انجام اس کا مکمل تباہی ہوتا ہے‘ مکمل تباہی۔ خسرالدنیا والآخرۃ۔ آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔
کراچی پر چودھری نثار علی خان سے گفتگو نہ ہو سکی‘ حالانکہ اسی لیے میں گیا تھا‘ مگر زیادہ وقت حال احوال میں بیت گیا۔ سات برس کے بعد یہ ان سے پہلی ذاتی ملاقات تھی۔
ہم دیہاتی گزرے ہوئے وقت کو نمٹائے بغیر‘ بہت ضروری چیزوں کو بھی زیر بحث نہیں لا سکتے۔ اسے ''حال دینا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بچوں کا حال کیا ہے؟ گائے بھینسوں کا؟ فصلوں کا؟
چودھری نے فصلوں کے بارے میں پوچھا‘ اس زمین کے بارے میں انہیں میں نے بتایا کہ جو راولپنڈی کے سب سے قدیم ڈیم کے کنارے واقع ہے مگر پیاسی ہے اور جسے کبھی ہل نے چھوا تک نہیں۔ برابر وہ ہمدردی کا اظہار کرتے رہے کہ میں نے کچھ نہیں کھایا۔ (مچھلی کا ایک ٹکڑا‘ تھوڑا سا سبزی پلائو اور میٹھا کیا کافی نہیں ہوتا؟)۔ انہیں مطمئن کرنے کے لیے میں نے بتایا کہ یہ تکلف یا صحت کی خرابی کا نتیجہ نہیں‘ قائد اعظم کی سنت پر عمل ہے‘ آدمی کو جو آسودہ رکھتی ہے‘ پھر انہیں آئی آئی چندریگر کا لطیفہ سنایا۔ ہر ایک گھنٹے کے بعد وہ دودھ کا ایک گلاس پیا کرتے اور ہر آدھے گھنٹے بعد غسل خانے تشریف لے جایا کرتے کہ ذیابیطس کے مریض تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا: قائد اعظم نے کہا کہ عمر ساٹھ برس ہو چکے تو ہر ایک گھنٹے کے بعد کوئی تھوڑی سی چیز کھا لینی چاہیے۔ قائد اعظم کے نصائح میں سے یہی ایک بات انہیں یاد رہی۔
چودھری صاحب سے میں نے عرض کیا: میں اس دانا وزیر اعظم کی طرح نہیں ہوں‘ دو تین گھنٹے کا وقفہ کرتا ہوں۔ پوچھا: کیا پیدل چلتے ہو‘ عرض کیا۔ بہت۔
اب مجھے سرکارؐ یاد آئے۔ اصحاب کے ایک گروپ نے گزارش کی: رسول اللہ‘ کاہلی آن لیتی ہے۔ فرمایا: کچھ دیر تیز تیز چلا کرو۔ پھر میں حیران ہوتا رہا کہ مولوی صاحبان اس طرح کی احادیث سے بے بہرہ کیوں ہیں... فرمایا: اپنے معدوں کو کھانوں کا قبرستان نہ بنائو۔ فرمایا: ابنِ آدم کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کو چند لقمے کافی ہیں۔
ملاقات طویل ہوتی مگر بیچ میں ایک اہم اجلاس آ پڑا۔ وزیر داخلہ کو ایوان وزیر اعظم جانا تھا۔ بار بار وہ معذرت کرتے رہے کہ پون گھنٹے سے زیادہ وقت میسر نہیں۔ گزارش کی: فکر نہ کیجیے۔ آپ کی مصروفیات کا مجھے اندازہ ہے۔
آہنگ ایسا تھا کہ چار چھ گھنٹے مکالمہ جاری رہتا مگر زندگی یہی ہے۔ کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا۔ کبھی فرصت نہیں ملتی‘ کبھی آدمی میسر نہیں آتا۔ حیدر آباد کے اس جواں مرگ شاعر قابل اجمیری نے یہ کہا تھا ع
ذوقِ نظارہ پریشاں ہے کہ دیکھا بھی نہیں
وزیر اعظم کے ساتھ وزیر داخلہ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ یہ ایک نازک معاملہ تھا۔ دوسرا اگر خود بات نہ کرے تو ایسے موضوع کو چھیڑا ہی نہ جائے۔ یہ تو واضح ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ ان کے مراسم خوشگوار ہیں؛ لہٰذا پنجاب ہائوس کے وزیر اعلیٰ بلاک میں وہ اکثر پائے جاتے ہیں۔ رہے وزیر اعظم تو ایک طرح سے وہ ان پر اظہار ناراضی کر ہی چکے۔ خود وزارت داخلہ سے متعلق ضروری اجلاسوں میں انہیں بلایا نہیں جاتا۔ یہ تقریباً اتنی ہی بڑی حماقت ہے‘ جتنی یہ‘ کہ وزیر اعظم عسکری قیادت اور صوبائی حکومتوں سے روابط منقطع کر لیں۔ خیر اس میں بھی کوئی کسر انہوں نے چھوڑی نہ تھی۔ پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کو چھ ماہ تک اسحق ڈار نے ملاقات کا وقت عنایت نہ کیا۔ پرویز رشید ایسے غیر ذمہ دار شخص سے‘ ایک غیر ذمہ دار میڈیا گروپ کو دلیل والے کہلوایا اور پاک فوج کو غلیل والے۔ تحقیر بھی‘ مذمت بھی۔
حیرت ہے کہ سیاسی حرکیات کا غیر معمولی فہم رکھنے والے چودھری نثار علی خان ان کے ساتھ کیسے گزارا کر رہے ہیں؟ میرے خیال میں اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو وہی ان کا سیاسی فہم۔ پیپلز پارٹی میں وہ جا نہیں سکتے۔ تحریک انصاف کا دروازہ اگرچہ ان کے لیے چوپٹ کھلا ہے‘ پھر وہاں وہ عمران خان کے ماتحت نہیں شریکِ کار ہوں گے۔ جاوید ہاشمی کے بعد صدارت کا منصب بھی خالی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ چودھری تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ عمران خان کا فین کلب سمجھتا ہے۔ بالکل بجا طور پر۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک کامیاب سیاستدان کے لیے بہترین طریق‘ ایک ہی پارٹی سے مستقل وابستگی کا ہوا کرتا ہے۔ جہاندیدہ سیاستدان یہ بات سمجھتا ہے؛ چنانچہ شاید اسی سے وابستہ رہ کر وہ ان گرہوں کو کھولنے کی کوشش کرے گا‘ جو وزیر اعظم کی انا پرستی اور خود اس کی زود رنجی نے لگا رکھی ہیں۔ معاف کیجیے‘ فقط وزیر اعظم نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان اور بعض مشیروں کا قابضانہ رویہ (Possessive attitude) اور ایسے وزراء کرام‘ جو ضلع کونسل سے اوپر کی سیاست کے اہل ہی نہیں۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے‘ خونِ گرم دہقاں کا
کامیاب سیاستدان کے لیے‘ کسی نہ کسی درجے میں مہذب آدمی ہونا ضروری ہے۔ کم از کم دکھاوے کے لیے۔ ان کا معاملہ وہ ہے‘ جوش ملیح آبادی کے حوالے سے جو شورش کاشمیری نے بیان کیا تھا ؎
جوش برقِ ہوس کا کڑکا ہے
جوش اسّی برس کا لڑکا ہے
پینتالیس برس ہوتے ہیں‘ اسّی برس کے اس لڑکے کو میں نے چٹان کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔ میرا خیال تھا کہ دروازہ ان پر نہ کھلے گا۔ یہ اندازہ غلط نکلا۔ اس دن کشمیری چائے اور اگلے دن کشمیری کھانوں سے ان کی تواضع کی گئی۔ جوش نے ایک مضمون شورش کی مدح میں لکھا اور ایک نظم اس کے سرورق کے لیے۔ یہ انہی کا شعر ہے ؎
کوئی مشتری ہو تو آواز دے دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
یہاں تو دفعِ شر کا مسئلہ بھی تھا۔ نواز شریف کے بعض وزراء ''دفعِ شر‘‘ نہیں‘ ''دعوتِ شر‘‘ کے آدمی ہیں۔ خواجہ آصف اگر اپنی خودنوشت لکھیں تو اس کا عنوان ہونا چاہیے۔ آ بیل مجھے مار۔
27 اگست 2013ء کو اخبارات میں فاروق ستار کا بیان تھا: کراچی تباہ حال ہے‘ فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ 28 اگست کو وزیر داخلہ کا جوابی بیان یہ تھا: فوج کو تو صوبائی حکومت بلا سکتی ہے مگر فیڈرل سکیورٹی فورسز کو وزارت داخلہ بھیج سکتی ہے‘ اگر قائم علی شاہ اس کے کپتان بننے پر آمادہ ہوں۔ چودھری کے ذہن میں کپتان کی اصطلاح کیسے جاگی؟ شاید اس لیے کہ وہ کرکٹ کا کھلاڑی ہے۔ ایچی سن میں وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا اور عمران خان بارہواں کھلاڑی‘ پھر عمران خان کرکٹ کا اساطیری کپتان ہوا... اور چودھری سیاست کا‘ اگرچہ دونوں کی کوئی ٹیم نہیں۔
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوانِ عشق
او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم
عشق کے مکتب میں‘ میں اور مجنوں ہم سبق تھے۔ وہ صحرا کو چلا گیا اور میں گلی کوچوں میں رسوا ہوا۔
سیاست بھی سربازار رسوائی کا کھیل ہے۔ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں۔ دور ہی رہو‘ اس سے دور ہی رہو‘ الّا یہ کہ محمد علی جناح ایسی حسنِ کردار کی زرہ پہن رکھی ہو۔ اگر میر صاحب کا مشورہ یاد رہے ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
اس جلیل القدر جینئس‘ کارِ سیاست‘ علم‘ انتظام اور عسکریت کے اس جینئس‘ فاروق اعظمؓ سے پوچھا گیا۔ تقویٰ کیا ہے؟ فرمایا: خاردار جھاڑیوں کے درمیان اپنا دامن بچا کے نکل جانا۔
عرض کیا: کیا میرا یہ تاثر درست ہے کہ کراچی سے واپسی کا راستہ بند ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا۔ فتح کے سوا‘ اس رزم گاہ سے لوٹنے کی اور کوئی راہ نہیں۔ 496 برس ہوتے ہیں کنواہہ کے میدانِ جنگ میں ظہیرالدین بابر نے اپنی سپاہ سے کہا تھا: اگر آج جیت نہ سکے تو کابل تک کتوں کی طرح بھاگتے اور کتوں کی طرح مرتے جائو گے۔
زرداری صاحب کے نزدیک کراچی میں قاتلوں کا وجود کوئی مسئلہ نہیں۔ وزیر اعظم اگرچہ پوری طرح یکسو نہیں‘ مگر کراچی سے وہ واپس نہیں آ سکتے۔ ایم کیو ایم نے فوج کو خود بلایا ہے اور اب واپس بھیج نہیں سکتی۔ عسکری قیادت شکست کی متحمل نہیں۔ رینجرز خود کو رسوا کر سکتے ہیں‘ جی ایچ کیو اور نہ آئی ایس آئی۔
پوری قوم کی بددعائیں‘ کراچی کے ٹھگوں اور قاتلوں کے ساتھ ہیں۔ شعیب کا شعر سچا ہونے والا ہے۔
عشق لاحاصلی کا کھیل نہیں
دیکھ ہم اس گلی کی خاک ہوئے
عقل کا اس میں کیا دخل‘ ہر عشق جبلی ہوتا ہے۔ اب کی بار جو جبلت بروئے کار تھی نفسیات کی زبان میں اسے Urge to dominate کہا جاتا ہے۔ انجام اس کا مکمل تباہی ہوتا ہے‘ مکمل تباہی۔ خسرالدنیا والآخرۃ۔ آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔