زندگی کے وسیع و عریض سرسبز جنگل عقلِ عیار کی چراگاہ نہیں۔ اے صاحبانِ غور و فکر‘ ہرگز نہیں ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
کپتان کا کہنا ہے کہ حلقہ 122 میں دھاندلی کے ناقابلِ تردید ثبوت اب اسے مل گئے ہیں۔ بیس عدد فارم 14 ایسے ہیں، جن پر ایک ہی شخص کے دستخط ہیں۔ یہی سب سے اہم دستاویز ہوتی ہے۔ 50 عدد فارم پندرہ میں اندراجات غلط ہیں۔ ماہرین نے تصدیق کر دی ہے۔ اتوار کی شام اس نے مجھے بتایا کہ اب اپنے حق میں فیصلہ صادر ہونے کا اسے مکمل یقین ہے۔ اسی حلقے سے متصل صوبائی امیدوار شعیب صدیقی بھی یقینا ظفر مند رہیں گے۔
محترمہ شیریں مزاری، اسد عمر، ڈاکٹر علوی، شفقت محمود اور ہر چیز کو سہل سمجھنے والے نعیم الحق بھی موجود تھے۔ مختصر ترین الفاظ میں خان کو میں نے لاہور کی تقریب کا احوال سنایا‘ دوسروں کے علاوہ جہاں سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے بھی تشنہ سی گفتگو رہی تھی۔ جیسا کہ امید افزا ماحول میں ہوتا ہے، کپتان گپ شپ کی طرف مائل تھا۔ پینترا بدلا اور بولا: دکھاوا میرے بس کا نہیں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ایسی کسی کانفرنس میں شریک نہ ہوں گا، جہاں نواز شریف سے ہاتھ ملانا پڑے۔ ''کوئی ضرورت نہیں‘‘ میں نے کہا ''تمہاری اپنی پارٹی میں کافی جرائم پیشہ موجود ہیں، ان میں سے کسی کو بھیج دیا کرو‘‘۔ توجہ اس کی نہیں تھی۔ اسد عمر نے اسے متوجہ کیا کہ ؎
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا ''حاضرانہ‘‘ کیا
ایک بار پھر قہقہوں کا طوفان اٹھا۔ عرض کیا: کس الیکشن کی تیاری آپ کر رہے ہیں؟ پختون خوا اسمبلی کے بہت سے ارکان بک چکے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سینیٹ کے لیے خود تحریکِ انصاف کے بعض مقبول امیدوار بھی اپنے ارکان کو ادائیگی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ دو کروڑ روپے الگ کر دیے ہیں۔ ''ہمارے صوبے میں یہی ہوتا ہے‘‘ اس نے کہ ''مفت میں کوئی ووٹ نہیں دیتا‘‘۔ جن ارکان کو وہ روپیہ دے گا، الیکشن کے بعد ان کے نام بتا دے گا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا یہ اخبار میں چھاپ دیے جائیں؟ کیسی جمہوریت ہے، کیسی پست جمہوریت۔
جل بھی چکے پروانے‘ ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
فوج سے اقتدار سول کو منتقل ہوتا ہے تو امن و امان برباد ہونے لگتا ہے اور معیشت زوال پذیر۔ ساری دنیا میں سلطانیء جمہور سے نشوونما ہے، اس پاک سرزمین میں کیوں نہیں؟ جواب واضح ہے: سیاسی پارٹیوں کی غیر جمہوری تشکیل۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ سے اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا، ابو ذر، مانگنے والوں کو ہم منصب نہیں دیا کرتے۔ یہاں بھک منگوں کو ملتا ہے۔ خود نمائی کے مریض جو ذرا سی عزت کے لیے بہت سی بے عزتی گوارا کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ کیا ایسی ایک نئی سیاسی پارٹی قائم نہیں ہو سکتی، جو ان عوارض سے پاک ہو۔ ترکی اور ملائشیا کی مانند؟
ان دنوں بعض ممتاز سیاستدانوں سے تفصیل کے ساتھ بات ہوئی۔ ان سے گزارش کی کہ ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ نئی جماعت تشکیل دیجیے۔ خاصیت اس کی یہ ہونی چاہیے کہ اوّل روز اپنا منشور جاری کرے، یعنی اس سے قبل اپنے وجود کا اعلان ہی نہ کرے۔ جلسے، جلوسوں اور احتجاجی بیانات میں اپنی توانائی برباد نہ کرے۔ سال میں ایک دو بار اپنی قوّت کا مظاہرہ کرے، ایسا کرنا جب ضروری ہو جائے۔ سو پچاس، جتنے بھی ڈھنگ کے امیدوار میسر ہوں، ان کا اعلان کر دیا جائے۔ فوراً ہی کارکنوں کی مرحلہ وار تربیت کا آغاز ہو۔ بنیادی مسائل، دہشت گردی، پولیس، ٹیکس وصولی کے نئے نظام ، کراچی، بلوچستان، صحت، تعلیم، بجلی، گیس، ریل، سٹیل مل، نئے انداز کی سول سروس، سول فوجی تعلقات، کارگر انٹیلی جنس، نئے صوبوں کی تشکیل اور انتخابی اصلاحات پر کام کی ابتدا کر دی جائے۔ تحقیق کا بہت سا کام پہلے ہی ہو چکا۔ لاہور کے بعض تھنک ٹینکس نے قابلِ رشک ریاضت کی ہے۔ کتنی ہی گرہیں کھول ڈالی اور قابلِ قدر منصوبے تشکیل دیے ہیں۔ مثلاً طبّی کارواں۔ ایک ٹرالر ‘اس میں ڈاکٹر، ضروری مشینیں اور تین چار چنگ چی رکشے۔ دو اضلاع میں تجربہ ہو چکا۔ عمران خان کو میں نے بتایا کہ ایک متعلق شہسوار، جسے وہ خوب جانتا ہے، اس کے صوبے میں یہ نظام قائم کرنے پر آمادہ ہے؛ بشرطیکہ پرویز خٹک اینڈ کمپنی کو ناگوار نہ ہو۔
لازم نہیں کہ یہ پارٹی تحریکِ انصاف کی حریف بن کر ابھرے۔ ایک طرح وہ اس کی مددگار بھی ہو سکتی ہے۔ ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت بروئے کار آئے گی تو پی ٹی آئی کے تعلیم یافتہ اور پُرجوش کارکن اس سے رہنمائی پا سکیں گے۔ پیپلز پارٹی مٹ گئی۔ نون لیگ کا شعار یہی رہا تو آئندہ الیکشن میں اسے تحلیل ہو جانا ہے۔ ہر زمانے کے اپنے مطالبات ہوتے ہیں۔ نیا زمانہ ہمیشہ نئے تقاضے لے کر آتا ہے۔ ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ افسردہ روحوں اور مایوس لوگوں کی بات دوسری ہے۔ قرآنِ کریم نے مستقل قنوطیت کو قطعی الفاظ میں کفر کہا۔ ہر زندہ آدمی اقبالؔ سے متفق ہو گا۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اکیسویں صدی میں بیسویں صدی کے اوائل کی سیاست چل نہیں سکتی۔ خود سے آٹھ گنا بڑی معیشت کا ہمیں سامنا ہے، جو ہماری تباہی کا تہیہ رکھتی ہے۔ ملک میں مغرب کی پالی این جی اوز اور وہ ملّا کارفرما ہے، ببانگِ دہل جو قانون کی پیروی سے انکار کرتا ہے۔ 2640 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد ایک مستقل دردِ سر ہے۔ دونوں ملکوں کی مکمل ہم آہنگی کے بغیر جس سے نجات ممکن نہیں۔ ڈاکٹر اور وکیل، تاجر اور صنعت کار ٹیکس دیتے ہیں اور نہ حکومت وصول کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا عالم وہ ہے، ابرِ باراں میں جو غالبؔ کے گھر کا ہوا۔ ''ابر ایک پہر برسے تو چھت دو پہر برستی ہے‘‘۔ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے تبادلۂ خیال نصیب ہو تو آپ دنگ رہ جاتے ہیں کہ
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملّا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
اولوالعزمی کے ساتھ حکمت و تدبیر کی بجائے، خود کو ہم حالات کے حوالے کیے رکھتے ہیں یا پھر جھاگ اڑاتے ہوئے، طوفان بدوش، برسرِ بازار سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں۔ جی نہیں، چند باخبر، ہوش مند اور دانا آدمی ایک مکمل لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں۔ چند ماہ کی ریاضت سے، ماہرین کی مدد سے۔ غیرجانبدار اور انصاف پسند لوگ۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں پر تاکہ دبائو آئے۔ چند ہزار نوجوانوں کی تربیت کی جا سکے تو صبحِ کاذب سے صبحِ صادق کا نور پھوٹ بہے۔
امیرالمومنین ہارون الرشید دیر تک فضیل بن عیاضؒ کے دروازے پر کھڑے رہے۔ صاحبِ صدق و صفا، سفیان ثوریؒ کی سفارش پہ باریاب ہوئے۔ پریشان تھے، رہنمائی کی درخواست کی تو ارشاد ہوا: وہی بات جو کسی نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کو سجھائی تھی۔ رعایا میں سے بڑوں کو ماں باپ، ہم عمروں کو بہن بھائی اور چھوٹوں کو اولاد کی طرح جانو تو سفینہ ساحل سے جا لگے گا ‘ورنہ روزِ جزا تم پہ بھاری ہو گا۔ روایت ہے کہ ہارون رو دیا۔
علم ہی نہیں، حکمت ہی نہیں، اس سے پہلے خلوص اور ایثار کا پیمان۔ اللہ کا قانون دائمی ہے۔ اس میں کوئی استثنیٰ نہیں کہ خلوص کا ایک ذرّہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔
زندگی کے وسیع و عریض سرسبز جنگل عقلِ عیار کی چراگاہ نہیں۔ اے صاحبانِ غور و فکر‘ ہرگز نہیں ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی