اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: ولکم فی القصاص حیٰوۃ یا اولی الالباب۔ اے وہ لوگو، جو ادراک کر سکتے ہو، جان لو کہ زندگی قصاص میں ہے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنے میں، مظلوم کی داد رسی میں۔
وزیر اعظم نے پچھلی بار شکایت کی اور اس دن کی جب شکار پور کا سانحہ ہوا تھا کہ قائم علی شاہ نے کھانا اچھا نہیں کھلایا۔ امید ہے اب کی بار اہتمام اچھا ہو گا۔ پورے ملک کے لیے پریشان کن سوال مگر یہ ہے کہ سندھ میں صورت حال بہتر ہو گی یا نہیں۔
ذوالفقار مرزا کے مطابق، انور مجید صاحب کی مدد سے بیس عدد شوگر ملیں زرداری صاحب خرید چکے۔ پولیس والوں کا کام یہ ہے کہ دوسرے کارخانوں کا رخ کرنے والی گنے کی ٹرالیاں بھی ان کی طرف پھیر دیں۔ نتیجہ معلوم۔ قابل اعتماد ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی پولیس کے لیے لگ بھگ بیس عدد بکتر بند گاڑیاں خریدنے کا جو منصوبہ ہے، وہ انہی انور مجید کے توسط سے انجام پائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کار خیر کے لیے ان کے صاحبزادے نے ایک کمپنی تشکیل دی ہے۔ پرانی ہیں، بوسنیا سے منگوائی جائیں گی۔ مارکیٹ میں دو سے تین کروڑ روپے میں مہیا، حکومت سندھ اٹھارہ سے بیس کروڑ ادا کرے گی۔ عرض کیا تھا کہ پولیس کے لیے دس ہزار کی بھرتی میں سے نصف کا اختیار وزراء کرام کو دے دیا گیا۔ تیس فیصد سرکاری ارکان اسمبلی اور بیس فیصد ان افسروں کو، امیدواروں سے جن کو نمٹنا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو فارغ کر دیا گیا کہ مبینہ طور پر اسے محترمہ فریال تالپور کی مرتب کردہ فہرست پر عملدرآمد میں دشواری محسوس ہوئی۔ روایت کے مطابق اس سے کہا گیا کہ نہ صرف زبانی بلکہ امیدواروں کو تحریری امتحان میں پاس کرانے کی ذمہ داری بھی وہ قبول کرے۔ نئے
چیئرمین اب یہ کارنامہ کیسے انجام دیتے ہیں، جلد ہی آشکار ہو جائے گا۔ رعایتی قیمت پر فراہم کرنے کے لیے پانچ ہزار ٹریکٹر درآمد کیے گئے۔ کیا یہ سب کے سب کاشتکاروں کو ملے؟ الزام ہے کہ زیادہ سے زیادہ بیس فیصد، باقی اپنے پسندیدہ لوگوں کے حوالے ہوئے یا بازار میں بکے۔ سندھ کا پریس اگر گونگا اور بہرہ نہیں تو جلد یا بدیر حقائق سامنے ہوں گے۔ صوبے میں تیزی سے پھیلتے کالے یرقان کی حفاظتی دوا، دو ارب روپے میں خریدی گئی۔ کیا اس کی مالیت یہی تھی یا اس سے کہیں کم؟ کتنے لوگوں کو ٹیکے لگائے گئے؟ تھر کے لیے مختص گندم اور پانی کی طرح وہ گودام میں پڑی ہے یا بازار میں بیچ دی گئی؟
بلوچستان کا قصہ الگ ہے۔ پنجاب اور پختونخوا سے سندھ کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ باخبر صحافی دعویٰ کرتے ہیں کہ اخبارات کے لیے جاری کیے جانے والے اشتہارات کا تیس سے پچاس فیصد پہلے ہی وصول کر لیا جاتا ہے۔ سندھ کے اکثر اضلاع میں ڈیڑھ سال کے اندر تین تین ڈی پی او تبدیل کیے جا چکے۔ خیر پور میں مبلغ گیارہ عدد۔ پیر صاحب پگاڑا شریف صبغت اللہ شاہ راشدی نے مجھے بتایا کہ ان کے چودہ سو حامیوں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ ستر سے زیادہ کے مقدمے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض کو گاڑیوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مقدمات پر اب تک وہ آٹھ کروڑ روپے صرف کر چکے۔ پوچھا یہ تھا کہ سندھ حکومت کے خلاف محاذ بنانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ اس پر تڑپ کر یہ کہا: اب اس سے زیادہ وہ اور کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے چھوٹے بھائی یونس سائیں نے جو سیاسی حرکیات کا ادراک خوب رکھتے ہیں، اضافہ کیا، جہاں کہیں وہ گئے جن لوگوں سے بھی رابطہ کیا، بعدازاں پولیس اور انتظامیہ ان پہ چڑھ دوڑی۔
ایک ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے بھی ایسی ہی بھیانک تصویر پیش کی۔ کہا کہ صوبے کو پیپلز پارٹی سے نجات ملنی چاہیے، جس پر دیوانگی سی طاری ہے۔ دیہی اور شہری سندھ کو مظالم کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔ بابر غوری، فاروق ستار اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنمائوں کو جو دو گھنٹے ان کے ساتھ رہے، سابق صدر نے مشورہ دیا کہ وہ اس حکومت کا حصہ نہ بنیں، جو عبرتناک انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ سندھ کے ہر قابل ذکر زمیندار کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔ آمادہ نہ ہو تو پولیس کے حوالے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، خود پارٹی بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ شہیدوں کے نام پر آئندہ ووٹ نہ ملیں گے؛ چنانچہ اب حکمت عملی مختلف ہے۔ کوئی قابل ذکر آدمی پارٹی سے باہر نہ رہے۔ کیا وزیر اعظم صورتحال سے بے خبر ہیں، سال گزشتہ پیر پگاڑا سے سیاسی اتحاد کی جو کوشش کرتے رہے، یونس سائیں بگڑ کر بولے: کمال کرتے ہیں آپ۔ ایک طرح سے ان کی رضا مندی اس سارے عمل کو حاصل ہے۔ سمجھوتہ یہ ہے کہ زرداری صاحب مرکزی حکومت کو تنگ نہ کریں گے۔ جواب میں ماضی میں انجام دیے گئے زرداری صاحب کے کسی بھی کارنامے کی باز پرس نہ ہو گی۔
پیپلزپارٹی کے اندر ناراضی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے ارکان موجود ہیں کہ سہارا ملے تو ایک بلاک بنانے کے لیے وہ تیار ہوں گے۔ خود بلاول بھٹو ناخوش ہیں؛ اگرچہ بعض اعتبار سے یکسر بے بس۔ ان کی حفاظت پر مامور ایک انگریز کے سوا باقی چاروں پاکستانی، زرداری صاحب کے دست راست منظور کاکا کے مقرر کردہ ہیں۔ خود ان کا بھائی گل قادر چیف سکیورٹی آفیسر ہے۔ بلاول کی ساری سرگرمیوں کی رپورٹ ہر روز والد گرامی کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔ انتہا یہ کہ بے چار ے کا سیکرٹری بھی جناب زرداری کی مرضی سے مقرر ہوا ہے۔
میڈیا میں چرچا یہ تھا کہ ذوالفقار مرزا کے علاوہ قادر پٹیل اور مخدوم امین فہیم، بلاول بھٹو سے ملاقات کے لیے برطانیہ پہنچے ہیں۔ مخدوم امین فہیم واقعی ناراض ہیں۔ ان کے ساتھ رہ و رسم رکھنے والوں نے تصدیق کی؛ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ جسارت فرمائیں۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے آدمی ہیں۔ رہے قادر پٹیل تو ابھی ابھی معلوم ہوا کہ لندن نہیں وہ دبئی میں براجمان ہیں۔ ایک باخبر اور ممتاز شخصیت نے دعویٰ کیا کہ خبریں غلط سہی مگر انہی کے ایما پر شائع ہوئیں۔ کس لیے؟ جواب یہ تھا: تاکہ وہ سودے بازی کر سکیں، حصہ رسدی وصول فرما سکیں۔
اگر اس پورے پس منظر میں اس اجلاس پر غور کیا جائے، وزیر اعظم کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جس میں شریک تھے؟ سپہ سالار کے چہرے پر تحفظات نمایاں تھے۔ زرداری صاحب بیزار، کچھ پریشان بھی۔ جنرل راحیل شریف سے منسوب کیا گیا کہ بڑے پولیس افسروں کا تقرر اس اعلیٰ کمیٹی کی رضا مندی سے ہو گا، جس میں وہ خود شامل ہیں۔ کہا گیا کہ اندرون سندھ بھی آپریشن کیے جائیں گے۔ کس طرح اور کہاں تک؟ عالم یہ ہے کہ ایران سے سمگل کردہ کروڑوں لٹر پٹرول اور ڈیزل بلوچستان اور سندھ پولیس کی ملی بھگت سے سندھ میں بکتا ہے۔ پٹرول پمپ اس کے خریدار ہیں۔ ماہ گزشتہ ایسے تین ٹینکر رینجرز نے جلاکر راکھ کر دیے۔ ایسی ایک بس پکڑی گئی، جس کی چھت پہ چالیس ہزار لٹر پٹرول لدا تھا۔ بسوں کے حادثات میں سب مسافروں کے جل مرنے کی خبریں آئیں، اس کا پس منظر یہی ہے۔
کراچی یا اندرون سندھ۔ قیام امن کے لیے سندھ حکومت سے کوئی امید وابستہ کرنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ اپنی عمر وہ پوری کر چکی۔ ایک موزوں مہلت اسے دی جا سکتی ہے اور دی جانی چاہیے۔ خود کو سنوارنے پر آمادہ ہو تو سبحان اللہ، ورنہ اس کا بستر اب گول ہو جانا چاہیے۔ گورنر راج، اسمبلی کی تحلیل یا کوئی بھی دوسرا جمہوری قرینہ۔ کہاں تک فوج مداخلت کرے گی۔ کس کس کی نگرانی فرمائے گی۔ رینجرز اور کتنا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: ولکم فی القصاص حیٰوۃ یا اولی الالباب۔ اے وہ لوگو، جو ادراک کر سکتے ہو، جان لو کہ زندگی قصاص میں ہے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنے میں، مظلوم کی داد رسی میں۔