جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں‘ وہ تاریخ کا رزق ہو جاتی ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو حکومت اور جو قوم قیام امن کو اولین ترجیح نہیں بناتی۔ اُس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
ایوان صدر کے اس دن کی کہانی ایک بار پھر بیان کرتا ہوں: یہ 1995ء کا جون تھا۔ کراچی میں دس لاشیں روزانہ گرا کرتیں۔ راولپنڈی کے ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل منزل پہ پہنچے تو صدر فاروق لغاری‘ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ کو انہوں نے منتظر پایا۔ صدر لغاری نے گفتگو کا آغاز کیا اور یہ کہا: صورت حال مایوس کن ہے۔ آخری امید کے طور پر آپ کو بلایا گیا ہے۔ نہر سویز کے اس پار پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے پہلے افسر نے ملک کی تین سب سے اہم شخصیات سے یہ کہا: اقوام متحدہ کے لیے مجھے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل چن لیا گیا ہے۔ پولیس افسر سے آزردہ صدر نے یہ کہا: یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آپ انکار کیسے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس کی دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔
''میں تیار ہوں‘‘ اس نے کہا اور پوری وضاحت سے اس نکتے پر روشنی ڈالی کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں‘ جو اس کی اقتصادی شہ رگ ہے‘ امن کا حصول ممکن ہے مگر اس کی ایک شرط ہے‘ واحد شرط۔ مکمل آزادیٔ عمل انہیں درکار ہوگی۔ کوئی مداخلت نہ کرے گا‘ کوئی بھی نہیں اور ان تینوں کو اس کا وعدہ کرنا ہوگا‘ اس کی اور پولیس کی سرپرستی‘ مدد اور رہنمائی کرنا ہوگی۔
ڈاکٹر سڈل کراچی پہنچے تو انہوں نے ایک ایسے شہر کو دیکھا‘ جس میں پولیس اہلکاروں نے بال بڑھا لیے تھے۔ زیادہ خطرناک علاقوں میں بعض تھانے ایسے تھے‘ جن کے دروازے بند تھے۔ روشنیوں کا شہر‘ ایک اتھاہ مایوسی کی گرفت میں تھا۔ 1992ء کا فوجی آپریشن ناکام رہا تھا اور رینجرز کی کدوکاوش بے نتیجہ۔ اگرچہ وفاقی حکومت کی مکمل پشت پناہی اسے حاصل تھی۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر ایک چٹان کی طرح اس کی پشت پر کھڑے تھے‘ پھر بھی دور دراز کے ایک شہر سے آنے والا ایک ڈی آئی جی ایسے میں کیا کارنامہ انجام دے سکتا؟
کارنامہ اس نے انجام دے دیا۔ آپریشن کا آغاز جون کے آخر میں ہوا اور 14 اگست کو ڈبل سواری پر پابندی ختم کردی گئی۔ سات ماہ کے اندر شہر مکمل طور پر پُرامن تھا۔ قیام امن کا ہدف فقط ایک پولیس افسر کی وجہ سے ممکن نہ ہوا تھا۔ اگرچہ ٹیم کا کپتان وہ تھا مگر یہ کارنامہ کبھی انجام نہ دیا جا سکتا‘ اگر وہ بہادر آدمی‘ نصیر اللہ بابر بار بار کراچی نہ جاتے۔ اگر ایک عام سی گاڑی میں سوار تن تنہا وہ شہر کی سڑکوں پر گشت کر کے خوف کا نفسیاتی حصار توڑ نہ دیتے۔ اگر انٹیلی جنس بیورو کے فہد اور شجاعت اللہ ایسے افسر‘ عبادت کی طرح اپنے فرائض انجام نہ دے رہے ہوتے۔
کراچی کے بارے میں آخری فیصلہ کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ بالکل اس طرح‘ جیسے سانحہ پشاور کے بعد طالبان اور قبائلی علاقوں کے بارے میں کیا گیا۔ پوری قوم کی تائید اس فیصلے کو حاصل تھی؛ اگرچہ طے کردہ اقدامات پر پوری طرح عمل نہ کیا گیا۔ عسکری قیادت نے اپنی ذمہ داری پوری کی مگر سول ادارے اب تک گومگو کا شکار ہیں۔ نیکٹا کی تشکیل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ نصیر اللہ بابر نہ سہی مگر وزیرداخلہ ایک اہل آدمی ہیں۔ کم از کم یہ کہ کابینہ میں‘ کوئی دوسرا ان سے بہتر دکھائی نہیں دیتا۔ اہم اجلاسوں میں مگر انہیں مدعو نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم کے ساتھ ان کی ناراضی اب بھی برقرار ہے؛ اگرچہ اب وہ مخمصے سے نجات پاتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ کو خانہ جنگی کی دلدل سے نکالنے والے ابراہام لنکن نے‘ اپنی زندگی کی سب سے تلخ تحریر ایک جنرل کے نام لکھی تھی۔ ایک خط‘ جس میں شدید ناراضی کا اظہار تھا: تم ہمیشہ مزید فوج‘ اسلحے اور اناج کا مطالبہ کرتے ہو۔ لنکن کے المناک قتل کے بعد یہ خط ان کی دراز سے برآمد ہوا۔ ڈیل کارنیگی نے لکھا ہے: خط لکھنے کے بعد امریکی مدبر نے شاید ایوان صدر کی کھڑکی سے باہر نظر ڈالی ہو۔ تاریکی اور ٹھنڈ کی اس شدت کو محسوس کیا ہوگا‘ جس میں وہ جنرل بروئے کار تھا۔
1859ء کی امریکی خانہ جنگی ابتدائی مرحلے میں تھی جب لنکن نے فوجی افسروں کو طلب کیا اور یہ کہا: تمغوں والے جنرل نہیں‘ مجھے وہ آدمی چاہیے‘ جو جنگ جیت کر دے سکے۔ پھر اس آدمی کو انہوں نے ذمہ داری سونپی‘ جس نے جنوب کو پسپا کر دکھایا۔
1776ء میں آزادی حاصل کرنے کے 83 برس بعد غلامی برقرار رکھنے یا ختم کرنے کے تنازع پر شمال اور جنوب میں خوفناک جنگ کا آغاز ہوا تو 15 لاکھ افراد مارے گئے۔ قوم نے آخرکار ادراک کر لیا کہ امن اگر قائم نہ ہوا تو وہ خود کو تباہ کر لے گی۔ پاکستانی قوم کے لیے اس ادراک کی ساعت آ پہنچی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد طالبان کے ساتھ بے معنی اور بے ثمر مذاکرات کا سلسلہ‘ جو جنرل ثناء اللہ نیازی‘ 13 فوجیوں کی شہادت کے علاوہ‘ چرچ میں عبادت کرنے والے ڈیڑھ سو مسیحی پاکستانیوں کے المناک قتل کے باوجود جاری تھا۔ کراچی میں گومگو کی کیفیت اب ختم ہونی چاہیے۔
جنرل راحیل شریف سری لنکا کے لیے پابہ رکاب تھے۔ جہاز پر سوار ہونے کی بجائے وہ کراچی پہنچے۔ پرنس کریم آغا خان سے انہوں نے رابطہ کیا۔
صوبائی حکومت نے وہی کیا‘ جس کی اس سے امید تھی۔ وہ علاقے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کرنے پر اکتفا کرتی۔ آئی جی کو اس لیے سبکدوش کیا گیا کہ عوامی ردعمل شدید تھا‘ وگرنہ وزیراعلیٰ کا انداز فکر مختلف تھا۔ ان کا ارشاد یہ ہے کہ اس طرح کے سانحے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ وہی کیا‘ ان کا کوئی ساتھی بھی کیوں؟ اس دانا آدمی کو معلوم نہیں کہ حکومت کابینہ کی مشترکہ ذمہ د اری ہوتی ہے۔ اگر ایک ٹیم مسلسل ہارتی چلی جائے تو کپتان کو الگ کرنا پڑتا ہے اور ٹیم میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ 86 سالہ قائم علی شاہ کا بس چلا تو وہ اقتدار سے چمٹے رہیں گے۔ زرداری صاحب کا بس چلا تو انہیں برقرار رکھیں گے۔ اس لیے کہ وہ بہترین آلۂ کار ہیں۔ قائم علی شاہ کو رخصت کرنا ہوگا۔ زرداری صاحب میں اخلاقی جرأت کی ایک رمق بھی موجود ہے تو فوری طور پر انہیں گھر بھیج دینا چاہیے۔ دوسرے تو کیا خود ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ وزیراعلیٰ اور ان کے ساتھیوں سے نالاں ہیں‘ جو شہزادے کا سیاسی مستقبل تاریک تر کر دینے پر تلے ہیں۔
سوال صرف یہ نہیں کہ سانحے کی ذمہ داری کس نے قبول کی اور آلۂ کار کون ہے۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس کارروائی میں غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہے۔ صاف الفاظ میں یہ کہ کیا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ نے اس پھیکی تنقید کا جواب دینے کے لیے بے گناہ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو قتل کیا‘ ہفتے عشرے سے جس کا سلسلہ جاری تھا؟ شواہد اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کو خاک چاٹنا پڑی ہے اور اس پر وہ برہم ہے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور خطے میں قیام امن کے امکانات پر وہ تشویش کا شکار ہے۔ حال ہی میں‘ بھارت کے دورے سے واپس آنے والے ایک سابق سفارت کار کا کہنا یہ ہے: دس بارہ برس سے پاکستان کا مذاق اڑانے والے بھارتی رہنما‘ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ 'را‘ کے مقامی حلیف کون ہیں اور ان دونوں کا ہدف کیا ہے۔
منگل کو وزیراعظم مودی کو یاد آیا کہ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ ڈپلومیسی بحال ہونی چاہیے۔ اپنی پارلیمانی پارٹی سے مشورہ کرنے کی بجائے یک طرفہ طور پر انہوں نے اعلان کردیا اور بالکل غیر متوقع طور پر۔ آخر کیوں؟ یہ سموک سکرین پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی؟
پولیس! خواہ وہ دہشت گردی ہو یا ایک بڑے شہر کی مافیاز‘ جرائم سے نمٹنا پولیس کا کام ہے‘ رینجرز اور فوج کا نہیں۔ اول جنرل رضوان اور پھر جنرل بلال کی قیادت میں رینجرز کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔ بلکہ بعض اوقات قابل فخر۔ پولیس کی تشکیل نو‘ اس کی تعداد میں اضافے‘ تربیت میں بہتری اور قانون کے دائرے میں بروئے کار آنے کی مکمل آزادی کے بغیر کراچی میں امن بحال نہیں ہو سکتا‘ خاص طور پر ان دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی میں‘ سپریم کورٹ جن کے بارے میں حتمی رائے دے چکی۔
جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں‘ وہ تاریخ کا رزق ہو جاتی ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو حکومت اور جو قوم قیام امن کو اولین ترجیح نہیں بناتی۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا۔