"HRC" (space) message & send to 7575

خوارج

سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کا فرمان یہ ہے کہ خوارج ہمیشہ رہیں گے۔
اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ''تلبیس ابلیس‘‘ میں ابن جوزیؒ نے جلیل القدر صحابی حضرت ابن عباسؓ اور خوارج کا مکالمہ بیان کیا ہے۔ ابن جوزیؒ وہ ہیں‘ جن سے امام غزالیؒ نے فیض پایا۔
'' حضرت علیؓ صفین سے واپس ہوکر کوفہ پہنچے تو خوارج آپ کے ساتھ شہر میں داخل نہ ہوئے۔ انہوں نے کوفہ کے قریب حرورامقام میں اپنا جتھا جمایا‘ حتیٰ کہ وہاں بارہ ہزار خوارج جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ''لا حُکمَ الّاﷲ‘‘۔ خارجی بہت عبادت کیا کرتے۔ مگر ان کااعتقاد تھا کہ وہ لوگ علیؓا بن ابی طالب سے بڑھ کر عالم ہیں۔
ابن عباسؓ نے روایت کیا:'' جب خوارج الگ ہوئے تو ایک احاطہ میں جمع ہوئے اور وہ چھ ہزار تھے۔ سب نے اتفاق کیا کہ امیرالمومنین علیؓ بن ابی طالب پر خروج کریں۔ لوگ ایک ایک دو دو برابر آتے اور امیرالمومنین کو خبر دیتے۔آپ فرماتے: ان کو چھوڑ دو۔ میں ان سے قتال نہیں کرتا جب تک وہ مجھ سے قتال نہ کریں۔ وقت قریب ہے کہ جب وہ لوگ خود ایسا کریں گے۔ پھر ایک روز میں نے آپ سے عرض کیا: اے امیرالمومنین نماز ظہرمیں کچھ تاخیر کیجیے۔ میرا ارادہ ہے کہ خوارج میں جاکر ان سے گفتگو کروں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ان کی طرف سے آپ پر خوف ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ مجھ پر خوف نہ کیجیے اور میں ایک ملنسار شخص تھا‘ کسی کو ایذا نہ دیتا تھا۔ آپ نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے بیش قیمت حُلّہ پہنا اور روانہ ہوکر ان خارجیوں کے یہاں پہنچا۔ میں نے وہاں ایسی قوم کو دیکھا جن سے بڑھ کر عبادت کرنے والی قوم میں نے دیکھی نہ تھی۔
پیشانیوں پر سجدوں کی کثرت سے زخم تھے۔ ان کے بدن پر حقیر قمیصیں تھیں۔ ان کی ازاریں ٹخنوں سے بہت اونچی تھیں۔ راتوں کو عبادت میںجاگنے سے ان کے چہرے خشک ہورہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ مرحبا اے ابن عباسؓ! میں نے کہا کہ میں تمھارے پاس مہاجرین اور انصار کے ہاں سے آیا ہوں۔ رسول اﷲﷺ کے داماد کے ہاں سے آیا ہوں۔ انہی لوگوں پر قرآن نازل ہوا ہے اور یہ لوگ قرآن کے معنی تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ میری گفتگو سن کر اُن میں سے کچھ نے کہا: یہ قریش میں سے ہے اور تم قریش سے مناظرہ مت کرو۔اﷲ تعالیٰ نے قریش کے حق میں فرمایا ہے کہ :'' بل ھم قوم خصمون‘‘ یعنی یہ لوگ جھگڑالو (حجت باز) ہیں۔ پھر دو تین آدمیوں نے کہا: نہیں بلکہ ہم ان سے مباحثہ کریں گے۔ تب میں نے کہا: تم لوگ وہ الزامات بیان کرو جو تم نے دامادِ رسول ﷺ اور مہاجرین و انصار پر لگائے ہیں۔ خوارج نے کہا وہ تین باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ علیؓ نے خدا کے معاملے میں لوگوں کو ثالث بنایا۔ حالانکہ اﷲ فرماتا ہے:''ان الحکم الّا ﷲ‘‘ یعنی حکم کسی کا نہیں سوائے اﷲ کے۔ تو اس قول الٰہی کے بعد آدمی کو حَکَم سے کیا تعلق رہا۔ میں نے کہا: اگر میں تم پر کتاب الٰہی سے ایسی آیات تلاوت کروں جن سے تمہارا قول ٹوٹ جائے تو کیا تم اپنے قول سے توبہ کرلو گے۔ کہنے لگے کہ ہاں! میں نے کہا کہ اﷲ نے ایک خرگوش کے معاملے میں جس کی قیمت چوتھائی درہم ہوتی ہے‘ دو مردوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اور میں نے یہ آیت پڑھی: لا تقتلوا الصید وانتم حرم۔
ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں: آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم میں ایک قوم ایسی نکلے گی کہ ان کی نماز کے مقابلے میں تم اپنی نماز کو حقیر سمجھو گے اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپنا روزہ۔ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، اور وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
اگر کسی نے جرم کیا مثلاً حالت احرام میں ایک خرگوش مارا تو فرمایا گیا کہ تم میں دو عادل مرد اس موقع پر جہاں جانور مارا ہے اس کی قیمت کا فیصلہ کریں۔ اور اﷲ تعالیٰ نے عورت اور اس کے شوہر کے معاملے میں فرمایا: ''اگر تمہیں میاں بیوی میں ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اﷲ دونوں میں ملاپ کرا دے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ پورے علم اور پوری خبر والاہے۔‘‘(سورۃالنسا:35)
اب میں تم لوگوں کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کہ بھلا مردوں کا حکم لگانا اپنے درمیان صلح اور خوں ریزی روکنے میں افضل ہے یا کہ ایک خرگوش اور عورت کے معاملے میں افضل ہے۔ خوارج نے کہا کہ بے شک باہمی صلح کے معاملے میں افضل ہے۔ تمہارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ علیؓ نے قتال کیا اور قیدی و غنیمت حاصل نہ کی۔ تو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ (نعوذباللہ) کیا تم امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو مملوکہ بناؤ گے؟ واﷲ اگر تم کہو کہ وہ ہماری ماں نہیں ہیں تو تم اسلام سے خارج ہوئے۔ اﷲ فرماتا ہے: ''پیغمبرﷺ مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبرﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔۔۔‘‘ پھر اگر تم کہو کہ ہماری ماں نہیں ہے تو تم اسلام سے خارج ہو۔ خوارج نے تسلیم کیا کہ ان کے اس اعتراض کا جواب بھی انہیں مل گیا۔ میں نے کہا کہ رہا تمہارا یہ اعتراض کہ علیؓ نے معاہدے کے وقت امیرالمومنین کا لفظ اپنے نام سے مٹا دیا تو میں تمہارے پاس ایسے عادل گواہ لاتا ہوں جن کو تم مانتے ہو۔ حدیبیہ میں رسول اﷲﷺ نے مشرکوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تو مشرکینِ مکہ کے سردار ابوسفیان صخر بن حرب اور سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح نامہ لکھوایا اور علیؓ سے فرمایا کہ لکھو:''یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اﷲ اور۔۔۔۔‘‘ تو مشرکوں نے کہا کہ واﷲ ہم نہیں جانتے کہ آپ رسول اﷲ ہیں اور اگر ہم جانتے کہ آپ خدا کے رسول ہیں تو کبھی آپ سے قتال نہ کرتے۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ''میرے رب تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں‘‘ اور پھر فرمایا کہ اے علیؓ!اس کو مٹا دو۔ رسول اﷲﷺ علیؓ سے بہتر ہیں ، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ رسول اﷲ محو کروادیا۔ ‘‘ ابن عباسؓ کے اس مکالمے کے نتیجے میں خوارج میں سے دوہزار آدمی توبہ کرکے واپس آئے اور باقی اپنی گمراہی پر مارے گئے۔
جندب الازدیؓ نے کہا کہ جب ہم نے حضرت علیؓ کے ساتھ خوارج پر چڑھائی کی اور ان کی لشکر گاہ کے قریب پہنچے تو ان کی تلاوت قرآن کی آوازیں اس کثرت سے آتی تھیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ۔
ایک روز خوارج راستے میں جاتے تھے کہ عبداﷲؓ بن خباب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عبداﷲ ؓ کو گرفتار لیا اور کہا کہ تم نے اپنے باپ سے کوئی حدیث سنی ہو تو ہم سے بیان کرو۔ عبداﷲؓ نے کہا کہ ہاں۔ رسول اﷲﷺ سے وہ روایت کرتے تھے۔ آپﷺ نے ایسے فتنے کا ذکر کیا جس میں بیٹھ جانے والا کھڑے سے بہتر ہوگا اور کھڑا بہ نسبت چلنے والے کے بہتر ہوگا اور چلنے والا بہ نسبت دوڑنے والے کے بہتر ہوگا۔ اگر تجھ کو یہ فتنہ پہنچے تو تجھے چاہیے کہ مقتول ہوجائے۔ خوارج نے انھیں نہر کے کنارے کھڑا کرکے گردن ماردی چنانچہ ان کا خون نہر میں اس طرح رواں ہوا جیسے جوتی کا تسمہ ہوتا ہے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں‘ ان کا پیٹ چاک کردیا۔یہی قاتل ایک باغ میں پہنچے ، ان میں سے ایک نے وہاں گرا ہوا پھل اٹھا کر کھانا چاہا تو دوسرے نے کہا کہ بے حلت اوربغیر داموں کے اس کو کھاتا ہے۔ اس نے فوراً منہ سے نکال پھینکا۔ ان جاہلوں کی کم بختی یہ تھی کہ ایک پھل کا یہ لحاظ اور عبداﷲؓ بن خباب کا خون بہانے میں اس قدر بے باکی۔
ابن جوزی لکھتے ہیں کہ خوارج لڑائی شروع ہوتے وقت ایک دوسرے کو وعظ کرتے تھے کہ ''اپنے رب سے ملنے کے لیے آراستہ ہو اور چلو جنت کو چلو‘‘۔
سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کا فرمان یہ ہے کہ خوارج ہمیشہ رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں