ہیجان اور خود ترسی سے نہیں، افراد اور اقوام کے مقدر ریاضت، تحمل اور منصوبہ بندی سے سنورتے ہیں۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کہا کرتے ''حونصلے کے ساتھ!‘‘
بارہ ڈالر؟ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ قطر سے پاکستان وہ گیس بارہ ڈالر کے حساب سے مول لے گا، جو چینی حکومت چار سے پانچ ڈالر ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے لے رہی ہے؟ دوسرا انکشاف یہ تھا کہ گیس کی قیمت تو آٹھ ڈالر ہے، چار ڈالر نقل و حمل کے اخراجات ہیں۔ چار ڈالر؟ ابھی کچھ دن پہلے یوکرین اور روس سے گندم خریدی گئی اور پاکستانی عوام کو کھلا دی گئی جب کہ ملک کے گودام گیہوں سے بھرے ہیں۔ سمندری بار برداری اگر اتنی ہی گراں ہوتی تو یہ شعبدہ کیسے ممکن تھا؟
ناقابلِ یقین اطلاع یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ پٹرولیم کی وزارت اور پی ایس او کے ایک فیصلے کا نتیجہ ہے۔ جو بحری جہاز ایل این جی لے کر آئے گا، واپس جا کر وہی دوسری کھیپ بھی لائے گا۔ آٹھ دن تک وہ پانیوں میں رہے گا۔ ایک دن کے اخراجات 272000 ڈالر ہوتے ہیں۔ گیس کی قیمت فرنس آئل کے مقابلے میں 12.50 فیصد ہونی چاہیے جب کہ سرکار نے 17.50 فیصد پر درآمد کی۔ منافع اور نقل و حمل کے زائد اخراجات کی وجہ سے قیمت میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔ 14.3 کی بجائے یہ 10.85 ڈالر کے حساب سے درآمد کی جا سکتی تھی۔
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں، جب کرپشن کا ایک معمولی واقعہ بھی اخبارات اور اس سے زیادہ ٹی وی میں اچھلتا ہے، کوئی حکومت ایسے خوفناک گھپلے کا ارتکاب کیسے کر سکتی ہے؟ بالکل اسی طرح جیسے منگل کو وزیرِ اعظم نے گلگت بلتستان میں چار نئے اضلاع بنانے اور ترقیاتی منصوبوں پر 67 ارب صرف کرنے کا اعلان کیا۔ گلگت بلتستان کا الیکشن جیتنے کے لیے کیا یہ کھلی دھاندلی نہیں؟ پاکستانی میڈیا آزاد ہے مگر چیخ و پکار کے لیے۔ چیزوں کو وہ ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ قوم کے زخموں کا اندمال کرنے کی بجائے، سنسنی خیز خبروں کو وہ زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ خلیل جبران نے سچ کہا تھا: اخبار نویس انسانی زخموں کے تاجر ہوتے ہیں۔
اور سیاستدان؟ بہت دیر میں سوچتا رہا کہ سیاسی بلوغت اور عدم بلوغت میں فرق کیا ہے؟ میرے ذہن میں پھر وہی دو آدمی ابھرے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال۔ بالغ نظر آدمی کی نگاہ اپنے مقصد پہ رہتی ہے اور نابالغ کی دل کا بوجھ ہلکا کرنے پر۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے سیکرٹری ایم او متھائی نے لکھا تھا: ہندوستان کو متحد رہنا تھا، یہ تاریخ کا فیصلہ تھا مگر ایک آدمی تاریخ کے راستے میں کھڑا ہو گیا... اس کا نام محمد علی جناح تھا۔ کوئی تاریخ کے راستے میں کھڑا نہیں ہوتا۔ قرآنِ کریم اسے ـ ''ایام اللہ‘‘ کہتا ہے۔ اللہ کے بنائے ہوئے دن، جسے وہ لوگوں کے درمیان گردش دیتا ہے۔ ان قوانین کی بنیاد پر، جو کتاب کہتی ہے کہ کبھی نہیں بدلتے... اور یہ کہتی ہے کہ کھرا اور کھوٹا الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس مہلت میں، جسے بعض لوگ نعمت سمجھتے رہتے ہیں‘ مثلاً جناب الطاف حسین اور ان کا قبیلہ، مثلاً شریف خاندان اور اس کے حواری!
ایک نجی کمپنی 20 فیصد کم قیمت پر ایل این جی درآمد کرنے کی تیاری کر چکی تھی مگر اسے روک دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ پی ایس او سے وہ خریداری کرے۔ پٹرولیم کے ایک سبکدوش وفاقی سیکرٹری نے کہا: ''یہ ایک غیر قانونی کام ہے‘‘ یونیورسل گیس کمپنی نے 7 ڈالر کے حساب سے گیس کی خریداری کا معاہدہ کر لیا تھا‘ مگر اسے درآمد کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ایل این جی درآمد کرنے کی پالیسی 2011ء میں تشکیل دی گئی تھی، جس میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ پی ایس او کے ذریعے درآمد اور اس کی فروخت، اعلان کردہ پالیسی کی دفعہ 10 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور اسحٰق ڈار کا ہاتھ مگر کون پکڑ سکتا ہے۔
اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ، مظلوم کی مدد تو قابلِ فہم ہے مگر ظالم کی؟ فرمایا: اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ ہاتھ نہیں پکڑتے، بے بسی اور بے چارگی کے ساتھ ہم چیختے چلّاتے ہیں۔ امید نہیں، مایوسی ہمارا اندازِ فکر ہے۔ اگر عمران خان یا سراج الحق سے درخواست کی جائے کہ ایل این جی پر وہ ایک کل جماعتی کانفرنس بلائیں، ایک تحقیقاتی مقالہ شائع کرائیں اور کچھ سیمینار کریں تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ اگر ان سے یہ کہا جائے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں احتجاج کریں؟
ایک اور انکشاف یہ ہے کہ درآمد کردہ گیس پاک عرب فرٹیلائزر کی ملکیت تھی۔ روپیہ اس نے فراہم کیا، پی ایس او نے درآمد کی لیکن سب کی سب اس کے حوالے نہ کی گئی۔ کچھ بازار میں بیچ دی گئی۔ آخر کیوں؟ عالمی بینک کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پاکستانی معیشت بحالی کی طرف بڑھی ہے مگر اسے توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ معیشت کی صحت میں بہتری کے آثار اسحق ڈار کی وجہ سے نہیں۔ عالمی بینک کا کہنا یہ ہے کہ اس کی وجہ پٹرول کی قیمت میں کمی، کپاس، گندم اور چاول کی بہتر فصلوں اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شرحِ ترقی امسال 4.6 فیصد رہے گی، 2018ء کے بعد یہ پانچ فیصد ہو سکتی ہے۔ مقابلہ بھارت کے ساتھ ہے، جس کی معیشت اوسطاً 7 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ سائز میں وہ ہم سے آٹھ گنا بڑی ہے۔ اس کا مطلب ہے، کم از کم بیس گنا، 2000 فیصد۔ ایک ایسے دشمن کے مقابلے میں، جو اپنے پڑوسی کو تباہ کرنے پر تلا ہے، اس کم کوشی اور ناکردہ کاری کا انجام کیا ہو گا؟ بے سبب نہیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شریف خاندان سے شاد ہے اور پاکستان میں اس کے ہم نوا بھی۔ پرویز رشید اگر قائدِ اعظم ثانی کے وفاقی وزیر ہیں تو اس پر تعجب کیا۔ اگر وزیرِ اعظم کو وہ بھارت نواز اخبار نویسوں سے بہتر تعلقات کا مشورہ دیتے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ نجم سیٹھی اگر نگران وزیرِ اعلیٰ اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نہ بنائے جاتے تو اور کس کو بنایا جاتا؟ بھارت کے لیے وہ شریف خاندان کے غیر سرکاری سفیر ہیں۔
جیسا کہ بار بار عرض کیا، وسائل کا فقدان نہیں، بدانتظامی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کرپشن! بلوچستان میں پندرہ فیصد اساتذہ سکول جائے بغیر تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ سندھ میں شاید اس سے کچھ زیادہ۔ گلگت بلتستان میں الیکشن جیتنے کے لیے نواز شریف 67 ارب روپے صرف کر دیں گے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں عمران خان، شیخ رشید اور اسد عمر والی سیٹیں واپس لینے کے لیے 45 ارب کی میٹرو، شہر کو جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ وزیرِ آباد میں دل کا ہسپتال ویران پڑا ہے۔ ہر سال گوجرانوالہ ڈویژن کے تین سے چار ہزار مریض جان ہار دیتے ہیں۔ پنجاب بھر میں سرکاری سکول اور ہسپتال عملے کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ اُچ شریف میں ایک پرائمری سکول کے لیے رکھے گئے دو اساتذہ کی تنخواہیں خاکسار ادا کرتا ہے۔ ایک برس پہلے ایوانِ وزیرِ اعظم سے محی الدین وانی نے کہا تھا کہ تین اساتذہ کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔
ہیجان اور خود ترسی سے نہیں، افراد اور اقوام کے مقدر ریاضت، تحمل اور منصوبہ بندی سے سنورتے ہیں۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کہا کرتے ''حونصلے کے ساتھ!‘‘