اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : بے شرم اپنی مرضی کرے ... اور ہم سب جانتے ہیں کہ بے شرم لوگوں کا انجام کیا ہوا کرتاہے ۔
اپنے ووٹروں کے بل پر جمعیت علمائِ اسلام پختون خوا سے سینیٹ کی صرف ایک سیٹ جیت سکتی ہے ، پھر اس نے دو امیدوار کیوں کھڑے کیے ؟ پیغام یہ ہے کہ دھاندلی علی الاعلان کی جائے گی ۔ جو کوئی بھی ان کا کچھ بگاڑنا چاہتا ہو ، بگاڑلے۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کا موقف اور بھی دلچسپ ہے ۔ فرمایا کہ گذشتہ بار کچھ پارٹیوں پرانہوں نے مہربانی کی تھی ۔ اب میاں محمد نوا زشریف وہی کریں ۔ یعنی کبھی میں نے ایک احتیاج مند کی مدد کی تھی ۔ اب میرا پڑوسی اسی قدر سرمایہ مجھے فراہم کرے ۔ بھائی ، آپ نے اپنی ضرورت پوری کی تھی ۔کچھ پارٹیوں کی حمایت آپ کو درکار تھی۔ دوسروں سے آپ یہ مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ کس قدر عجیب منظر ہے کہ ملک کی دو سب سے بڑی پارٹیوں کے سربراہ بے بس نظر آتے ہیں ۔ ایسی بلیک میلنگ کی دنیا میں شاید ہی اور کوئی مثال ہوگی کہ دونوں بڑی پارٹیاں کم از کم ایک نشست سے دستبردار ہوجائیں وگرنہ آسانی سے کاروبارِ حکومت چلانے کی انہیں اجازت نہ دی جائے گی ۔کیا اب کپتان کو احساس ہوا کہ پارٹی کی تنظیمِ نو کتنی ضروری ہے ؟ کیا میاں صاحب کو معلوم ہوا کہ جماعت فقط خاندان کی جاگیر نہ ہونی چاہیے؟
زرداری صاحب سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ ہتھیانے کے آرزومند ہیں ۔اس الیکشن کے بعد ،پیپلز پارٹی ا ورنون لیگ کے حامی سینیٹروں کی تعداد ایک برابر ہو جائے گی ۔ سینیٹ کے چیئرمین کا انحصار تب چھوٹی جماعتوں ایم کیو ایم ، جمعیت علمائِ اسلام اور قاف لیگ پر ہوگا۔ برسبیلِ تذکرہ بحران فقط بلوچستان اور پختون خوا ہی میں نہیں ، پنجاب میں بھی ایک چھوٹا سا طوفان پل رہا ہے ۔ قاف لیگ کے ارکان کی تعداد کم ہے مگر سینیٹ کی ایک سیٹ جیتنے پر وہ بضد دکھائی دیتی ہے ۔ خریداری کے سوا اور بھی کوئی نسخہ ہے ؟
بائیسویں ترمیم کے مخالفین کا موقف دلچسپ ہے کہ ارکانِ اسمبلی کو ضمیرکے مطابق ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ خریدار یعنی پیپلزپارٹی ا ور جمعیت علمائِ اسلام یہ بات ہرگز نہیں کہہ رہے ۔ یہ عاصمہ جہانگیر ایسے دانشوروں کا استدلال ہے ۔ کون سا ضمیر ؟یہ خود فروشی کا کاروبار ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی رائے پر کاربند رہنے کے آرزومند ہیں تو سینیٹ کے ٹکٹ جاری کرنے پر صدائے احتجاج بلند کرتے ۔ اصرار ہوتا کہ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بلاکر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے ۔ اگر وہ ضمیر کے تقاضوں پر پارٹی سے روگردانی کے مرتکب ہیں تو کھلے عام اپنی رائے کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ آگے بڑھ کر یہ کیوںنہیں کہتے کہ جی ہاں ! ہاتھ اٹھاکر ہم ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں اور اس کی قیمت چکانے پر آماد ہ !
فیلڈ مارشل ایوب خان ، آغا محمد یحییٰ خاں ، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ، جب بھی فوج نے مارشل لا نافذ کیا ،کوئی عوامی تحریک کیوں نہ اٹھی ؟ اس لیے کہ سیاستدانوں کی قطعاً کوئی اخلاقی ساکھ نہ تھی ۔ یحییٰ خان کے سوا، منصبِ صدارت پر مسلّط رہنے کی ہوس میں جو بھٹو کے حلیف بنے اورملک توڑ دیا، کم از کم پہلے چند برسوں میں ہر فوجی حکومت کی کارکردگی سیاستدانوں سے بہتر رہی ۔ معاشی اعتبار سے ملک میں اگر کچھ زندگی باقی ہے توانہی برسوں کے طفیل وگرنہ سیاسی لیڈروں نے پاکستان کو نائجیریا بنا دیا ہوتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک بار پھر افواجِ پاکستان حکومت کا کاروبار سنبھال لیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پائیدار سول اداروں کے بل پر ہی قومیں ارتقا پذیر ہوتی ہیں ۔ مارشل لا خواہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، ایک عارضی سہارا ثابت ہوتاہے ۔ بدترین سیاسی مخلوق پر اسے انحصار کرنا پڑتاہے اور بتدریج وہ ایک جوہڑ کی سی شکل اختیار کر لیتاہے ۔ مدّتوں سے جاری بحران کا حل مہذب اور شائستہ جمہوری سیاسی پارٹیاں ہیں ، جن میں اوپر سے نیچے تک منتخب عہدیدار کارفرماہوں ۔ جو اپنے لوگوں کو ادارے چلانے کی تربیت دیں ۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے مرحلہ وار پختہ تر ہوتی ہوئی قیادت فراہم کریں ۔ ایک مریض کو بہت دن زہریلی دوائوں (Steroids)پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔
سیاسی جماعتیں پہاڑ ایسی غلطی کر رہی ہیں ۔ اگر آئندہ کبھی مارشل لا نافذ ہوا یا عسکری قیادت نے کسی اور طر ح سے سیاسی مداخلت کا فیصلہ کیا تو ان کے خلاف چارج شیٹ اور بھی زیادہ طویل ہوگی ۔ محض کرپشن نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ملک سے سرمایے کا فرار ۔ گذشتہ دو سال کے دوران صرف متحدہ عرب امارات میں پاکستانی شہری 415ارب کی جائیدادیں خرید چکے ۔ دوسرے عوامل کے علاوہ وزیرِ اعظم نواز شریف ،وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار او راپوزیشن لیڈر آصف علی زرداری براہِ راست ذمہ دار ہیں ۔ اگر حکمران ہی اپنے ملک پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیں تو ایک عام سرمایہ دار کیوں ان کی پیروی نہ کرے گا؟ پہلے سے یہ مرض موجود تھا مگر موروثی سیاست کا دائرہ اب پھیلتا جا رہا ہے ۔ سینیٹ کے الیکشن نے سیاسی پارٹیوں کے کھوکھلے پن کو اس قدر نمایاں کر دیا ہے کہ کل کلاں خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوا تو سیاست دانوں کے لیے رونے والا کوئی نہ ہوگا۔
سروے کرنے والے کئی معتبر ادارے ملک میں موجود ہیں ۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے وکلا ، اخبار نویسوں ، اساتذہ ، سیاسی کارکنوں ، ڈاکٹروں ، انجینئروں اور دوسرے پڑھے لکھے لوگوں سے سوا ل کیاجائے تو شاید پندرہ فیصد سے زیادہ لوگ ان کے بارے میں حسنِ ظن کامظاہرہ نہ کریں ۔ دنیا بھرمیں سیاستدان نسبتاً کم مقبول ہوتے ہیں ۔ اقتدار کے حریص اور موقع ملنے پر ابن الوقتی کا مظاہرہ کرنے والے۔ حالیہ دنوں میں مگر پاکستانی لیڈروں نے جس بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے ، تیسری دنیا کی بدترین سیاست میں بھی اس کی مثالیں کم ہوں گی ۔
سینیٹ کی تشکیل کا مقصد یہ تھا کہ ایک سطح پر ملک کے چاروں حصے ایک برابر ہوں ۔ اپنے اپنے مفادات کا تمام صوبے تحفظ کر سکیں ۔ اپنی عددی اکثریت کی بنا پرکوئی بڑ اصوبہ یا ایک سے زیادہ صوبوں کا گٹھ جوڑ کسی کمزور اکائی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ سندھ سے بیرسٹر محمد علی سیف اور رحمن ملک اور اسلام آباد سے ظفر اقبال جھگڑا کی نامزدگی سے کیا یہی مقصد حاصل ہوگا ؟ کیا وہ اپنے صوبوں کے مالی مفادات کے نگہباں ہون گے یا اپنے لیڈروں کے بے معنی کارندے ۔ اپنے علاقوں کی رائے عامہ سے بے نیاز، درہم ودینار کے بندے ؟اکیسویں صدی کے غلام ، جو اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہوں ۔ کیونکرایسا معاشرہ پھل پھول سکتاہے ، زمامِ کارجہاں کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں ہو ۔ الطاف حسین ، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اپنی قوم کے ساتھ اس سلوک کے مرتکب کیوں ہیں ، جس نے انہیں تکریم ا ورمناصب عطا کیے ہیں ۔ وفا کا بدلہ وفا اور نیکی کا صلہ نیکی ہو اکرتاہے ۔ وہ اپنی قوم کے درپے کیوں ہیں ؟
رہے بھاڑے کے سینیٹر ، میرا خیال ہے کہ اب کی بار میڈیا ا ن کی ایسی درگت بنائے گاکہ انشاء اللہ عبرت کے نمونے ہو کر رہ جائیں گے ۔ ہر عمل کا ایک ردّعمل ہواکرتاہے ۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ، کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ زرِ کم عیار ہوگا۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : بے شرم اپنی مرضی کرے ... اور ہم سب جانتے ہیں کہ بے شرم لوگوں کا انجام کیا ہوا کرتاہے ۔
پسِ تحریر: نئی سیاسی جماعت کے بارے میں لا تعداد استفسارات ہیں ۔ براہِ کرم کچھ انتظارکیجیے ۔محتاط اور معزز ماہرین سرگرم ہیں کہ پختہ بنیادیں تعمیر کی جائیں ۔
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے