عظیم الشان ٹیپو سلطان کی کوئی اور خوبی نہ سہی مگر ایک معاملے میں ضرور ہم اس کے پیروکار ہیں کہ غداروں کو معاف کرنے پہ ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں ۔
پاکستانی میڈیا کوایک عجیب بیماری لاحق ہے ۔کسی بھی وقت وہ کچھ بھی شائع کر سکتاہے ۔ چھوٹے یابڑے ،کسی ایک بھی ملک میں اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ بعض اردو اخبارات میں ادھوری اور بے تکی خبریں چھپتی ہیں ۔ ایسے وقائع نگار ، فوج اور ایجنسیوں سمیت جو سرکاری اداروں کی ساخت کو سمجھتے نہیں ۔ ادھرانگریزی اخبارات میں ایک ایسا طبقہ ابھر آیا ہے ، جو اپنے وطن کو غیر ملکیوں کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتاہے ۔
ان میں سے کچھ تو احساسِ کمتری کے ہولناک مریض ہیں۔ کچھ بین الاقوامی پریس سے متاثر ،جس میں صہیونی رسوخ گہراہے ۔ بعض مغربی ادارے پاکستانی این جی اوز کی مدد کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک جار ج سورس ہیں ، مہاتیر محمد نے جنہیں ملائیشیا میں عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ امریکہ میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے ان سے ملاقات کی تھی ۔ نون لیگ کی حمایت میں سرگرم ایک اخبار نویس موصوف کی این جی او کے تنخواہ دار ہیں ۔ انگریزی اخبارات کے لکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان مشکوک اداروں کے لیے کام کرتی ہے ۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے ؟ غیر جانبداری کیا یہ ہوتی ہے کہ اپنے وطن کے بارے میں لاتعلقی اختیار کر لی جائے ؟کیا کبھی وہ غور کرنے کی فرصت پاتے ہیں کہ بھارتی اخبار نویسوںکا رویہّ یکسر متضاد کیوں ہے ؟ اپنے قومی مفادات، بالخصوص دفاعی شعبے کے بارے میں وہ بے حد حسّاس ہیں ۔
امریکہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر کا وعظ میرے پسندیدہ انگریزی اخبار میں صفحہ ء اوّل پر چھپا ہے ۔خبر نام کی کوئی چیز اس میں نہیں ۔ ایک کے بعد دوسری حکومت سے ہر ممکن فائدہ اس شخص نے اٹھایا۔مشرف دور میں دال نہ گلی تو امریکہ چلا گیا۔ زرداری صاحب اقتدار میں آئے تو واشنگٹن میں اسے پاکستان کی نمائندگی سونپ دی گئی ۔پوچھا گیا تو جواب یہ تھا: ممتاز امریکیوں کے ساتھ وہ زرداری صاحب کے رابطے کا ذریعہ تھا ۔کس کے ایما پر وہ حرکت میں تھا؟ سپریم کورٹ میں غدّاری کا مقدمہ اس کے خلاف قائم ہے ۔موبائل فون عدالت میں پیش کرنے کا اسے حکم دیا گیا تو صدزرداری کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔ جنرل کیانی اس معاملے میں اتنے سنجیدہ تھے کہ اسے منصب سے الگ کرنا پڑا۔عسکری قیادت کی رائے میں واضح طور پر وہ غدّاری کا مرتکب تھا ۔ پینٹا گان اور واشنگٹن کی خواہش پر اس نے آٹھ ہزار مشکوک امریکیوں کو ویزے جاری کیے ۔وہی بلیک واٹرکے لوگ جوپاکستان میں جاسوسی کا جال پھیلانے آئے تھے۔
سپریم کورٹ میں جنرل کیانی نے بیان داخل کیا تو وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسے آئین اورقانون کی خلاف ورزی کہا۔ صابر جنرل کیانی اس روز سخت برہم تھے کہ حکومت ایک غدّار کی پشت پناہی پر تلی ہے ۔جب ان سے کہا گیا کہ وزیرِ اعظم کے بیان کا وہ جواب نہ دیں تو انہوں نے کہا : میں اپنے ہاتھ سے بیان لکھوں گا اور پریس کو وہ جاری کیا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا ۔ وزیرِ اعظم سے انہوں نے یہ کہا :الزام ثابت کیجیے یا اپنے الفاظ واپس لیجیے ۔ خوف سے کانپتے ہوئے یوسف رضا نے اپنا بیان واپس لے لیا۔خاموشی کا مشورہ دینے والوں کو تب اندازہ ہوا کہ اگر وہ چپ رہتے تو ملک کو نقصان پہنچتا ۔ خود مجھ سے انہوں نے کہا : دیکھو، کس طرح وزیرِ اعظم اپنی ایڑیوں پر پھر گئے ۔پھرنا ہی تھا۔ ایک جھوٹے موقف پر وہ کیسے کھڑے رہتے؟اپوزیشن لیڈرمیاں محمد نواز شریف اس روز کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچے تھے ۔ عدالت میں ان کاشاندار استقبال ہوا تھا۔ اب خدا جانے وہ کیوں خاموش ہیں ؟ خدا جانے مسلّح افواج کی قیادت کیوں چپ ہے؟... اور عدالتِ عظمیٰ ہی جانتی ہے کہ اس معاملے کو سردخانے میں کیوں ڈال دیا گیا ۔ وہ تو واپس آنے کا وعدہ کرکے امریکہ روانہ ہوا تھا۔ میڈیاتو بادشاہ ہے ، انڈے دے یا بچّے ۔
پرسوں پرلے روز میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ مسلّح افواج کی طرف بڑھنے والے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے ۔ بیرونی دشمنوں سے فوج خود نمٹتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ پاکستانی شہریت رکھنے والوں کی جانب تھا۔کمال یہ ہے کہ ان میں سے ایک کا نام گورنر پنجاب کے طور پر لیا جارہا ہے ۔حسنِ اتفاق کہ میمو سکینڈل میں یہی محترمہ سابق سفیر کی وکیل تھیں ۔ ایک کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیاگیااور اب بھی وہ اکرام و الطاف کا سزاوار ہے ۔ان کی بیگم صاحبہ نون لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بننے کی آرزومند ہیں کہ شاہی خاندان سے تعلق استوار ہے ۔ ایک وہ ہیں ، جنہوں نے پاکستان دشمنی کے عوض بنگلہ دیش سے تمغہ پایا۔ شہباز شریف پہلے کس کا ہاتھ توڑیں گے ؟ کیا بھارت نواز اخبار نویسوں کے سرپرست وفاقی وزیر کا ، جو اللہ ، رسولؐ کا نام لینے والے ہر اخبار نویس کو ناپسند کرتا ہے ؟ خادمِ پنجاب کم از کم نمک پاشی تو نہ کریں ۔
مغربی اخبارات میں چھپے تجزیوں کے نکات پر مشتمل، انگریزی اخبار میں چھپے وعظ کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت سے برابری کا خواب پاکستان کو ہرگز نہ دیکھنا چاہئے ۔ ثانیاً ایٹمی پروگرام کی تشکیل کے بعد اب ہندوستان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے دوران، ڈیڑھ لاکھ فوج جب مغرب میں مصروفِ عمل تھی ، جس نے بارود کی بارش کر دی تھی۔ نقشے پر مشکل سے دکھائی دینے والا جاپان اگر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن سکتاہے تو پاکستان کیوں معاشی میدان میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کا خواب نہ دیکھے ؟ ہم نے کب کہا کہ جغرافیے کی وسعت یا آباد ی میں ہمیں بھارت کا ہم پلّہ قرار دیا جائے ؟مگر جب پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کی جائے تو کیا اس پر حرفِ شکایت بھی گناہ ہے ؟ بھارت اگر اس طرح کا طعنہ دے تو قابلِ فہم مگر کوئی پاکستانی ایسا کیوں کرے گا؟ امریکہ جب بھارت کو تزویراتی حلیف قراردیتاہے، سلامتی کونسل میں مستقل نشست اور نیوکلئیر سپلائر گروپ میں شمولیت کی حمایت کرتاہے (چینی مخالفت کی وجہ سے اگرچہ اندیشہ نہیں )تو کس پہ زد پڑتی ہے ؟ جنرل کیانی سے مائیکل ملن نے کہاتھا: پاکستان کی دفاعی پالیسیوں کا محور بھارت ہے ۔ انہوں نے سوال کیا: بھارت نے اپنی تمام تر افواج کو پاکستان کے خلاف کیوں صف آرا کر رکھاہے ؟ بھارت ہمارا ہدف ہے یاہم بھارت کا ؟ سابق سفیر سے معقولیت کی کوئی توقع ہوتی تو ان سے پوچھا جاتا کہ چند سال میں بھار ت کا دفاعی بجٹ 47بلین ڈالر تک کیوں جا پہنچا ؟ اس کامقصد کیا ہے ؟ چین کو فتح کرنا ؟
صدر اوباما سے پہلے جان کیری دہلی پہنچے تو وزیرِ اعظم مودی سے پوچھا کہ وہ پشاور میں کمسن بچوں کے قاتل مولوی فضل اللہ کی مددکیوں کر رہے ہیں ؟ امریکیوں نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھارتی مداخلت کے شواہد بھی دکھائے ۔جنگ نہیں تو یہ اور کیا ہے ؟ سفیر صاحب اس راز سے کیا بے خبر ہیں کہ کراچی میں دو عشروں سے جاری خوں ریزی میں بھارت ایک فریق ہے ۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ بلوچستان میں بجلی اور گیس کا نظام تباہ کرنے کی حکمتِ عملی کارندے نہیں بنا سکتے ۔ یہ ان کی استعداد سے زیادہ ہے۔ یہ کام ''را ‘‘ کرتی ہے ۔ ملال اس آدمی پر نہیں ۔ کرائے کے کارندے ہر کہیں ہوتے ہیں ۔ افسوس ان سب پر ، جو اس بے سروپا ، مہمل اور غیر ذہین آدمی کی سرپرستی کرتے ہیں ۔
عظیم الشان ٹیپو سلطان کی کوئی اور خوبی نہ سہی مگر ایک معاملے میں ضرور ہم اس کے پیروکار ہیں کہ غداروں کو معاف کرنے پہ ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں ۔