پاکستان ایک عجیب ملک ہے۔ بری طرح برباد ہے‘ مگر سب سے بڑھ کر اسے آباد ہونا ہے۔ شک کی کیا بات‘ اللہ کے آخری رسولؐ کی بشارت موجود ہے۔ جو نہیں جانتے‘ وہ نہیں جانتے۔
کچھ دیر پہلے امید کی کرن پھوٹی تھی۔ ٹی وی پر اب ایک منظر دکھایا جا رہا ہے۔ ایک شادی میں کھلے عام فائرنگ۔ کیسا یہ مسخرہ پن ہے۔ حکومت کہاں ہے، پولیس کہاں سوئی پڑی ہے۔ کچھ دیر میں شاید ایک خبر نشر ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا‘ افسر معطل کر دیئے گئے۔ اس طرح کام کیسے چلے گا اور کب تک چلے گا۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔ جرم کا خاتمہ تبھی ممکن ہے‘ اگر مجرم خوف زدہ ہوں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جہاں احتساب نہیں ہوتا‘ وہاں امن اور انصاف بھی نہیں ہوتا۔ ریاست جہاں قانون نافذ کرنے پر مصر نہ ہو‘ وہاں من مانی کرنے والے چھوٹے بڑے گروہ فروغ پاتے رہتے ہیں‘ حتیٰ کہ سماج کی ردا پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ کیکر کی شاخوں میں الجھی ہوئی دھجیوں ایسی زندگی۔
شہر کے نواح میں‘ یہ انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی۔ وزیراعظم‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ وزیراعلیٰ اور ملک بھر سے منتخب لوگ۔ پریڈ کا معیار ایسا کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ حبیب اکرم بولے: کسی طرح بھی فوج سے کم نہیں۔ کاکول اکیڈمی کی خیرہ کن تقاریب یاد آتی رہیں‘ تعداد اگرچہ کم تھی؛ اگرچہ کوئی گھڑسوار نہ تھا اور آتش بازی کا موقعہ نہ تھا‘ آسمان جب بقعۂ نور ہو جاتا ہے۔ وہ شہسوار جن میں اقبالؔ کے اشعار متشکل نظر آتے ہیں۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
بیچارگی ہوتی ہے یا بندگی۔ جب واقعی بندگی ہو تو آدم زاد کو گویا خدائی میں سے حصہ ملنے لگتا ہے۔ ظلم کے خلاف جو اٹھتا ہے اور جاں نذر کرنے کا ولولہ پالتا ہے‘ اس کی روح میں ابدیت کا نور جھلک اٹھتا ہے۔ بائبل ان کے بارے میں یہ کہتی ہے: وہ زمین کا نمک ہیں۔ آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: اللہ کی راہ میں جو مارے گئے‘ انہیں مردہ نہ کہو۔ وہ زندہ ہیں مگر ان کی زندگی تمہارے شعور اور ادراک کی حد سے آگے برپا ہے۔
سٹیج سیکرٹری اقبالؔ کے اشعار پڑھتا ہے۔ ''شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی‘ جہاں داروں کی‘‘۔ ہاں! کبھی ہم ایسے ہی تھے۔ کبھی مصر و شام اور ا یران میں ہمارے قافلے اترے تھے۔ کبھی سپین کی سرزمین پر۔ کبھی ہندوستان ہمارے وجود سے منوّر ہوا تھا۔ پھر ہم تاریخ کا کوڑے دان کیسے ہو گئے؟ شاید آج ہم بنی نوع انسان کا کمزور ترین حصّہ ہیں۔
اپنے آپ سے میں پوچھتا ہوں اور سورہ حشر کی ایک آیت یاد آتی ہے: اللہ کو جو بھلا دے‘ وہ ا سے اپنا آپ بھلا دیتا ہے۔ قوانین قدرت کا شعور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ادنیٰ مفادات اور پست خیالات کی وادیوں میں آدمی بھٹکتا پھرتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا‘ بدترین حکمران تب سزا کے طور پر مسلّط کر دیئے جاتے ہیں اور دعائیں قبول نہیں کی جاتیں۔ اگر امانت و دیانت ہی نہیں‘ اگر صداقت و ایثار نہیں تو ایمان کا کیا دعویٰ۔ قدرت کا کوئی لاڈلا بچہ نہیں ہوتا۔ پروردگار ناانصاف نہیں کہ رعایت کرے یا کسی کی ریاضت ضائع کردے۔ مسلم اور غیر مسلم پر اس کے قوانین کا اطلاق یکساں ہوتا ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔
کالی وردیوں میں ملبوس‘ بانکے سجیلے جوانوں کی پریڈ نے جادو سا جگا دیا۔ تقاریر اور پھر فوجی افسروں کے ساتھ تبادلۂ خیال سے انکشاف در انکشاف ہوتا ہے۔ اوّل یہ کہ انتخاب کے عمل میں سفارش کا عمل دخل ہرگز نہ تھا‘ ثانیاً کورس کا معیار اعلیٰ تھا‘ ثالثاً تربیت دینے والے فوج اور پولیس کے بہترین افسر تھے۔ اسلحہ اچھا‘ سازو سامان عمدہ... ہاں! اور سخت کوشی ؎
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے جامِ زندگانی انگبیں
اس خیال سے دل دکھتا رہا کہ ہم نے کس قدر تاخیر کردی۔ تقریباً تمام سول ادارے تباہ حال ہیں۔ مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں: دو اچھے ادارے انگریز چھوڑ گئے تھے‘ ریل اور فوج۔ ریل برباد ہوئی‘ فوج بچ گئی‘ پھر وہ اضافہ کرتے ہیں: خواجہ سعد رفیق اسے بچانے پر تلے ہیں۔ ایک اخبار نویس شکایت کرتا ہے: فوج سیاستدانوں کو کام کرنے نہیں دیتی۔ کیا سعد رفیق کو فوج نے روک دیا ہے؟ اسی طرح کا کوئی آدمی پولیس کو سنوار دے۔ سول سروس کو؟ پٹوار کو؟ ٹیکس وصول کرنے والوں کو؟ ترک سیاستدانوں کی گردنوں پر ان کی سپاہ سوار تھی۔ امریکہ اور اسرائیل کی حلیف۔ ترکوں نے اس سے نجات پائی مگر کس طرح؟ پیہم خدمت سے‘ اخلاقی بلندی سے۔ ہماری فوج تو ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ کوئی سلیقہ مند ہو تو سول اداروں کی تعمیر میں اس سے مدد لی جا سکتی ہے‘ تعلیم‘ صحت سبھی کچھ۔ دہشت گردی کی طرح۔ وہ اس ملک اور معاشرے کا حصہ ہیں۔ لیکن اگر پرویز رشید ایسے لائق وکیل آپ نے مقرر کیے ہوں؟ مخالفین کی توہین سے نہیں‘ زندگی علم اور حکمت سے سنورتی ہے۔
وزیراعظم آج تازہ دم ہیں۔ غم اور ا لجھن سے آزاد نظر آئے۔ چہرے پہ شگفتگی اور بدن بولی میں آسودگی ہے‘ وزیراعلیٰ بھی۔ پسِ پردہ کیا کچھ پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا یہ پٹرول اور بجلی کا بحران ٹل جانے کی مسرت ہے‘ پٹرول سستا کر دینے کی یا اس سے کچھ زیادہ؟ چودھری نثار کیوں متفکّر سے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست کے خم و پیچ کو سب سے زیادہ سمجھنے والا آدمی۔ وزیراعظم پر یہ راز کب کھلے گا کہ بدنظمی کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے اہلِ ہنر درکار ہیں۔ چودھری سرور کو انہوں نے کھو دیا‘ کیا ایک دن چودھری نثار کو بھی وہ کھو دیں گے؟ چودھری سرور کے فولاد کو رانا ثناء اللہ نے موم کردیا۔ چودھری نثار کے باب میں یہ کیسے ممکن ہوگا؟
میرے ایک سابق مدیر میرا ہاتھ پکڑ کر وزیراعظم کے پاس لے جاتے ہیں۔ میاں صاحب! ماضی کو بھلا دینا چاہیے۔ میں حیرت زدہ ہوں۔ مجھے صدمہ پہنچا۔ اس حقیر نے کب ان کی مدد کرنے کی کوشش نہ کی‘ جب وہ سچے تھے۔ 2008ء میں جب نون لیگ دھاندلی کا ہدف تھی تو سب سے زیادہ کون چیخا چلاّیا تھا۔ اس سے پہلے جب انہیں اغوا کر کے جدّہ لے جایا گیا؟ جب پنجاب میں شہباز حکومت برطرف کی گئی؟ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کا اگر وہ تہیہ کر لیں تو کیا ہم ان کی مدد نہ کریں گے؟ یہ فقط ان کا مسئلہ تو نہیں۔ بحیرۂ عرب کے ساحل سے چترال تک‘ ایک ایک بچے کی زندگی خطرے میں ہے۔ پرلے درجے کا کوئی خودغرض اور جاہل ہی اغماض برت سکتا ہے۔ وزیراعظم سے مجھ ناچیز کا اختلاف کیا ذاتی ہے؟ میاں شہبازشریف سے عرض کیا تھا۔ میری کسی ذاتی خطا پر وہ ناراض ہیں تو میں معافی مانگ لوں گا‘ کالم میں‘ ٹی وی پر۔ سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی‘ اپنی رائے سے مگر کوئی دستبردار کیسے ہو۔ اگر اس کا کوئی ضمیر ہو‘ اللہ پر اگر اس کا ایمان ہو۔ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب نے ارشاد کیا تھا: اپنے خیال کو جو کسی کے خیال سے بدل سکتا ہے‘ ایک دن وہ اپنے خدا کو کسی کے خدا سے بدل لے گا۔
وزیراعلیٰ کے گرد جمگھٹا ہے۔ ایک سے ایک خوش گفتار۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے نظریاتی ابہام دور کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ اسلام کا نام لینے والے قاتلوں اور ان کے ہمدردوں کے بارے میں ایک لفظ بھی کیوں نہ کہا؟ ان کی خدمت میں عرض کیا: جب تک یہ نہ ہوگا اور جب تک پولیس کی اصلاح نہ ہوگی‘ یہ جنگ جیتی نہ جا سکے گی۔ اگرچہ بجائے خود یہ ایک مبارک قدم ہے۔
راز کی بات یہ ہے کہ اس ملک سے بے وفائی کرنے والا ہر حکمران برباد ہوتا رہے گا اور آخر کار بہترین لوگ آئیں گے۔
پاکستان ایک عجیب ملک ہے۔ بری طرح برباد ہے‘ مگر سب سے بڑھ کر اسے آباد ہونا ہے۔ شک کی کیا بات‘ اللہ کے آخری رسولؐ کی بشارت موجود ہے۔ جو نہیں جانتے‘ وہ نہیں جانتے۔