کبھی آزمائش اور امتحان کامیابی اور ظفرمندی سے زیادہ ثمر خیز ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے لیے موسمِ گل شاید اب چند برس کی بات ہے ع
وصل میں مرگِ آرزو‘ ہجر میں لذتِ طلب
آخری تجزیے میں پاکستانی قوم‘ بھارتیوں سے بہت بہتر ہے۔ 1988ء کے نئے جمہوری دور سے پہلے‘ کم و بیش ہر میدان میں پاکستان کو بھارت پہ برتری حاصل تھی۔ یہ جمہوری نظام کا نہیں‘ صدیوں میں تشکیل پانے والے ہمارے مزاج کا نقص ہے۔ ادنیٰ لوگوں کی حکمرانی ہم گوارا کرتے ہیں۔ ہیجان میں ہم مبتلا ہیں۔ غلط تجزیوں کی بنیاد پر ناقص طرزِ عمل کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ اگر حافظہ کی غلطی نہیں کرتا تو اس اخبار کا نام 'انڈین ٹیلیگراف‘ تھا‘ گزشتہ صدی کے آٹھویں عشرے میں‘ جس نے لکھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم‘ بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتی ہے اور جنرل محمد ضیاء الحق بھارتی حکمرانوں کو چکمہ دینے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ عمران خان نے بتایا: ایک میچ کے بعد‘ بھارتی لڑکیاں‘ پاکستانی کھلاڑیوں سے آٹوگراف لے رہی تھیں۔ ایک نے بھارتی کھلاڑی سے پوچھا: کیا آپ بھی پاکستانی ہیں؟ وہ بجھ گیا اور کہا: ہمارے نصیب ایسے کہاں؟ بھارت کے ایک دورے میں جنرل محمد ضیاء الحق صدر گیانی ذیل سنگھ سے ملنے گئے تو انہوں نے مشرقی پنجاب میں پاکستانی دبائو کا ذکر کیا۔ پالیسی تبدیل کرنے کی درخواست کی۔ جنرل نے کہا: پاکستان میں کاروبار حکومت اب وزیراعظم چلاتے ہیں۔ گفتگو پنجابی میں تھی۔ سکھ لیڈر تاب نہ لا سکا اور بولا: ''امریکہ نوں تسی چکر دِتا‘ روس دا بیڑہ تسی غرق کیتا۔ انڈیا دا تسی خانہ خراب کیتا تے ہالے کہندے او میرا اختیار ای کوئی نہیں‘‘۔ (امریکہ کو آپ نے چکرایا۔ روس کا خانہ آپ نے خراب کیا۔ انڈیا کا بیڑہ آپ نے غرق کیا۔ اس پر بھی ارشاد یہ ہے کہ میرا تو کوئی اختیار ہی نہیں)۔
پاکستان وجود میں آیا تو فی کس آمدن 80 ڈالر فی کس تھی‘ بھارت میں 180 ڈالر۔ پہلے تین عشروں میں پاکستان میں ترقی کا عمل بھارت سے کہیں زیادہ تیز تھا۔ ربع صدی کے بعد پاکستانی شہری کی اوسط آمدن 380 ڈالر ہو چکی تھی اور بھارت کی 280 ڈالر سے آگے نہ بڑھنے پائی تھی۔ برسبیل تذکرہ عظیم لیڈر مائوزے تنگ کی قیادت میں آزادی کے 24 سال بعد چین میں یہ شرح 180 ڈالر تھی۔ اس سرزمین کو سوشلزم کی تدفین کے بعد خوش حالی نصیب ہوئی۔ اب یہ 3000 ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔ 1956ء سے پہلے کے جمہوری تجربے میں فروغ جاری تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں بھی۔ ہزار خرابیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ادوار میں بھی تسلسل برقرار رہا۔ بھارت کی سوشلسٹ جمہوریت کے مقابلے میں‘ کاروبار پہ جو ہزار طرح کی پابندیاں عائد کرتی تھی‘ پاکستان نے جدید مغربی تجربے سے استفادہ کیا۔ بھارتی نظام نے کمیونسٹ ملکوں سے فیض پانے کی کوشش کی اور خاک چاٹی۔
اپنی ہم عصر دنیا کو قائداعظم اور ان کے (نالائق) جانشین‘ بھارتیوں سے بہرحال زیادہ جانتے تھے۔ ان سے زیادہ حقیقت پسند بھی۔ 1983ء کا ایک دن یاد آتا ہے‘ فاروق گیلانی مرحوم سے ملنے گیا تو غالباً تب ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ انہوں نے کہا: پاکستانی افسر شاہی بھارت سے تجارت کے حق میں نہیں۔ ان کے صنعتی اداروں سے میل جول خرابی کا باعث ہوگا۔ پاکستانی صنعتکار مغرب کے مقابلے کی مصنوعات بنانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ وہ سوویت یونین سے متاثر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہانہ ہی تھا۔ گرم جوشی سے ہمیں گریز تھا۔ تعلقات کو معمول پر لانے میں بھارتی مقاصد کو ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا۔ کہا جاتا کہ وہ ثقافتی طور پر پاکستان کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ انتقال آبادی اور اس کی آڑ میں پاکستان کے اندر جاسوسی کے نظام کو فروغ دینے کے آرزو مند اور پاکستانی مارکیٹ پر قبضہ کرنے کے خواہاں۔ عام پاکستانی شہری کی قوتِ خرید‘ ایک عام بھارتی سے کہیں زیادہ تھی۔ طرزِ زندگی ہی مختلف تھا۔ مقامی طور پر تیار کی گئی ماروتی گاڑی کے سوا‘ بھارتی شہری کوئی کار نہ رکھ سکتے تھے۔ 1983ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہندوستانی اخبار نویسوں کا ایک وفد لاہور پہنچا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لاہور سٹیشن تک اس حال میں وہ پہنچے کہ چہرے مرجھا گئے تھے۔ زبانوں پر درسِ نصیحت: آپ لوگ بہت فضول خرچ ہیں‘ بہت نمائش پسند۔ بڑے بڑے مکان اور بڑی بڑی گاڑیاں۔ وفد میں شامل ایک مسلمان اخبار نویس پیچھے رہا۔ سکرپٹ ایڈیٹر ظہور بھائی یا ان کے کسی رفیق کے کان میں‘ اس نے سرگوشی کی: ''جلتے ہیں سالے‘‘۔ جماعت اسلامی بھارت کے ایک لیڈر پاکستان تشریف لائے۔ صدر اور گلبرگ کی خوش حال آبادیوں کے بعد مال روڈ سے گزر کر وہ منصورہ پہنچے تو شاد تھے: گاڑی میں سے عمارتوں کا جمال دیکھتے تو بار بار الحمدللہ کہتے۔ ''الحمدللہ یہ مکان مسلمانوں کے ہیں‘‘۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا۔ بھارت اب بالادست ہے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں پر اس کا قبضہ ہے اور سینمائوں پر بھی۔ یورپی یونین اور امریکہ سے امداد پانے والی ہماری این جی اوز کے بھک منگے تو کیا‘ اخبار نویسوں کی تنظیم ''سیفما‘‘ کے کرتا دھرتا بھی برہمن کے گیت گاتے ہیں۔ 2004ء میں وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی سے عرض کیا: 78 ارکان کا جو وفد آپ نے بھارتی پنجاب بھیجا تھا‘ اس میں سے 75 مدہوش پائے گئے۔ یہ بات مجھے خالد مسعود خان نے بتائی تھی‘ جو وفد کا حصہ تھے اور ہمیشہ ہی حالتِ صحو میں رہتے ہیں۔ وہ بڑبڑائے: یہ پیپلز پارٹی کے اس خبیث سینیٹر کا کیا دھرا ہے۔ موصوف کا تعلق گجرات سے تھا۔ ناول نگار‘ شاعر اور مفکر مگر کبھی اس کا شعر کسی سے سنا نہیں۔ ناول کی دو سو کاپیاں بھی کبھی بکی نہ ہوں گی اور اس سوشلسٹ معلم کی فکر کا محور یہ تھا کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو قریب لایا جائے۔ روسیوں کا پڑھایا ہوا سبق‘ پاکستان میں پانچ اقوام آباد ہیں اور بھارت میں ایک۔
اداروں کی تشکیل کے اعتبار سے‘ بھارت کی بنیاد مضبوط تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دس بہترین انسٹی ٹیوٹ‘ نہرو کے زمانے میں بن گئے تھے۔ مارشل لاء کبھی نافذ نہ ہوا کہ خودپسند‘ حیلہ ساز اور سستی قیادت کی حوصلہ افزائی کرتا۔ اولین تین عشروں کے بعد بھارتی قیادت بھی قابل فخر نہ تھی۔ دوسری سطح پر تو بہت ہی پست۔ مگر ہمارا حال بہت ہی پتلا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف سمیت اکثر لیڈر فوجی فائونڈری میں ڈھلے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کی تنگ نظری کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مذہبی جماعتوں نے قوم کو تقسیم کیا۔ ''شیخ العرب والعجم‘‘ قسم کے لیڈروں کا پیروکار بنانے کی کوشش تباہی کا نسخہ ہے۔ قدیم قبائلی عہد نہیں‘ ہمیں بیسویں اور اکیسویں صدی کی زندگی جینا ہے۔ اسلام کے اصول ہی ابدی ہیں مگر ان کی جو تعبیر مذہبی گروہ پیش کرتے ہیں‘ اصل سے ان کا برائے نام ہی واسطہ ہے۔ مقلد اور ماضی پرست‘ وہ ان مکاتبِ فکر کے اسیر ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران تشکیل پائے اور تنگ نظر ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اٹھنے والی شیوا جی کی تحریک کا تسلسل جاری رہا۔ بھارتی سیاستدان اور اخبار نویس قوم پرست ہے۔ بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن۔ پاکستانی وزیراعظم ارشاد فرماتا ہے: اس کے سوا کہ ہمارے درمیان ایک سرحد ہے‘ ہم میں آخر فرق ہی کیا ہے۔ کوشش کے باوجود عمران خان کو میں یہ سمجھا نہ سکا کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں ''را‘‘ کا نفوذ ہے۔ درجنوں فلمیں اس کے ایما پر بنائی گئیں۔ سب نہیں مگر اکثر بھارتی سیاستدانوں کا‘ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کا ہدف پاکستان کا خاتمہ ہے... ''لکیر‘‘ کا اختتام۔
بات ادھوری رہ گئی‘ پھر کسی وقت مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہفتے کو ہاکی کے میچ سے آشکار ہوا کہ اپنے باطن میں پاکستانی قوم‘ بھارتی غلبے سے کس قدر ناشاد ہے۔ سیاستدانوں اور دانشوروں کی آنکھ کھل جانی چاہیے۔ کھلے گی نہیں۔ امریکہ اور یورپ ہی نہیں‘ اب بھارت سے بھی وہ مرعوب ہیں۔ اپنی ہستی کا شعور ہی نہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی نمو میں بھی اپنی شخصیت کا احساس بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ گم کردہ راہ‘ پست ہمت اشرافیہ سرنگوں ہو سکتی ہے مگر عام پاکستانی ہرگز نہیں۔ اس کے قلب و دماغ میں اقبال‘ؒ زندہ ہیں اور محمد علی جناحؒ بھی۔ وہ زندہ رہنے کا آرزو مند ہے اور انشاء اللہ زندہ رہے گا۔ کبھی آزمائش اور امتحان کامیابی اور ظفرمندی سے زیادہ ثمر خیز ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے لیے موسمِ گل شاید اب چند برس کی بات ہے ع
وصل میں مرگِ آرزو‘ ہجر میں لذتِ طلب