چودھری محمد اسلم کے فرزند ذوالفقار چیمہ کی تحریروں میں ہمیں اقبالؔ کی صدا سنائی دیتی ہے ؎
میں ظلمتِ شب میں، لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
والدہ محترمہ پر لکھے گئے مضمون میںچیمہ صاحب نے اپنے والدِ گرامی کا ذکر زیادہ نہیں کیا۔ انسانوں کی عظیم اکثریت فریب خوردہ عقل کے ساتھ زندگی کرتی ہے ۔ بہت پہلے جدا ہوجانے والے چودھری محمد اسلم ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک تھے ، جن کی حیات کے ایک ورق سے آپ آشنا ہوتے ہیں تو پوری شخصیت کی طرف لپکتے ہیں۔ پھر ٹھٹھک کر رک جاتے ہیں ۔ وہ آدمی تو اس دنیا میں موجود ہی نہیں ۔ مٹی اوڑھے سو رہا ہے ۔
چودھری محمد اسلم مرحوم کا قصہ ڈاکٹر نثار کی زبان سے سنا ۔کنّوں کا پھل پاک سر زمین کے لیے اجنبی تھا ۔ 1936ء میں دو بوٹے کیلی فورنیا سے لائے گئے ۔ رفتہ رفتہ وسطی پنجاب میں مقبول ہونے لگا۔ اب تو سوات اور ہزارہ میں ہزاروں باغات موتیوں سے لدے ہوتے ہیں ۔ ہمارے پشتون بھائیوں کو دوسروں سے زیادہ اس کی ضرورت ہے، جو سلاد سے پرہیز کرتے ہیں ۔ پسا ہو اباریک آٹا کھاتے اور گوشت کے بغیر دستر خوان کو ادھورا سمجھتے ہیں ۔
ترشاوہ پھلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلے برس ان کا پھل برائے نام ہوتا ہے ۔ بیچا نہیں ، بانٹ دیا جاتاہے ۔ ساٹھ کے عشرے میں چودھری محمد اسلم کا باغ ثمر بار ہواتو ان کا ارادہ یہی تھا مگر ایک اصرار کرنے والے کی پیشکش قبول کر لی گئی ۔ کوئی دن میں ایسا بھرپور ہو گیا کہ ایک کے بعد دوسرا ٹھیکیدار نمودار ہونے لگا۔ ان میں سے ہر ایک نے سودا منسوخ کرنے کا مشورہ دیا کہ رواج کے مطابق دوگنی رقم لوٹا دی جائے ۔ جواب میں ایک ہی جملہ سننے کو ملا ''میں زبان دے چکا‘‘۔
ذوالفقار چیمہ کا ذکر زیادہ ہے کہ پولیس افسروں کے کارنامے اجاگر ہو جاتے ہیں۔ان کے دونوں بھائیوں کی داستانیں بھی کم سنسنی خیز نہیں۔ جسٹس افتخار احمد چیمہ کے بارے میں ، سبکدوشی کے بعد جو قومی اسمبلی کے رکن ہوگئے، جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا تھا: اپنی قسم میں نہیں کھاتا لیکن افتخار چیمہ کی دیانت کی قسم کھا سکتا ہوں ۔ ڈاکٹر نثار چیمہ کا راولپنڈی سے تبادلہ ہوا تو چودھری پرویز الٰہی نے حیرت کے ساتھ کہا کہ وہ کس قدر مقبول آدمی ہے ۔
ذوالفقار احمد چیمہ کی کتاب پڑھتے ہوئے ، میں ان کے ماضی کا عکس دیکھتا رہا۔ روسی شاعر نے کہاتھا: ''شام ڈھلے نیلی جھیلوں پرمیں چلا جاتاہوں ، کنکر پھینکتا ہوں اور لہروں میں تمہارا نام سنتا ہوں‘‘۔ اس کتاب کے ہر ورق پر اس گائوں کی فضا محسوس ہوتی ہے۔ ''کٹھور‘‘ اس بستی کا نام ہے ، جس میں کیسا کیساصاحبِ گداز پیدا ہوا۔
کتاب کی پہلی تین تحریروں کا مطالعہ ہی مصنف کو آشکار کر دیتاہے۔ ''کسی بدبخت کی طرف سے والدین کے ساتھ معمولی بدتمیزی کی خبر بھی دکھائی دے تو میں اخبار پھینک دیتا ہوں‘‘۔ اپنی خلد آشیانی ماں کے ذکر میں وہ کہتے ہیں '' ڈرپ لگی ہوتی، پھر بھی نحیف آواز میں پوچھتیں 'دودھ پی لیا؟ تھک گئے ہوگے؟ سو جائو‘۔بیٹوں کے عہدوں سے زیادہ وہ ان کی دیانت اور انصاف پسندی پہ خوش تھیں‘‘۔ ''رخصت کرتے وقت اس خشوع و خضوع سے دعا مانگتیں‘ یقین ہونے لگتاکہ ان دعائوں کو عرش تک پہنچنے سے کوئی روک نہیں سکتا‘‘۔
کون صاحبِ احساس ہے ، ماں کی جدائی جسے رلا نہ دے لیکن ایک صاحبِ ایمان کا غم اسے پاگل نہیں ، غور و فکر پہ آمادہ کرتاہے ۔ دل کے زخموں کو شمار کرتے، تعزیت کرنے والوں میں گھرے ذوالفقار چیمہ ایک دلچسپ اور اہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ عبادات کی پابندی کرنے والوں سے زیادہ خوش بخت وہ ہیں ، جو والدین کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ''ریحان صدیقی پانچ برس سے اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ، جیسے ماں اپنے بچوں کی‘‘۔ ''اپنے معمّر والدین کی دیکھ بھال کے لیے (سجّاد افضل چیمہ نے) اپنی سیاست ، اپنی وکالت ، سب کچھ قربان کر دیا‘‘۔
برّصغیر میں پروان چڑھنے والی یہ اس تہذیب کے مظاہر ہیں ، جس کی بنا اسلام ہے ۔ کتاب یاد دلاتی ہے کہ ایسی مضبوط شخصیت ، مصنف جس کا حامل ہے ، گھر ہی میں پروان چڑھتی ہے ۔ ایک نغمے کی طرح دلنواز اور خوش آئند ۔ جب خاندان میں آہنگ ہو تو کردار کی یکتائی جنم لیتی ہے... اقبالؔ نے کہا تھا ''صفتِ سورۃٔ رحمن‘‘ مسلم معاشرے کی یہ دلاویزی اور نجابت بھک منگے دانشورانِ عصر مغرب کی بھینٹ چڑھانے کے درپے ہیں ۔
''انصاف ، تھانوں ، پٹوار خانوں اور ایوانوں میں بھی‘‘ کتاب کا دوسرا مضمون ہے۔ ''انصاف خدائی صفت ہے ۔ انسانیت کو یہ تحفہ آسمانوں سے ملا ہے‘‘۔ یہ جملہ ان تمام تحریروں کی بنیاد ہے ، جو چار عشروں پر پھیلے مصنف کے متنوع تجربات کو بیان کرتاہے ۔ انس اور الفت لیکن ہر حال میں انصاف کہ دوام کے سمندر میں حیات کی نائو اسی پر استوار ہے ۔
غلبے کی تمنّا آدمی کی جبلّت ہے ، حریف کو مٹا دینے کی تمنّا ۔ اجتماعی حیات کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسی میں پوشید ہ ہے ۔ ریاست کا اوّلین فرض یہ ہے کہ عدالت ، پولیس اور انتظامیہ ،اپنے تمام اداروں کو قیامِ عدل کے عزم پر استوار کرے ۔ ''محبوبِ خداؐ کی میراث کو تثلیث کے فرزند لے اڑے۔ آج وہ ملک کرۂ ارض کے قائد ہیں ، سیاست ہو ، کاروبار ِ ریاست، وکالت یا عدالت، ایوان اور ہر میدان میں قانون کی حکمرانی آب و تاب سے نظر آتی ہے‘‘۔
مصنف کی اپنی شخصیت میں سادگی کے ساتھ پرکاری کے عناصر کارفرما ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر تحریر میں نہیں ۔ یہاں ایک سادگی اور استوار ی ہے ۔ ایک محکم لہجہ اور کبھی نہ ختم ہونے والا یقین ۔ وہ تڑپ اٹھتا ہے ، جب وہ تجزیے پڑھتا ہے کہ پاکستان ناکام ہوتی ہوئی ریاست ہے۔ '' یہ نجومی ہر بار غلط ثابت ہوئے‘‘ وہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کو قدرت نے تمام وہ نعمتیں عطا کی ہیں ، سرخروئی کے لیے جو لازم ہیں۔ ''آدمی کے دو گھر ہوتے ہیں ـ۔ایک جس کی چھت کے نیچے وہ سوتا ہے اور دوسرا ، جس کی زمین پر وہ چلتا ہے‘‘۔
''اقوام کی باہمی کشمکش میں کمزوری ایک جرم ہے‘‘ ریمنڈ ڈیوس پر لکھے گئے مضمون میں وہ یاد دہانی کراتا ہے... خود داری ، غیر ت مندی اور عزتِ نفس کا شعور ۔ وہ ایک فرانسیسی خاتون کا حوالہ دیتاہے ،جو ایک پاکستانی کے ساتھ بیاہی گئی ۔ علیحدگی کے بعد دس سالہ بیٹی کے ساتھ باپ پاکستان آگیا۔ ''فرانسیسی حکومت نے اسلام آباد اور لاہور کے سارے ایوان ہلا کر رکھ دیے ۔فوری طور پر قانون سازی کر کے بیرونِ ملک قوم کی رسوائی کا سامان کرنے والوں کو قومی مجرم قرار دیا جائے ۔ پاسپورٹ اور جائیدایں ضبط کر کے ان کی شہریت ختم کر دی جائے‘‘۔ قازقستان اور روس کا سفر ہو یا بھارت اور برطانیہ کا ،اپنا وطن اسے ہمیشہ یاد رہتاہے ۔ ایک ہوک سی اٹھتی رہتی ہے کہ اس کا وطن بھی فروغ پذیر ہو جائے ۔ ترکوں کی سرزمین میں وہ ایک مسافر نہیں ۔ حجاز میں وہ سراپا دعا ہو گیا۔ اپنے لیے نہیں ، اپنے وطن کے لیے بھی کہ اب روشنی اس کے در و دیوار پہ اترے ۔ تحریر کی سادگی کے باوجود مصنف کی مقبولیت کا سبب کیا ہے ؟ وہ اجتماعی لاشعور سے جڑا ہے ۔ اس کے اعتقادات، تاریخ اور تمدن سے ۔
یہ ایک عام پاکستانی کا درد ہے‘ جو اسے جگائے رکھتا، اس کے د ل پر چوٹ لگاتا ہے لیکن وہ مایوس نہیں ۔
وہ خوب جانتا ہے کہ مایوسی موت ہے اور امید زندگی ۔جس طرح وہ یہ جانتا ہے کہ ایک آدمی کے دو گھر ہوتے ہیں ۔
چودھری محمد اسلم کے فرزند ذوالفقار چیمہ کی تحریروں میں ہمیں اقبالؔ کی صدا سنائی دیتی ہے ؎
میں ظلمتِ شب میں، لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا