اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ سمجھانے پر بھی اگر وہ نہ سمجھیں تو چن چن کر ان کا خاتمہ کر دو؛ حتیٰ کہ زمین ان کے وجود سے پاک ہو جائے۔ اس کے بعد تاویل کیا اور تامّل کیا؟
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ممکن ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا سوال نہ ہو۔ ممکن ہے کہ یہ محض ایک اعتراض ہو، جو اکسانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب یہ عرض کیا کہ معصوم بچوں کے پاکیزہ لہو نے دہشت گردی پر قوم کو یکسو کر دیا تو یہ کہا گیا: کیسی عجیب قوم ہے کہ جگانے کے لیے اتنے بڑے حادثے کی ضرورت پڑی۔ جی ہاں! بہت بھاری قیمت مگر ایک اور انداز سے بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دہشت گرد اپنا مقصد حاصل کر لیتے۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ بیس کروڑ انسانوں کو خوف میں مبتلا کر کے اپنا ایجنڈا مسلّط کر دیں۔ بالکل برعکس، فوری اور اجتماعی ردّعمل یہ ہوا کہ حالات کا مقابلہ کرنے کا قوم نے عزم کر لیا۔ تمام دوسرے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر متحد ہونے کا اس نے فیصلہ کر لیا کہ عفریت کا سامنا کرے اور ڈٹ کر کرے۔
سالہا سال تک کنفیوژن اور خلط مبحث کا ہم شکار رہے۔ ایک زمانے تک تو وزیرِ اعظم اور ان کی پارٹی بھی کہ دہشت گردوں سے بات چیت کر کے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ شاخِ زیتون کا جواب ہر بار انہوں نے گولیوں سے دیا۔ احساس کی ایک رمق بھی اگر ان میں ہوتی اور دلیل پر ذرا سا بھروسہ بھی تو مذاکرات شروع ہونے کے بعد چرچ میں عبادت کرنے والے غیر متعلق لوگوں کے پرخچے نہ اڑاتے۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔ سوات میں معاہدہ ہو جانے کے فوراً بعد صوفی محمد نے اعلان کیا کہ قومی آئین، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ اس کے باوجود عمران خان فوجی کارروائی کی مخالفت کیوں کرتے رہے؟
ضربِ عضب شرو ع ہونے کے بعد تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائِ اسلام کے دونوں دھڑوں نے خاموشی اختیار کر لی، جسے نیم رضا مندی سمجھا گیا۔ چند روز قبل کپتان نے پھر کہا کہ اگر اقتدار اس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ ہرگز فوجی اقدام کی اجازت نہ دیتا۔ جماعتِ اسلامی اگرچہ ہمیشہ آئین کی پاسداری کا اعلان کر تی رہی، مولانا فضل الرحمٰن اگرچہ دستور کی حدود میں سیاست کرنے کا وعدہ دہراتے رہے مگر ان دونوں پارٹیوں نے قوم کو دہشت گردوں کے خلاف بیدار کرنے کی کوشش کبھی نہ کی۔ مولانا سمیع الحق کا تو ذکر ہی کیا۔ پختون خوا میں برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف اس کے باوجود شش و پنج کا شکار رہی کہ یکے بعد دیگرے اس کے تین ارکانِ اسمبلی بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔
سب سے بڑا سوال دینی مدارس کے بارے میں اٹھتا ہے، جن میں سے آدھے ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لال مسجد ایک مثال ہے۔ اس کے خطیب سرکاری ملازم ہیں مگر انہوں نے انسانی تاریخ کے غلیظ ترین قاتلوں کی مذمّت سے انکار کر دیا۔ کس برتے پر انہوں نے یہ جسارت کی؟ قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ہمت انہیں کس چیز نے عطا کی۔ وہ احتساب کا خوف نہیں رکھتے۔ وہ توقع یہ رکھتے ہیں کہ کچھ ہی کر گزریں، وہ محفوظ و مامون رہیں گے۔
ذرائع ابلاغ؟ خدا کی پناہ! ان صاحب کا موقف قوم کے سامنے پیش کیا جاتا رہا۔ قاتلوں کو وعظ کے مواقع دنیا میں کہاں دیے جاتے ہیں؟ عالمِ اسلام کے کسی ایک ملک میں بھی مدارس و مساجد میں اساتذہ اور خطیبوں کو یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ جو چاہیں کہہ گزریں۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ مجرموں کا خوف اگر جاتا رہے تو جرم کا سدّباب کیونکر ممکن ہے؟
ایک اور نعرہ یہ ہے کہ جب تک اسباب و عوامل کا تدارک نہ ہو گا، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ان کے بقول نظامِ انصاف کی تشکیل، پولیس اور عدالتوں کی اصلاح اور امریکی استعمار سے ناتہ ختم کیے بغیر، دہشت گردی کے رجحانات تحلیل نہ ہوں گے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب تک غربت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، چوروں اور ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی ترک کر دی جائے؟ افواجِ پاکستان اور سرکاری دفاتر پر حملوں کا بھی کوئی جواز نہیں مگر ایسے سفاک لوگ کہ مزارات، مارکیٹوں اور تعلیم گاہوں میں بچوں کا قتلِ عام کریں۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ ناانصافی پر رنج کا شکار ہونے والوں کی انتقام پسندی گوارا ہونی چاہیے تو کون سی بستی اور کون سا گھر محفوظ رہے گا؟
کسی نہ کسی درجے میں تمام معاشرے ظلم کا شکار رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنا کیا حکومت اور اداروں کا کام ہے یا جنون اور وحشت میں مبتلا لوگوں اور گروہوں کا؟
وقت آ گیا ہے کہ مدارس کو رجسٹر کیا جائے۔ ان میں سے ایک ایک کے اساتذہ اور طالبِ علموں کا ریکارڈ رکھا جائے۔ مخالف فرقے کی مذمّت اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے خطیبوں پر پابندی عائد کی جائے۔ حکومت اگر حوصلہ مندی سے کام لے تو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ان سب کو سرکاری تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ آزادیٔ عمل برقرار رکھتے ہوئے ان کا نظم و نسق چلانے کے لیے قابلِ احترام شہریوں کی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ان کے نصاب میں تبدیلی کر کے عصری علوم کی تدریس کو لازمی قرار دیا جائے۔ سرکاری سکولوں میں میٹرک تک تمام مسلمان طلبہ کو ترجمۂ قرآن پڑھایا جائے۔ وہ اللہ کے احکام سے آگاہ ہوں کہ دوسروں کو فقط دلیل، حسنِ اخلاق اور حکمت سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے۔
اسامہ بن زیدؓ، رسولِ اکرمؐ کے چہیتے صحابی نے تلوار کے مقابل کلمہ پڑھنے والے کو قتل کر ڈالا تو آپؐ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور بار بار یہ کہا: یا اللہ، میں اسامہ ؓ کے اس فعل سے بری ہوں۔ آزردہ اور دل گرفتہ، وہ عالی مرتبتؐ کے قدموں میں گرے اور کہا: یا رسول اللہؐ اسلام قبول کرنے سے اس نے انکار کیا تھا۔ تلوار اٹھ چکی تھی، جب اس نے خوف سے کلمہ پڑھا۔ فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ حکم دیا: عورت، بوڑھے اور بچّے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے گا‘ فصل جلائی نہ جائے گی اور درخت کاٹا نہیں جائے گا۔ کون لوگ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم بدل ڈالنے کی جرأت کرتے ہیں؟ مفتی رفیع عثمانی فرماتے ہیں: طالبان نہیں، یہ ظالمان ہیں اور ان کے پیچھے کارفرما اصل ہاتھ کا سراغ لگایا جائے۔ جی نہیں، مفتی صاحب، طالبان ہی ظالمان ہیں۔ ان کے پیچھے غیرملکی ہاتھ ضرور کارفرما ہیں لیکن غیر ملکیوں سے سوچ سمجھ کر وہ روپیہ اور اسلحہ قبول کرتے ہیں۔ وہ منشیات کی سمگلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے مرتکب ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اتنی بڑی گمرہی کا شکار وہی ہو سکتا ہے، جس نے خود کو بیچ ڈالا ہو۔ اقتدار کے لیے، دولت اور انتقام کے لیے، اپنی آخرت کا دنیا سے سودا کر لیا ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے دل پتھر ہوتے ہیں۔ وہ پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہیں، جس کی تشکیل میں آپ کے جلیل القدر والد کا گراں قدر حصہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کانگریس کے حلیفوں سے اپنا رشتہ انہوں نے الگ کر لیا تھا۔ ان کی اولاد مخمصے کا شکار کیوں ہے؟
اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ سمجھانے پر بھی اگر وہ نہ سمجھیں تو چن چن کر ان کا خاتمہ کر دو؛ حتیٰ کہ زمین ان کے وجود سے پاک ہو جائے۔ اس کے بعد تاویل اور تامّل کیا؟
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق