتم کرنے کی بجائے مگر انہوں نے اپنی دنیا پھر سے تعمیر کی۔ بعض تو اس ظفر مندی کو پہنچے کہ نگاہ خیرہ ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔
اوّل دن سے آشکار تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ طاقت ہی سے نمٹنا ہو گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ سالِ گزشتہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد جنرل ثناء اللہ نیازی کو انہوں نے شہید کیا۔ پشاور کے چرچ پر حملہ کرکے 127 سے زیادہ عبادت کرنے والوں کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کے دل میں اگر ان کے لیے نرم گوشہ تھا تو یہ قابلِ فہم ہے۔ جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف اور نون لیگ میں کیوں؟ بے شک ازل سے فکری الجھائو ہی آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل سے میں نے پوچھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس کی تعمیرِ نو کس طرح ہونی چاہیے۔ وہ ہنسے او ربولے: پہلے پولیس کو پولیس تو بنائیے۔ پھر وضاحت کی۔ میرٹ پہ بھرتی، باقاعدہ ٹریننگ، ہر شعبے کے لیے مختلف طرح کی تربیت۔ پاکستان کی تاریخ کے بہترین پولیس افسر کی ہنسی میں رنج اور درد تھا۔ آج بھی ترکی اور جاپان کی پولیس جس سے رہنمائی کی طالب ہوتی ہے۔ جس کے توجہ دلانے پر ترک پولیس کے 500 سے زیادہ افسر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے اور اس اعتبار سے اب وہ دنیا کا
بہترین ادارہ ہے۔ ایسا نہیں کہ ہماری پولیس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ایسے حالات میں بھی کہ سرکار کی بجائے حکمرانوں کا ملازم انہیں بنا دیا گیا ہے، کتنی ہی زندگیاں انہوں نے نذر کی ہیں۔ پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی مداخلت ہے۔ عدالت اوّل تو سزا دیتی ہی نہیں۔ جنہیں دے چکی، اس پر عمل درآمد نہیں کہ مغرب کی خوشنودی درکار ہے۔ پولیس، عدالت اور جیل خانوں کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مجرم اگر جیلوں میں بیٹھ کر وارداتیں جاری رکھ سکیں تو اس عفریت کا سدّباب کیونکر ممکن ہے؟ تنہا فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں کیونکر اس تہہ در تہہ جال کو توڑ سکتی ہیں؟
تھانے کا کردار اہم ترین ہے۔ انگریزی دور اور کسی قدر بعد کے زمانوں میں اگر کچھ امن تھا تو تھانے کی بدولت۔ اپنے علاقے میں تمام تر نقل و حرکت پر نگاہ صرف پولیس رکھ سکتی ہے۔ عام آبادیوں میں پولیس کی انٹیلی جنس کا کوئی متبادل ممکن ہی نہیں۔ وہی جانتی ہے کہ علاقے میں مشکوک لوگ کون ہیں اور جرائم پیشہ کون۔ اجنبی کہاں پناہ پاتے ہیں۔ قمار بازی کے اڈے کہاں ہیں۔ خوف ایک ہتھیار ہے، جرم کا سدّباب کرنے کے لیے ایک نظام کے تحت اور سلیقہ مندی کے ساتھ جسے برتنا چاہیے۔
کیا کبھی کسی ملک میں ٹیلی فون کی سم بھی ایسا سنگین مسئلہ بنی ہو گی، جیسی ہمارے ہاں؟ ابھی پرسوں پرلے روز پی ٹی اے نے اعلان کیا کہ قبائلی علاقے اور پشاور میں افغان سمیں ناکارہ بنا دی گئی ہیں۔ کسی کو جائزہ لینا چاہیے کہ واقعی ایسا ہو چکا؟ ممکن ہے انہوں نے کر ہی ڈالا ہو۔ خبر پڑھنے کے بعد اگرچہ پہلا تاثر یہ تھا۔
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اکیسویں صدی میں کیا یہ مشکل کام تھا کہ ٹیلی فون کی سم احتیاط کے ساتھ جاری کی جائے۔ بار بار ایک سے دوسرے موبائل فون میں منتقل کی جانے والی سم ناکارہ بنانا اور افغان کمپنیوں کے سگنل جام کرنا کتنا مشکل کام تھا؟ یہ سوال ایک متعلقہ افسر سے پوچھا گیا۔ اس کا جواب یہ تھا: منصوبہ بندی اگر کی جاتی تو فقط پانچ منٹ درکار ہوتے۔ افسوس کہ کبھی، کسی بھی سطح پر اس سلسلے میں عرق ریزی نہ کی گئی۔ یہی قرینہ گاڑیوں کے نمبر الاٹ کرنے میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ کار یا ویگن کی بجائے، متعلقہ آدمی کو نمبر الاٹ کیا جاتا۔ اگر گاڑی وہ فروخت کرے تو اپنی نمبر پلیٹ اتار لے اور خریدار متعلقہ دفتر سے رجوع کرے۔ کسی کو یہ بات کیوں نہ سوجھ سکی؟
نیکٹا کو فعال کرنے کا اعلان سالِ گزشتہ شریف حکومت نے کیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟ بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد میں انٹیلی جنس شیئرنگ کا ایک سیکرٹریٹ بنے گا اور چوہدری نثار علی خان اس کے نگران ہوں گے۔ بار بار دہشت گردی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرنے والے وزیرِ اعظم اور عالی دماغ وزیرِ داخلہ اب اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ دو باتیں سامنے آئیں۔ اوّل یہ کہ فنڈز ہی فراہم نہ ہو سکے۔ خدا کی پناہ، تین شہروں میں میٹرو بس کے لیے ایک سو ارب روپے مہیا ہو سکتے ہیں۔ خوں ریزی روکنے کے لیے کیوں نہیں؟ معلوم ہوا کہ ایک اعتراض آئی ایس آئی والوں نے کیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی ماتحتی وہ نہیں کر سکتے۔ متفنی رحمٰن ملک کا زمانہ انہیں یاد تھا، ایک شب اچانک آئی ایس آئی جب ان کی وزارت کو سونپ دی گئی تھی۔ فوجی افسروں کا کہنا یہ تھا کہ دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی سے کام لینے کے لیے جو صلاحیت درکار ہے، وزارتِ داخلہ اس سے محروم ہے۔ وہ اس کا بیڑہ غرق کر دے گی۔ نیکٹا کو وزیِر اعظم کے ماتحت کیا جا سکتا ہے یا آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسروں کی خدمات عارضی طور پر وزارتِ داخلہ کے سپرد کی جا سکتی ہیں۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ کچھ اور اہم نکات بھی ہیں۔ مگر یہ کسی کی ترجیح بھی ہو۔ محاورہ یہ ہے: خوئے بد را بہانہ بسیار۔ سول حکومت کے نزدیک دہشت گردی کیا صرف فوج کا مسئلہ ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوںکا کام گلچھرے اڑانا ہے؟
8 دسمبر کی ممکنہ صورتِ حال کا جائزہ لینے فیصل آباد پہنچا تو عجیب و غریب کہانیاں سنیں۔ کئی ممتاز کاروباری شخصیات نے بتایا کہ جناب حمزہ شہباز کے پسندیدہ ڈی سی او نے تاجروں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ یہ کہانی پھر کبھی۔ کل انشاء اللہ اس موضوع پر کچھ مزید گفتگو کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سول حکومت آخر بروئے کار آتی کیوں نہیں؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے