اب کوئی یہ بتا دے کہ ان حالات میں آصف علی زرداری ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیسے کریں گے؟ کس طرح اس کا دفاع فرمائیں گے؟ جی نہیں، کھیل کچھ اور ہے اور کوئی دن میں آشکار ہو جائے گا۔
فیصلہ ہو چکا۔ متحدہ قومی تحریک کے لیے زندہ اور بروئے کار رہنے کا ایک واضح راستہ موجود ہے۔ اپنے دہشت گردوں سے وہ دستبردار ہو جائے۔ گورنر عشرت العباد اور بابر غوری ایسے لوگ اب قیادت پر فائز نہ رہیں گے۔ مکمل عزم کے ساتھ قانون جب راستہ بنانے پر تل جائے تو ایک روڈ رولر کی طرح ہوتا ہے۔
زرداری صاحب کا مسئلہ کیا ہے؟ گذشتہ ماہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں وزیرِ اعظم کا خیر مقدم کیا تو اپنے ساتھ انہیں کور کمانڈر کے دفتر میں لے گئے۔ وہاں تفصیل کے ساتھ انہیں سندھ حکومت کے طرزِ عمل سے آگاہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم کا استقبال کرنے والوں میں وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ شامل تھے۔ وہ مگر ان کے ساتھ کور کمانڈر آفس نہ لے جائے گئے۔ سپہ سالار نے وزیرِ اعظم سے درخواست کی کہ سندھ حکومت کے طرزِ عمل پر وہ زرداری صاحب سے بات کریں۔ میاں صاحب نے اپنے حلیف کو مطلع کیا کہ صورتِ حال سنگین ہے۔ موزوں اقدامات اگر نہ کیے گئے تو نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
جی نہیں، کرپشن نہیں، کرپشن تو پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان میں ہے۔ سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ یہ جو ایک ماڈل پکڑی گئی، وہ ان سینکڑوں جرائم پیشہ لوگوں کے مختلف جتھوں میں سے ایک کا معمولی سا کردار ہے۔ پانچ لاکھ ڈالر اس رقم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو ہر سال کراچی سے سمندر پار بھیج دی جاتی ہے۔ اندازہ ہے کہ کم از کم پچاس ارب روپے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی وزرا ان میں نمایاں ہیں، دبئی اور دوسری خلیجی ریاستوں میں جن کے کاروبار پھل پھول رہے ہیں۔ صرف بلدیات میں دس ہزار سے زیادہ ایسے ملازمین موجود ہیں، دفتر تشریف لانے کی جو کبھی زحمت ہی نہیں کرتے۔ ان میں ایم کیو ایم کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے، جن کی تنخواہیں 90 کے حوالے کی جاتی ہیں۔
الطاف حسین صاحب کا تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ فوج سے ہرگز وہ تصادم کے آرزومند نہیں۔ یہ ان کی 27 دسمبر کی ایک تقریر کا متن ہے: ''میجر جنرل رضوان اختر نے ہمارے کئی لوگوں سے کہا، تمہارے لوگ سائوتھ افریقہ سے آتے ہیں۔ شیعوں کی اور سنیو ں کی killing کرتے ہیں... اور ڈرا دیا۔ میرے ساتھی بیچارے خوف زدہ ہو گئے کہ شاید یہ بات سچ ہو۔ جب یہ بات مجھ تک آئی تو میں نے کہا کہ ''جھوٹ‘‘ رضوان اختر کو لے کر جائو ایئرپورٹ میں‘ جس دن شیعہ اور سنی کو قتل کرنے والا کراچی ایئرپورٹ پر آئے تو رضوان اختر سے کہنا کہ یہ مبارک کام خود کر لو اور اسے وہیں پکڑ کر گولی مار دینا‘‘۔
''ابھی ابھی مجھے ایک اطلاع ملی ہے کہ تین روز پہلے عسکری ذرائع نے امریکن قونصلیٹ جنرل کے پاس جا کر کہا کہ مفتی نعیم اور عباس کمیلی کے بیٹوں کا قتل ایم کیو ایم نے کیا ہے۔ اب بتائو کہ اس کے جواب میں گالی کے علاوہ اور کیا نکلے گا؟ میری مائیں، بہنیں بیٹھی ہیں۔ اس لیے میرے منہ پر تالا پڑا ہوا ہے۔ یہی کہوں گاکہ ......جو جھوٹے الزام لگاتے ہو... ...اور تم نے جو امریکن قونصلیٹ اور ادھر جھوٹ پھیلایا ہے، میں اللہ کے حضور بددعا نہیں کرتا لیکن آج سے تم، تمہارا خاندان عذاب میں مبتلا ہو جائے گا‘‘۔
جناب الطاف حسین قونصل جنرل کو بار بار ''قونصلیٹ‘‘ کیوں کہتے رہے؟ ان کے اس ارشاد کا مفہوم کیا ہے کہ اللہ کے حضور وہ بددعا نہ کریں گے مگر اس کے باوجود کچھ لوگ اور ان کے خاندان ''عذاب‘‘ میں مبتلا ہو جائیں گے؟
مان لیا کہ رینجرز کو انہوں نے دھمکی نہ دی‘ مگر ان کے اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ 90 پر چھاپہ مارنے والے ''ہیں‘‘ سے ''تھے‘‘ ہو گئے۔ سکول کا بچّہ بھی جانتا ہے کہ ''تھے‘‘ کا لفظ مر جانے والوں کے لیے برتا جاتا ہے۔ ان کا خیال کیا یہ تھا کہ کراچی میں جو آگ دہشت گردوں نے بھڑکائی ہے، اس کی تپش ان کے دامن تک کبھی نہ پہنچے گی؟
تازہ تقریر سے ایک اور اقتباس: ''ایک اینکر پرسن کہنے لگا، الطاف حسین مست ہوتے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ تھا کہ نشے میں ہوتے ہیں۔ گانا وانا گانے لگتے ہیں۔ تو میں ایک بات بتا دوں، میں نشے میں نہیں ہوتا لیکن شاید اگر میرا بس چلے اور اجازت دیں اور قانون و آئین اس قرارداد کو پاس کر دے تو میرے سامنے آئے تو مجھے نشہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بغیر نشے کے تیرے اوپر چڑھائی کر سکتا ہوں‘‘۔
سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کے انکشافات یہ ہیں: O بابر غوری کے گھر الطاف حسین نے شاہد حامد کو قتل کرنے کی ہدایت کی O گورنر سندھ عشرت العباد کے ذریعے مجرموں کو تحفظ دیا جاتا ہے O پیپلز پارٹی کی حکومت میں، مجھے جیل میں سہولیات دی گئیں O ہم لوگوں کو برین واش کر کے کام کراتے رہے O محفوظ جگہ پر بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں (ان کے ذریعے ہمیں ہدایات ملتی رہیں)، لندن میں محمد انور، ندیم نصرت، کینیڈا میں صفدر علی باقری، یہاں پر (کراچی میں) خالد مقبول صدیقی، حیدر عباس رضوی O جو بھی پارٹی کے اندر مشہور ہوتا ہے اور عوام میں پذیرائی مل رہی ہوتی ہے، تو یہ ان کو کسی نہ کسی طریقے سے پارٹی سے، تحریک سے ہٹا دیتے ہیں۔ O الطاف حسین کی ہدایت پر ہی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل ہوا تھا یا جیسے مصطفی کمال‘ جو شہریوں میں ہر دل عزیز ہوتے جا رہے تھے، آج وہ کہاں ہیں؟
الطاف حسین کے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ درج ہونے کے بعد قانونی کارروائی شروع ہو گی تو تفتیش کرنے والوں کے سامنے انہیں پیش ہونا ہو گا۔ اگر نہ ہوں گے تو تیس دن کے بعد انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔
صولت مرزا کی پھانسی کے التوا سے مجرمانہ سرگرمیوں سے گریز کرنے والی ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں کو کیا کوئی پیغام دینا مقصود ہے۔
اس کے اپنے الفاظ یہ ہیں ''میں پاکستان کے تمام مقتدر حلقوں سے اپیل کروں گا، جن کے ہاتھ میں اختیار ہے کہ میری سزائے موت کو کچھ آگے بڑھایا جائے۔ ایسے بہت سے ساتھی ہیں جو کہ رابطے میں آئے۔ مختلف طریقوں سے۔ ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر جو اعتراف کر سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے ان کے ساتھ کیا کیا اور ان سے کیا کرایا O بہت سارے لوگ ہیں، جو اس سسٹم سے باہر نکلنا چاہتے ہیں مگر انہیں کوئی فورم نہیں مل رہا۔ کوئی ایسے لوگ نہیں مل رہے، کوئی ایسی چیز نہیں مل رہی کہ وہ باہر نکل سکیں یا اس خوف سے باہر آ سکیں۔ اگر اس خوف کو مٹانا ہے تو آپ کو ان کے اندر ہی سے لوگ نکالنا پڑیں گے، جو کہ صاف ہوں، جن کے اوپر لوگوں کا اعتماد ہو‘‘۔
اب کوئی یہ بتا دے کہ ان حالات میں آصف علی زرداری ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیسے کریں گے؟ کس طرح اس کا دفاع فرمائیں گے؟ جی نہیں، کھیل کچھ اور ہے اور کوئی دن میں آشکار ہو جائے گا۔