مستحکم پاکستان میں شرح نمو 15 سے 20 فیصد ہو سکتی ہے۔ یہ ہے اصل نکتہ۔ فعال طبقات کو چاہیے کہ اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کو مسلسل اور پیہم اس طرف متوجہ کرتے رہیں۔ خارج نہیں‘ ہمارے مسئلے کا تعلق اندرون سے ہے۔
کوئی دن کے لیے صدر اوباما کا دورۂ بھارت ذہنوں پر چھایا رہے گا۔ میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سامنے کے واقعات کو گاہے وہ غیرمعمولی طور پر اجاگر کر دیتا ہے۔ اس دورے کی اہمیت عملی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔
مبصرین کرام کے نزدیک امریکہ اور بھارت کی تزویراتی شراکت بہت اہم ہے۔ وہ تو مگر پہلے سے کارفرما ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ساتھ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ پچیس تیس کروڑ پر پھیلا اس کا درمیانہ طبقہ جو مالی وسائل رکھتا ہے‘ امریکی سرمایہ داروں کے لیے اس میں یقینا بڑی کشش ہے۔ جدید عالمی معیشت میں‘ ایک دوسرے پر اقوام کا انحصار ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ایک طرف چین کے خلاف امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ دوسری طرف امریکہ چین کو مشتعل کرنے کا متحمل نہیں۔ زرمبادلہ کے چینی ذخائر میں پانچ سو بلین ڈالر شامل ہیں۔ کسی طرح وہ ان سے دستبردار ہو جائے تو ڈالر کی قیمت میں کمی آ سکتی ہے‘ بہت زیادہ کمی۔ چین کی سستی درآمدات پر امریکی معاشرے کا انحصار اب مستقل ہے۔ امریکیوں کا کہنا یہ ہے کہ ''چین کے بغیر تو اب ہم کرسمس بھی نہیں منا سکتے‘‘ اس لیے کہ کرسمس ٹری تک چین سے درآمد ہوتے ہیں۔
بحرالکاہل میں چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے امریکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ بھارتی معیشت فروغ پذیر ہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے کی پیش گوئی یہ ہے کہ امسال بھارت کی شرح ترقی‘ چین سے زیادہ رہے گی۔ فروغ پذیر بھارت زیادہ بڑے عالمی کردار کا خواب دیکھتا ہے۔ اجتماعی لاشعور میں یہ خواب مہا بھارت سے جڑا ہے۔ تین ہزار سال پہلے کا وہ زمانہ ہندوستان جب دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال معاشرہ تھا۔ یوں تو انیسویں صدی کے آغاز تک صورتِ حال یہی تھی۔ پال کینیڈی کے مطابق 1801ء میں ہندوستان پوری دنیا کے وسائل میں سے 24 فیصد کا حامل تھا۔ معیشت تب زراعت‘ گلہ بانی‘ بحری جہاز سازی اور پارچہ بافی کے علاوہ دستکاریوں پر مشتمل تھی۔ صنعتی انقلاب نے پھر دنیا کو بدل ڈالا۔
ایک ارب آبادی کے ساتھ بین الاقوامی قوت بننے کے لیے بھارت کو صرف سیاسی استحکام درکار ہے۔ اس کی افرادی قوت ذہین افراد پر مشتمل اور اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ بین الاقوامی حالات اس کے لیے سازگار ہیں۔ مغرب کو مالیاتی اداروں‘ عسکری قوت اور ذرائع ابلاغ کے بل پر غلبہ حاصل ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں‘ جو مغربی اقدار کا مخالف مانا جاتا ہے‘ امریکہ اور یورپ میں بھارت کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔ امریکہ اور صنعتی طور پر طاقتور دوسرے ممالک میں اسرائیل کا رسوخ ہے‘ بقا کی جبلت جسے حرکت میں رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان ایسے مسلمان ملک کے مقابلے میں جو ایٹمی قوت رکھتا ہے اسرائیل‘ بھارت کا ہمنوا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ علیحدگی کی اٹھارہ تحریکیں سرگرم عمل ہیں اور ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ حکومت ہی نہیں اکثریتی آبادی کا رویّہ بھی المناک حد تک امتیازی ہے۔ بیس سے پچیس فیصد آبادی کے باوجود سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ کاروبار میں اس سے کچھ ہی زیادہ ہوگا۔ تعصب کا عالم یہ ہے کہ ممبئی شہر میں مسلمان اداکاروں تک کو کرایے کا مکان حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ بھارت کے تقریباً تمام ہی پڑوسی ممالک اس سے نالاں رہتے ہیں۔ بھارتی معاشرہ اس وسیع الظرفی سے محروم ہے‘ جس کے بل پر آہنگ پیدا ہوتا اور نمو کا باعث بنتا ہے۔ غلامی کے ایک ہزار برس گزرنے کے بعد ہندو نفسیات میں انتقام کا جذبہ غالب ہے۔ اس کا ہدف مقامی مسلمان ہیں اور پاکستان بھی۔
جان کیری کے حالیہ دورے میں‘ پاکستان کے فراہم کردہ ٹھوس ثبوت نریندر مودی کو دکھائے گئے‘ جن سے یہ الزام ثابت ہو گیا کہ پشاور کے سکول میں قتل عام کرنے والے مولوی فضل اللہ سمیت‘ دہشت گردوں کی وہ مدد کرتا ہے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی بھی۔
دورۂ امریکہ میں‘ جنرل راحیل شریف نے یہ ثبوت امریکیوں کو فراہم کیے اور انہیں تسلیم کر لیا گیا۔ افغانستان میں صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ امریکیوں کو آخرکار احساس ہوا کہ پاکستان کی خوش دلانہ تائید کے بغیر اس ملک میں امن و استحکام کا حصول ممکن نہیں۔ رائے عامہ کے دبائو پر اپنی افواج واپس لے جانے کی آرزو مند امریکی حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اسلام آباد کو آسودہ کریں۔ اسی لیے افغانستان میں چین کا کردار بھی تسلیم کیا گیا۔ حال ہی میں طالبان کے وفود نے دو بار چین کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا کہ افغان سرزمین پر بھارتی کردار محدود کیا جائے۔ چین کو اس لیے بھی شامل کیا گیا کہ پاکستانی اس پر اعتماد کرتے ہیں۔
منصوبہ یہ ہے کہ طالبان کو افغان حکومت کا حصہ بنایا جائے اور گلبدین حکمت یار کو بھی۔ انہیں کچھ اہم وزارتیں دی جائیں۔ افغانستان سے رسوا ہو کر نکلنے پر بھارتی ناخوش ہیں۔ ان کے تجزیہ کار دو نکات پر زور دے رہے ہیں۔ اول یہ کہ بھارتی قیادت صدر اشرف غنی کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ ثانیاً یہ کہ فی الحال خاموشی اختیار کر کے اسے موزوں وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے تضادات کے طفیل پاکستان بے نقاب ہو جائے گا اور افغان اسے گوارا نہ کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہ حد سے زیادہ سادہ توجیہ ہے۔ افغانوں کے ساتھ پاکستان میں آباد مسلمانوں کے مراسم ایک ہزار برس پر پھیلے ہیں۔ ان کے اور ہمارے ہیرو مشترک ہیں۔ باہمی تعاون میں ان کی بقا ہے۔ ثانیاً گزشتہ تین عشروں کے تجربات سے پاکستان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ افغانستان میں اس کی حیثیت اب مداخلت کار نہیں بلکہ مددگار کی ہے۔ مستقبل میں اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں‘ پھر یہ کہ ہر قوم کے اپنے مفادات ہوتے ہیں مگر تصادم پیدا کرنے والی نفرت کے فروغ کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اذیت کے مہ و سال اعتدال کا جذبہ پیدا کرتے اور احتیاط کرنا سکھاتے ہیں۔
سول مقاصد کے لیے بھارت اور امریکہ میں ایٹمی تعاون کے معاہدے کا چرچا بہت ہے۔ یہ تو پہلے سے موجود ہے۔ اس کے باوجود کسی امریکی سرمایہ کار نے بھارت کا رُخ نہیں کیا۔ قانون ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ کہ اگر آبادی کو کبھی نقصان پہنچا تو تلافی کرنا ہوگی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اس قانون میں ترمیم ہوتی ہے۔
ٹھیک اس موقع پر جنرل راحیل شریف کو چین مدعو کرنے اور اس اعلان کا مقصد کیا ہے کہ پاکستان چین کا تزویراتی حلیف ہے۔ یہ پاکستان کی طرف سے ایک پیغام ہے اور چین کی طرف سے بھی۔ با ایں ہمہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ داخلی سلامتی‘ سکون اور قرار ہے۔ معدنی وسائل‘ غیر معمولی افرادی قوت اور دوسرے مثبت نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو ایک مستحکم پاکستان میں شرح نمو 15 سے 20 فیصد ہو سکتی ہے۔ یہ ہے اصل نکتہ۔ فعال طبقات کو چاہیے کہ اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کو مسلسل اور پیہم اس طرف متوجہ کرتے رہیں۔ خارج نہیں‘ ہمارے مسئلے کا تعلق اندرون سے ہے۔