"HRC" (space) message & send to 7575

جب لاد چلے گا بنجارا!

حبس حد سے بڑھ جائے تو خلق لُوکی دعا مانگتی ہے۔ یہ بھید ہمارے سیاستدانوں کو کیوں معلوم نہیں؟ دولت کی ہوس کیا یکسر دیوانہ کر دیتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کوئی دن میں طوفان دستک دے سکتا ہے... سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا‘ جب لاد چلے گا بنجارا!
اپیکس کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ سندھ پولیس میں اہم تقرر اس کی اجازت سے ہوں گے۔ اس کے بعد ملنے والی اطلاعات متضاد ہیں۔ ایک یہ کہ پالیسی تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔ سیاسی بنیاد پر دیے گئے عہدے واپس لے لیے جائیں گے۔ اچھے افسروں کی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں کہ انہیں ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ دوسرے صوبوں سے ڈھنگ کے افسر کراچی لے جائے جائیں گے اور رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے گا، جس کی قیادت سے حسنِ ظن ہے۔
اسی اخبار میں شائع ہونے والی دوسری دو رپورٹیں بالکل برعکس شہادت فراہم کرتی ہیں۔ ایک کے مطابق کمیٹی کے مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ شرجیل میمن نے کہا: اپیکس کمیٹی میں تقرریوں کے موضوع پر سرے سے بات ہی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ سندھ پولیس کا کردار زیرِ بحث آیا تو زرداری صاحب نے پیشکش کی کہ سلیکشن بورڈ میں رینجرز کا ایک نمائندہ شامل کر لیا جائے۔ خورشید شاہ کا اصرار بھی یہی ہے۔ اسلام آباد میں انہوں نے ارشاد کیا کہ اپیکس کمیٹی کا کام حکومت کرنا نہیں، محض نگرانی ہے۔ سیاسی کمیٹیوں کے ذریعے صوبے کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ خطرناک ہو گا۔ انہوں نے کہا ''موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سسٹم کو خراب ہونے سے بچائے۔ ایسے حالات نہ پیدا ہونے دے، جو ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوں‘‘ واضح طور پر شاہ صاحب کا اشارہ اس طرف ہے کہ صوبائی حکومتوں کو من مانی کی اجازت ہونی چاہیے۔ فوج کا کوئی تعلق امن و امان سے ہرگز نہیں ہونا چاہیے، جس کے سربراہ نے سندھ پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک کرنے کی بات کی تھی۔
ایک تیسری رپورٹ میں، جو پولیس کے تانے بانے سے زیادہ با خبر اخبار نویس نے رقم کی ہے، یہ کہا گیا ہے ''کوئی پولیس افسر حکمران جماعت کی ایک خاتون رہنما کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا‘‘۔ بتایا گیا ہے کہ جو افسر حکم عدولی کا ارتکاب کرتا ہے، اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ شکار پور کے ڈی پی او نادر جسکانی ایک مثال ہیں۔ سندھ کے لوگ کہتے ہیں کہ حالیہ تاریخ نے اس سے بہتر افسر نہ دیکھا اور ایسا امن کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ان سے پہلے تاجروں اور اقلیت کے مالدار لوگوں کو دن دیہاڑے اغوا کیا جاتا اور کھلے عام تاوان وصول کیا جاتا۔ مغویوں کو عقوبت خانوں میں رکھا جاتا اور سیاسی وڈیرے پولیس کی معاونت سے براہِ راست بات چیت کیا کرتے۔ پولیس افسر نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ وہ حکمران جماعت کا عہدیدار اور رکن صوبائی اسمبلی کا ڈرائیور ہے۔ تفتیش ہوئی تو اس نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ رینجرز کی طرف سے گرفتاری کا اندیشہ پا کر وڈیرے چھپ گئے۔ خاتون رہنما برہم تھی۔ ان کے حکم پر اس افسر کو الگ کر دیا گیا۔ معمول کا کاروبار پھر سے بحال ہو گیا۔
یہ خاتون رہنما کون ہیں؟ کیا وہ جناب آصف علی زرداری اور وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کے بغیر ہی یہ کارنامے انجام دے رہی ہیں؟
کچھ عرصہ قبل، کراچی شہر میں خدمات انجام دینے والے ایک فوجی افسر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: پولیس ہی نہیں، سیاست اور انتظام کے ہر میدان میں یہ خاتون سرگرمِ عمل ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت میں بھی۔ آزاد کشمیر کے افسروں تک سے داد کی نقد وصولی کے لیے، چوہدری ریاض نامی ایک شخص انہوں نے متعین کر رکھا ہے۔ وزیرِ اعظم کو وہ براہِ راست ہدایات دیا کرتی ہیں۔
کیا اپیکس کمیٹی کے فیصلے پر عمل ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں کراچی کے ایک معتبر افسر نے کہا: جلد ہی اندازہ ہو جائے گا۔ امتحان یہ ہو گا کہ ملیر کے ایس ایس پی رائو انور اپنے منصب پر موجود رہتے ہیں یا نہیں۔ کراچی کے باخبر صحافیوں سے بات کی تو ایک طلسمِ ہوشربا کا در کھلا۔ اگر ان کی بات مان لی جائے تو یہ صاحب ایران سے ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ میں ملوّث ہیں۔ قبضہ گروپوں سے ان کے تعلقات ہیں۔ علاقے میں جائیدادوں کی خرید و فروخت کا بہت سا کام ان کی نگرانی میں انجام پاتا ہے۔ بتایا گیا، ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ زرداری صاحب کے ذاتی مخالفین سے نمٹا جائے۔ ان میں سے بعض کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ کسی فارم ہائوس میں اس شخص کو محبوس رکھا جاتا ہے؛ حتیٰ کہ معاملہ طے پا جائے۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک الزام یہ ہے کہ ٹی وی اور اخبار میں جگمگانے والا یہ پولیس افسر بعض بے گناہوں کے قتل میں ملوّث ہے۔ ٹرانسپورٹروں کے باہمی جھگڑوں میں وہ دخل دیتا ہے۔ ان میں سے بعض کو ''طالبان‘‘ قرار دے کر اس نے مار ڈالا۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو کراچی کا پریس اور ٹی وی چینل اس کا اصل چہرہ کیوں نہیں دکھاتے؟ کوئی تحقیقات کیوں نہیں کرتا؟ کوئی سیاسی جماعت کیوں فریاد نہیں کرتی؟ اسے گرفتار کیوں نہیں کر لیا جاتا اور کوئی جے آئی ٹی کیوں تشکیل نہیں پاتی کہ اس کی فردِ عمل مرتّب کرے؟
جناب الطاف حسین بلدیہ ٹائون کے لیے بنائی گئی نئی جے آئی ٹی سے مطمئن نہیں۔ جنرل راحیل شریف سے انہوں نے فوجی افسروں کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کراچی میں کاروبارِ حکومت پیچیدہ ہے۔ مشتاق مہر نئی ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہی افسر، تین کروڑ کی بکتربند گاڑی 18 کروڑ میں خریدنے کی کوشش جس کی وجہ سے ناکام رہی۔ خریداری کرنے والی کمیٹی کے ممبر تھے۔ متعلقہ دستاویزات پر دستخط کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ دوسرے ڈی آئی جی شاہد حیات ہیں، جن کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ معتوب ہیں کہ دہشت گردی سے انہوں نے نمٹنے کی کوشش کی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں تہہ در تہہ پھیلی مافیا کا حصہ بننے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ ایسے افسروں کی موجودگی میں جے آئی ٹی سے اندیشہ کیوں ہے؟ بہت دور بیٹھے ہوئے الطاف حسین کو کیا کسی نے غلط مشورہ دیا ہے؟ کیا یہ معاملے کو الجھانے کی کوشش نہ ہو گی؟ آخر کس قانون کے تحت جنرل راحیل شریف فوجی افسروں پر مشتمل کوئی کمیشن یا کمیٹی قائم کر سکتے ہیں؟
ہرچند پوری طرح تصدیق نہ ہو سکی، مگر ایک تازہ اطلاع یہ ہے کہ مہران بینک نے جن ٹریکٹروں کی خریداری کے لیے قرض مہیا کیا اور سندھ حکومت نے ضمانت دی، دبئی میں وہ ڈھالے جا رہے ہیں۔ یہ کارخانہ انہی انور مجید کی ملکیت ہے، زرداری صاحب کے حوالے سے جن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں سننے میں آتی ہیں۔ انور مجید ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ الزام روا ہے یا ناروا۔ وہ ٹریکٹر معلوم نہیں کہاں ہیں، کچرا اٹھانے کے لیے جو بلدیات کے حوالے کیے جانے تھے۔ ایک سال سے زیادہ بیت گیا کہ قائم علی شاہ نے ہرے بھرے ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں افتتاح فرمایا تھا، دست مبارک سے ٹریکٹر چلا کر۔ ارشاد یہ کیا تھا کہ چھ ماہ میں سرکاری محکموں کو سونپ دیے جائیں گے۔
ان سطور اور دنیا ٹی وی کے صبح آٹھ بجے نشر ہونے والے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں بار بار عرض کیا کہ سندھ حکومت کرپشن کی جس دلدل میں دھنسی ہے، اس پر وزیرِ اعظم کو زرداری صاحب سے بات کرنا ہو گی۔ انہیں مطلع کرنا ہو گا کہ وقت بدل چکا۔
حبس حد سے بڑھ جائے تو خلق لُو کی دعا مانگتی ہے۔ یہ بھید ہمارے سیاستدانوں کو کیوں معلوم نہیں؟ دولت کی ہوس کیا یکسر دیوانہ کر دیتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کوئی دن میں طوفان دستک دے سکتا ہے... سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا‘ جب لاد چلے گا بنجارا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں