پھر ایک نغمہ قلب کی گہرائیوں سے اٹھا۔ فبای آلاء ربکما تکذبٰن۔ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔
کل بارش برستی رہی اور بادلوں کا سائبان تنا رہا۔ ''اس ابر میں تمہارے لیے نشانی ہے ، زمین اور فلک کے درمیان جو معلق رہتاہے‘‘۔ بارش اپنے ساتھ ہمیشہ بیتے دنوں کی یادیں لاتی ہے لیکن سرمئی سرما میں ابر و باراں؟ اس افق سے اس افق تک اداسی کی چادر ماحول کو محیط ہو جاتی ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں مرحوم ایسے میں شعر پڑھا کرتے:
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لیے بہتی ہے
جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں
انسانی ذہن کی کائنات بہت پیچیدہ اور متنوع ہے ۔ رفتہ رفتہ جس کے راز کھل رہے ہیں او رصدیوں کھلتے رہیں گے ۔
تازہ ترین مطالعوں میں کچھ اور انکشافات ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب کوئی ایک نئے سپنے کا اسیر ہوتا اور اپنا پیشہ بدلتا ہے۔ جب کوئی ڈاکٹر‘ انجینئر بننے یا سائنس کا طالبِ علم لسانیات کا رخ کرتاہے تو ذہن کے کچھ مزید خلیے جاگ اٹھتے ہیں۔ جب کوئی قوم زندہ رہنے کا تہیہ کرلے ۔ جب کوئی معاشرہ صدیوں ، عشروں کی علالت سے نجات کا ولولہ پالے۔ ایک دوسری سٹڈی کے مطابق منشیات‘ ناپاک فلموں اور ڈپریشن سے ذہنی پولیو لاحق ہوتا ہے۔ کچھ خلیے بیکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن کو خطرناک مرض مانا جاتا ہے۔ علاج پر وقت بہت لگتاہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ۔ تحلیلِ نفسی اور ادویات کی اپنی اہمیت ہے۔ بعض ذہنی مریض اس کے بغیر شفایاب نہیں ہوتے۔ فرمایا: الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔ بے شک اللہ کے ذکر سے دل قرار پاتے ہیں۔ ہمارے عہد کا عارف اللہ تعالیٰ کے آٹھ دس نام تجویز کرتاہے اور دو تین دعائیں ، جو رحمتہ اللعالمینؐ کی زبان سے ادا ہو کر با برکت ہو گئیں ۔ دن میں تین بار، سات آٹھ منٹ۔ کسی مقام یا وضو کی قید کے بغیر۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کہیں بھی۔ آج تک ایک بھی ایسا نہیں دیکھا، جو شفایاب نہ ہو۔ بالکل معمول کی زندگی وہ گزارنے لگتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ اعتماد ان میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نیندگہری ہوتی جاتی ہے اور غصہ کم۔
سات برس ہوتے ہیں ، لاہور کے ایک کالج میں شعبۂ نفسیات کی سربراہ نے فون کیا۔ کہا: کندھوں میں درد رہتاہے اور طبیعت ماند۔ پوچھ کر دعا انہیں بتائی اور کچھ دن میں بھلی چنگی وہ ہو گئیں۔ حالانکہ ان کا اپنا شعبہ تھا۔ علاج انہیں معلوم تھا اور نہ مرض کاسبب۔ اندازِ فکر کا مسئلہ ہوتاہے ۔ طرزِ احساس میں کوئی خامی۔ اپنے آپ سے ہمدردی، غیر ضروری توقعات یا بے لچک روّیہ ۔ سیاستدانوں کو آپ دیکھتے ہیں کہ بات بے بات آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ منصب کی تمنا میں پاگل۔ اختلافِ رائے پر بے قابو۔ اپنے تضاد سے وہ آشنا نہیں ہوتے ۔ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے اور خارج میں وجوہ تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔ زندگی سے بے زار، ساری دنیا سے الجھتے رہتے ہیں ۔ لاہو رکا ایک دانشور ہے ۔ ذرا سا اختلاف کرو تو پھاڑ کھانے کو آتاہے ۔ بعض اوقات تو اتفاقِ رائے پر بھی ۔ ایک دوسرا مفکّر اس قدر خوف زدہ رہتاہے کہ محافظوں کا دائرہ بنائے بغیر سو نہیں سکتا۔ نظر انداز کرو تو بسورتا رہتاہے ، بعض اوقات گالی بکتا او رالزام تراشی پہ اتر آتاہے ۔ ذراسی توجہ دی جائے تو سر پہ سوار ہو جاتاہے ۔ اپناموازنہ نٹشے اور والٹیر سے کرنے لگتاہے ۔ آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ اس ذاتِ شریف کا کیا کریں ۔
کچھ بھی نہیں ۔ ایمان کا کوئی بدل نہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی خامیوں پر آدمی غور کرے ۔ ریاضت اور عاجزی اختیار کرے اور خواہشات دراز کرنے سے بچا رہے ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ لالچ کے ماروں کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ دولت کا انبساط سینت سینت کر رکھنے اور نمائش کرنے میں نہیں بلکہ بانٹ دینے میں ہوتاہے۔ پہلی ہی آیت میں قرآنِ کریم ہدایت کی جو تین شرائط بیان کرتاہے ،ان میں سے ایک یہ ہے ''اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ زندگی ایثار سے ہری ہوتی ہے۔ ارشاد ہے : وہ پوچھتے ہیں ، کیا خرچ کریں؟ ''قل العفو‘‘ ان سے کہہ دیجیے کہ جو زائد ہے۔ زائد کا بوجھ اٹھا کر آدمی شادکیسے رہے ۔
آج دو ماہ پورے ہو گئے ، جب ارادہ کیا کہ صبح سویرے اٹھنا چاہیے۔ پینتالیس برس سے شب کی نیند کبھی نصیب نہ ہوئی تھی ۔ صبح آٹھ بجے نشر ہونے والے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبریہ ہے‘‘ میں شرکت کی پیشکش کی ، جو خوشگوار حیرت کے ساتھ قبول کر لی گئی ۔ صرف یہ پوچھا گیا کہ اتنی سویر آپ اٹھیں گے کیسے؟ صبح چھ بجے کہ ایک گھنٹے میں تیاری کرکے گھنٹہ بھر میںسٹوڈیو پہنچیں ۔
اس روز میں کراچی میں تھا اور ہمیشہ وہ دن یاد رہے گا۔ ایک دانا دوست نے مشورہ دیا ۔ بارہ بجے چراغ بجھا کر لیٹ رہنا ۔ نیند اگر نہ بھی آسکی تو کچھ نہ کچھ آرام تو میسر آئے گا۔ حیران کن یہ کہ کچھ ہی دیر میں آنکھیں آپ سے آپ بند ہونے لگیں ۔ نیند اگرچہ بہت گہری نہ تھی مگر صبح کسی مشکل کے بغیر اٹھا۔ سجدہ ء شکر ادا کیا۔ کراچی کی شور او ردھویں سے بھری رہنے والی گلیوں میں اس وقت سکوت تھا اور داستان کہتی ہوا۔ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں ۔ امریکی تاریخ کا بھولابسرا کردار چیف سیٹل یاد آیا۔ ایک ریڈ انڈین قبیلے کاسردار۔ امریکی صدر کے نام ایک خط میں اس نے لکھا تھا : اگر پتوں کے جھومنے بجنے کی آواز سنائی نہ دے ۔ چہرے اگر تازہ ہوا کا لمس محسوس نہ کریں تو زندہ رہنے کے کیا معنی ہیں ؟ جنگلوں کی مقدس خاموشی جب آوازوں کی کثرت سے بھر جائے گی تو سکھ کہا ں رہے گا۔ جمالیاتی ساخت میںجوشؔ ملیح آبادی کا شعر ناقص ہے مگر ایک نادر مضمون کو متشکل کر دیاہے:
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
اپنے عزیز دوست علامہ صدیق اظہر سے ایک بار پوچھا: ہم سب کے بال سفید ہو گئے اور سر گنجے۔ عمر میں آپ ہم سے بڑے ہیں مگر بال سیاہ اور جسم تنومند۔ اس کا بھید کیا ہے؟ متفنی آدمی نے جواب دیا: بے شرمی‘ بات بات پہ تم لوگ کڑھتے ہو ۔ ہم کسی چیز کی پروا نہیں کرتے ۔ اب کھلا کہ بھید کچھ اور تھا ۔ علّامہ صاحب چھپا گئے تھے ۔ کیساہی موسم اور کیسے ہی حالات ہوں ، صبح سویرے وہ چمن میں ہوتے ہیں ۔ میر ؔصاحب نے کہا تھا: چلتے ہو تو چمن کو چلیے، سنتے ہیں بہاراں ہے۔ پات ہرے ہیں ، پھول کھلے ہیں ، کم کم بادو باراں ہے ۔ صبح کی پاکیزگی میں ہر موسم بہار کا موسم ہوتاہے ۔ کچھ پات ہمیشہ ہرے رہتے ہیں اور کچھ گل شگفتہ ۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
گلشن کاجمال دل و دماغ میں اترتا ہے تو زندگی جاگ اٹھتی اور اس پر کونپل پھوٹنے لگتی ہے ۔ عجیب وقت ہے کہ یادداشت کئی گنا زیادہ قوّت کے ساتھ بروئے کار آتی ہے ۔ مولانا روم کا مشہور نغمہ یہ ہے۔
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
آبِ رواں ، آلوچے کے شگوفے او رکہکشائیں تخلیق کرنے والے ''دوست‘‘ کی آواز سحر ہی سنائی دیتی ہے‘ شور و شغب سے بھرے چیختے چلاتے دن میں کھو جاتی ہے۔ فطرت کے جمال سے ہم آہنگ ہو کر ذہن یکسو ہو جاتا، رسان سے نتائج اخذ کرنے لگتاہے ۔ عارف نے کہاتھا : فطرت سے کوئی جتنا قریب ہوگا، اس میں اتنا ہی ردھم ہوگا ۔ جس قدر دور ، اتنا ہی اضطراب۔ جمالِ ہم نشیں رگ و پے میں اترتاہے اور قرار بونے لگتاہے ۔
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتاہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
فارسی کی حکایت یہ ہے : شاعر نے گلاب کی جھاڑی کے نواح میں پھول کی خوشبو پائی تو حیران ہوا ۔ مٹی سے پوچھا تو وہ بولی:
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
ہمسائیگی نے یہ جلوہ جگایا ہے وگرنہ میں تو وہی مٹی کی مٹی ہوں ۔
آج اسلام آباد میں بہار کاپہلا دن ہے ۔ سنہری دھوپ مارگلہ کی وادیوں میں دور دور تک پھیل گئی ہے ۔ پہاڑوں کے دامن جی اٹھے ہیں۔ پرند گیت گا رہے ہیں۔ راول جھیل کے کنارے یہ مسافر نیلے پانیوں میں ابدیت کا جلال دیکھتا ہے۔ چہار سمت اجالا ہے ، چہار طرف شادابی۔
پھر ایک نغمہ قلب کی گہرائیوں سے اٹھا۔ فبای آلاء ربکما تکذبٰن۔ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔