ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر پڑنے والے چھاپے نے ہماری قومی سیاست کا رہا سہا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔ اس کی کم کوشی، مصلحت پسندی اور منافقت کا بھانڈا بھی چوراہے میں پھوڑ دیا ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے اول اس کی مذمت کی اور پھر یہ کہا کہ انہوں نے محض تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کس بات پر تشویش؟ رضا ربانی بہرحال مذمت پر قائم رہے۔ یہ حیرت انگیز مشورہ بھی انہوں نے دیا ہے کہ اس اقدام سے پہلے جمہوری قوتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ جناب الطاف حسین نے خود ان سفاک مجرموں کی موجودگی کا اعتراف کیا اور کہا کہ اکثریت کو انہوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سب سے اچھے ترجمان حیدر عباس رضوی نے بھی ان گرفتاریوں کی مذمت سے گریز کیا۔ فقط یہ کہا کہ نائن زیرو سے وہ نہیں پکڑے گئے۔ جی ہاں، نائن زیرو سے نہیں بلکہ اس سے متصل وسیع و عریض صدر دفتر سے۔ رینجرز کو اس معاملے میں اپنی حقانیت کا اس قدر یقین ہے کہ عامر خان کو 90 دن کے لیے گرفتار کر لیا گیا ہے اور 26 ملزموں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر عدالت میں لے جایا گیا۔
خود الطاف حسین نے بھی مزاحمت سے عملاً انکار ہی کیا۔ بدھ کو انہوں نے ہڑتال کی اپیل کی اور نہ اگلے دن۔ بالکل برعکس انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پارٹی کی قیادت سے وہ الگ ہونے کے آرزومند ہیں۔ اگرچہ اپنی علالت کا انہوں نے ذکر کیا اور یہ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں پسند نہیں کرتی‘ مگر پیغام ان کا یہ ہے کہ وہ اس پارٹی سے تنگ آ چکے ہیں، جو پٹڑی سے اتر چکی ہے، بدلے ہوئے حالات کا جسے ہرگز کوئی ادراک نہیں۔ مقبول مصطفی کمال سے انہوں نے درخواست کی کہ ناراضی ترک کر کے پارٹی میں وہ واپس آ جائیں۔ مصطفی کمال کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی؟ واضح طور پر پارٹی پر مسلط لیڈروں سے وہ ناخوش ہیں، جو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کے مرتکب ہیں، خفیہ ایجنسیوں اور رینجرز کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ گورنر عشرت العباد کے بارے میں تحریک کے لیڈر نے کہا کہ وہ ان سے ہرگز ناراض نہیں۔ اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ ان کی موجودہ روش کو قبول کر لیا گیا ہے۔ پارٹی سے وابستہ رہ کر وہ سندھ حکومت، وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رہ و رسم استوار رکھتے ہیں اور انہیں برہم ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ پارٹی کے لیے ان کی افادیت زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ایک رابطہ کار کا کردار ادا کریں۔ محض آپس کی محاذ آرائی سے اب گریز کیا جائے؟ یہ اشارہ بھی الطاف حسین نے دیا ہے کہ کارکنوں کی موثر تائید اگر حاصل ہو جائے تو وہ جماعت کی تنظیم نو کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں وہ کہہ چکے کہ جگہوں اور گرائونڈز پر قبضے کرنے والے اس میں شامل ہیں۔
ایک لمحے کو بھول جائیے کہ چھاپہ کہاں مارا گیا۔ کسی کو ایم کیو ایم سے اگر خدا واسطے کا بیر ہو، اذیت رسانی سے لطف اندوز ہونا چاہے تو یہ ایک دوسری بات ہے۔ واقعہ صرف یہ ہے کہ کچھ خطرناک مجرموں کو گرفتار کیا گیا اور ایک ایسے مقام سے، کل تک جہاں کوئی داخل ہونے کی جسارت نہ کر سکتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اس اقدام سے پوری طرح آشکار ہوتی ہے۔ Zero tolerance، کسی بھی گروہ سے رتی برابر رعایت کا بھی اب سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اے این پی کے شاہی سید اور پیپلز پارٹی کے رہنما شاید اس لیے پریشان ہوئے ہیں کہ کل ان کی باری بھی آ سکتی ہے۔ بعض مذہبی جماعتوں کو بھی شاید اسی لیے سانپ سونگھ گیا ہے کہ اللہ رسول ؐ کے نام پر وہ اپنے ان حلیفوں کو بچا لینے کی آرزو مند تھیں، جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ یہ تو آشکار ہے کہ سیاسی اثرات کے اعتبار سے اس قدر نازک اور خطرناک فیصلہ چیف آف آرمی سٹاف کی اجازت کے بغیر نہ کیا جا سکتا تھا۔ امکان ہے کہ وزیر اعظم کو بھی اطلاع دی گئی ہو گی۔ جنرل بلال کی سطح پر اس قدر اہم فیصلہ ممکن ہے؟ اگرچہ وہ ایک جری اور انصاف پسند آدمی ہیں۔ آئی ایس آئی کے صدر دفتر کو بھی ظاہر ہے کہ بتا دیا ہو گا بلکہ ممکن ہے کہ ان کی معاونت اس میں شامل رہی ہو۔
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کے بیان سے بہرحال واضح ہوا کہ وفاقی حکومت کی پوری تائید کارفرما ہے اور ذرا سا ذہنی تحفظ بھی اسے نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خاں سے بھی زیادہ ڈٹ کر اگر کسی نے بات کی تو وہ عمران خان ہیں۔ باقی سب سکتے میں۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
نظر آتا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ان مدارس کے خلاف بھی اب کارروائی ہو گی، دہشت گرد، جن کے تقدس کے پیچھے پناہ لیا کرتے ہیں۔ امکان ہے کہ وہ قبضہ گروپ بھی سیاسی یلغار کا سامنا کر سکتا ہے، جس کے ڈانڈے سندھ حکومت اور اس کے سرپرستوں سے ملتے ہیں۔ صوبے کی نوکر شاہی اور پولیس افسروں کے لیے بھی اس میں ایک پیغام ہے۔ ملیر سے اور اس سے آگے کی زمینیں اس طرح بانٹی جا رہی ہیں، نادر شاہ کا فاتح لشکر گویا دلی پر چڑھ آیا ہو۔ شاید یہ خوش قسمتی نہ ہو کہ رائو انوار ایسے پولیس افسروں کے دن گنے جا چکے۔ ممکن ہے کہ کراچی پولیس میں نظیر کے عمل کا اب آغاز کر دیا جائے۔ اگر یہ نہ ہو گا تو ایم کیو ایم یہ کہنے میں حق بجانب ہو گی کہ صرف وہی ایک ہدف ہیں، وگرنہ اس شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے۔
ایم کیو ایم کے حامی اخبار نویسوں نے بھی اس کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کچھ تو پہلے ہی باغی ہو چکے تھے۔ باغیوں نے غیر متعلق موضوعات پر پھیکے سے مقالے لکھنے پر اکتفا کیا۔ میڈیا کا رویہ اگرچہ غیر متوازن رہا۔ رینجرز کے مقابلے میں سیاسی پارٹی کو کہیں زیادہ وقت دیا گیا۔ بعض نے ایک کارکن کی متنازعہ ہلاکت کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا، گویا کہ سفاک مجرموں کی گرفتاری ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ بحیثیت مجموعی مگر ایم کیو ایم کے لیے کوئی ہمدردی دکھائی نہ دی۔ جب خود الطاف حسین یہ اعتراف کریں کہ ان کے حامیوں نے جھک ماری ہے تو یہ ممکن بھی کس طرح تھا۔
کیا ارباب صحافت اور ارباب سیاست کو ادراک ہے کہ زمانہ ایک موڑ مڑ گیا ہے اور گزرے ہوئے دن کبھی پلٹ کر نہ آئیں گے۔ الیکشن میں ایم کیو ایم کی کارکردگی وہ نہ رہے گی۔ ہرگز نہ رہے گی، یہ تو نوشتۂ دیوار ہے۔ متحدہ کے رہنمائوں نے بنیادی نکات پر جو کچھ کہا، اس میں تضاد پایا گیا اور اس قدر واضح تضاد کہ مبصرین کی اکثریت نے بار بار اس کا ذکر کیا۔ ایم کیو ایم کی تاریخ میں ایسا کوئی دن اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔
پولیٹیکل سائنس کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ ریاست کو اگر برقرار رہنا ہے تو وہ ایسے گروہوں کو برداشت نہیں کر سکتی، قانون کی جنہیں کوئی پرواہ نہ ہو۔ لال مسجد پر پاک فوج کے طرز عمل سے یہ آشکار تھا۔ میڈیا نے تب المناک مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ صرف جنرل پرویز مشرف کو ہدف بنایا گیا۔ کیا پاک فوج کے اعلیٰ افسروں میں سے کسی ایک کو بھی ان سے اختلاف تھا؟ کیا لال مسجد کے اندر دہشت گرد موجود نہ تھے؟ ہر صاحب احساس کے لیے بچیوں کی ہلاکت انتہائی اذیت ناک تھی مگر اس کے ذمہ دار کیا مولوی عبدالعزیز اور ان کے رفقا نہیں تھے، برسوں جو انہیں ذہنی غسل دیتے رہے۔ اس پتھر دل آدمی کا حال یہ ہے کہ پشاور میں معصوم بچوں کے قتل عام کی مذمت سے اس نے انکار کر دیا۔
ریاستیں کیا اس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں کہ ایم ایم اے کی حکومت میں مولوی فضل اللہ ایسے کردار پھلتے پھولتے رہیں۔ مدارس میں نفرت کی تعلیم دی جاتی رہے۔ مذہبی رہنمائوں کے مسلح لشکر باقی اور برقرار ہوں؟ رضا ربانی، شاہی سید اور آصف علی زرداری ایسے بے ہمت مصلحت پسندوں کو الگ رکھیے۔ یہ ادراک کا لمحہ ہے۔ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، زوال کا سلسلہ وگرنہ جاری رہے گا۔ تاآنکہ خدانخواستہ عراق اور شام ایسی صورتحال پیدا ہو۔ خلا باقی نہیں رہا کرتا۔ آج تو جنرل راحیل نے اپنی جرأت رندانہ سے ڈھلوان کے سفر کو روک دیا ہے۔ کل وہ چلے جائیں گے تو کیا ہو گا؟