معاملے کا اخلاقی پہلو کبھی کبھی قانونی پہلو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے۔ عمران خاں نے ادراک نہ کیا تو پچھتائیں گے اور بہت پچھتائیں گے۔ اخلاقی ساکھ کے سوا ان کے پاس رکھا کیا ہے؟
جسٹس وجیہہ الدین اگرچہ نہیں جیتے لیکن عمران خان ہار گئے ہیں۔ دو ممتاز قانونی ماہرین سے بات کرنے کے بعد میرا تاثر یہی ہے۔ دستور کی دفعہ 225 یعنی عوامی نمائندگی کا قانون (People's representation act) سیاسی جماعتوں میں الیکشن کو لازم قرار دیتا ہے۔ 1973ء کا دستور تشکیل پانے میں 32 سال باقی تھے، جب جماعتِ اسلامی کے پہلے انتخابات ہوئے۔ کبھی اعتراض وارد نہ ہوا۔ اے این پی کراتی ہے اور جمعیت علمائِ اسلام بھی۔ ان دونوں پارٹیوں کے بارے میں، یہ ناچیز رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ کبھی کریدا ہی نہیں۔
پیپلز پارٹی، نون لیگ اور ایم کیو ایم میں الیکشن کبھی نہ ہوئے۔ شاید کبھی نہ ہوں گے۔ الطاف حسین استعفیٰ بھی اس یقین کے ساتھ دیتے ہیں کہ مسترد کیا جائے گا۔ فریاد الگ کرتے ہیں کہ کسی دن میری پارٹی مجھے کھو دے گی۔ یعنی اللہ کے بندو! مجھے کھو دیا تو سب کچھ جاتا رہے گا۔ بھٹو دیوتا تھے اور ان کی اولاد، حتیٰ کہ داماد بھی۔ سارا کاروبار ہی بھٹو کے نام پر ہے، حتیٰ کہ نواسے کا نام پارٹی نے بدل ڈالا۔ کبھی کسی پارٹی نے بھی کسی شخص کا نام بدلا ہے؟ مریم نواز دانا تھیں کہ پہلا نام ہی برقرار رکھا۔
عمران خاں نے الیکشن کرا دیے۔ جوش و جذبے میں اس قدر تھے کہ سیاسی مضمرات اور انتظامی روایات کا خیال بھی نہ رکھا۔ میں نے پوچھا: سیکرٹری جنرل کا عہدہ تو انتظامی ہے، اس پر انتخاب؟ ''اچھا، مجھے معلوم نہ تھا‘‘ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سب کچھ نہیں جانتا۔ یہ تو مگر سب جانتے ہیں کہ جو بات معلوم نہ ہو، وہ ماہرین سے پوچھی جاتی ہے یا کم از کم کسی متعلق آدمی سے۔ وہ سیف اللہ نیازی اور جہانگیر ترین سے پوچھا کرتے ہیں۔
غلط وقت پر کرائے، بے ڈھنگے پن سے کرائے مگر اچھا کیا کہ الیکشن کرا دیے۔ ظاہر ہوا کہ پارٹی میں بھی وہ جمہوریت چاہتے ہیں۔ بدگمان کہیں گے کہ شخصیت پرست معاشرے میں خود انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ نائب صدارت کے لیے شاہ محمود کو تھا کہ شیریں مزاری امیدوار ہو گئی تھیں۔ ان سے قومی اسمبلی کی رکنیت کا وعدہ کر کے چھٹکارا پایا۔
طوفان اٹھا، انکشاف ہوا کہ ممبر سازی ہی میں گھپلا ہے۔ فیصل آباد کے ایک حلقے میں 33000 ممبر تھے۔ سیف اللہ نیازی کی فہرست میں 330 نکلے۔ وہ واحد نیازی ہے، جو سادہ سے سوال کا جواب بھی کم از کم دس سیکنڈ کے بعد دیتا ہے۔ نام پوچھو تو وہ بھی سوچ سمجھ کر بتاتا ہے۔ وہ تحریکِ انصاف کا منظور وٹو ہے۔
پارٹی الیکشن پر سینہ کوبی شروع ہوئی اور ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ پوچھا جانے لگا کہ اعجاز چوہدری پنجاب کے صدر، صداقت عباسی پوٹھوہار کے سربراہ اور زاہد کاظمی ایسا آدمی پوٹھوہار کا جنرل سیکرٹری کیسے ہو گیا۔ پختون خوا اور سندھ میں بھی سیف اللہ نیازیوں، اعجاز چوہدریوں اور زاہد کاظمیوں کی مراد بر آئی۔ اس پر وجیہہ الدین ٹربیونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تب یہ اشک شوئی محسوس ہوئی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ایک سنجیدہ کاوش ہے۔ پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے سخت گیر جج کو ذمہ داری
سونپنے کا وہی نتیجہ نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا۔ انہوں نے فیصلہ صادر کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے کی دھاندلی۔ عمران خان کے علاوہ تمام عہدیداروں کو کام روکنے کا حکم جاری کیا۔ سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین سے انہوں نے جواب طلبی کا حکم دیا۔ ہدایات پر عمل درآمد نہ ہوا تو کپتان کو پیش ہونے کا۔ اس نے گریز کیا۔ ترین کی جواب طلبی سے بھی۔ نئے الیکشن کا اعلان کیا مگر تاریخ نہیں دی۔ عدالت کا فرمان یہ تھا کہ دو سال کے بعد موجودہ عہدیدار برقرار نہ رہیں۔ چیئرمین نے تنظیمیں توڑ دیں لیکن پھر نئے الیکشن تک پرانے منصب داروں کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ ''پنچوں کا کہا سر آنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں رہے گا‘‘۔ ذاتی طور پر ملاقات کی خواہش کی لیکن جج نے انکار کر دیا۔ جج ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یادداشت اگر غلطی نہیں کرتی تو ملک کے پہلے چیف جسٹس نے لیاقت علی خان کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا تھا۔ وہ روایت اگر برقرار رہتی تو کوئی جسٹس منیر پیدا ہوتا‘ نہ نظریۂ ضرورت۔ کوئی ایوب خان، کوئی یحییٰ خاں، کوئی ضیاء الحق خان اور کوئی مشرف خان بھی نہ ہوتا بلکہ کوئی بھٹو خان اور نواز شریف خان بھی نہیں۔
چیئرمین نے ٹربیونل توڑنے کا حکم دیا مگر قاضی نے انکار کر دیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ چیئرمین ٹربیونل قائم تو کر سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے۔ جس طرح جنرل ضیاء الحق کے پہلے وفاقی محتسب نے کہا تھا: آپ مجھے مقرر تو کر سکتے ہیں، ہٹا نہیں سکتے۔ دستور کی اصطلاح میں اسے آئینی تحفظ (Constitutional Cover) کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے علاوہ وفاقی محتسب، آڈیٹر جنرل اور وفاقی ٹیکس محتسب بھی اس تحفظ کے سزاوار ہیں۔ کسی کے ایما پر صدر زرداری نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو ہٹانا چاہا تو انہیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایک پُرکشش عہدے کی پیشکش کی تھی۔ چار ماہ کی بجائے، جو ان کے منصب کی باقی ماندہ مدّت تھی، وہ تین سال ایک شاندار منصب کے مزے لوٹتے۔ ڈاکٹر نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: پھر کس منہ سے میں لوگوں سے کہوں گا کہ افسر شاہوں کو بادشاہوں کا آلۂ کار نہ بننا چاہیے۔ یہ بھی کہ تب ایک نئی حکومت بن چکی ہو گی۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ نیا محتسب لائے۔ یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف نے رانا بلند اختر کو برقرار رکھا۔ گیلانی صاحب نے اس لیے کہ وہ رانا صاحب سے مستغنی ہرگز نہ تھے۔ رہے پرویز اشرف تو وہ ''کارِ دگر‘‘ میں مصروف تھے۔ حافظ شیراز نے کہا تھا ؎
واعظان کاین جلوہ در محراب و منبر می کنند
چوں بہ خلوت می روند، آں کارِ دیگر می کنند
(واعظ منبر و محراب پر کچھ اور طرح سے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ تنہائی میں کچھ اور کیا کرتے ہیں)۔ آئینی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جسٹس وجیہہ الدین کمیشن برقرار رکھنے پر اصرار نہیں کر سکتے۔ کوئی قانون ان کے اقدام کو تحفظ نہ دے گا۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابات ان کی اپنی صوابدید پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو غالب امکان ہے کہ عمران خان کا موقف درست ثابت ہو۔ بنیادی سوال مگر دوسرا ہے۔ قومی انتخابات پر کپتان کا موقف یہ ہے کہ نہ صرف دھاندلی کی تحقیقات ہوں بلکہ ذمہ داروں کو سزا بھی دی جائے۔ یہی نہیں، حکومت کو بزور برطرف کرنے کے لیے مہینوں دھرنا رچایا۔ ذرائع ابلاغ اور پوری قوم کو الجھائے رکھا۔ آج بھی وہ یہ کہتا ہے کہ 2015ء الیکشن کا سال ہے کہ دھاندلی تو ہوئی ہے۔
پوچھنے والے اب یہ پوچھیں گے کہ حضور! آپ کی پارٹی میں دھاندلی تو ثابت ہو چکی۔ آپ انتظار میں کیوں ہیں؟ الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔ ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں؟ انہیں سزا کیوں نہیں دیتے؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
معاملے کا اخلاقی پہلو کبھی کبھی قانونی پہلو سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے۔ عمران خاں نے ادراک نہ کیا تو پچھتائیں گے اور بہت پچھتا ئیں گے۔ اخلاقی ساکھ کے سوا ان کے پاس رکھا کیا ہے؟
پسِ تحریر: نواز شریف پوچھتے ہیں کہ دھاندلی کے ثبوت اگر تھیلوں میں ہیں تو تحریکِ انصاف کے پاس کیا ہے۔ حریف لیڈر اور بعض دانشور بھی عدالت پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، سبحان اللہ! جیسا کہ عدالت نے اشارہ دیا، اگر وہ بند کمرے میں سماعت کا فیصلہ کرے تو سو فیصد حق بجانب ہو گی، بلکہ دو سو فیصد۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر