اپنا احتساب جو خود نہیں کر سکتے، دوسرے ان کا احتساب کرتے ہیں۔ جو وقت کے ماتھے پر لکھی ہوئی تحریر نہیں پڑھ سکتے، وقت انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔ رکو کپتان! رک جائو۔ ع
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
ملتان کے ضمنی الیکشن میں تحریکِ انصاف کی ناکامی نوشتۂ دیوار تھی۔ سوچ سمجھ کر لکھنے سے گریز کیا کہ جبینوں پہ اور شکنیں نہ پڑیں۔ یہ ناچیز اقتدار کے کھیل کا حصہ نہیں۔ اسے قومی اسمبلی کا ممبر بننا ہے اور نہ سینیٹر۔ اہلِ علم کی صحبت نے خوب سمجھا دیا کہ طاقت کے نشے سے تباہ کن چیز کوئی نہیں۔ آرزو فقط یہ تھی کہ ایک ماڈرن اور تعمیری سیاسی جماعت ملک کو نصیب ہو۔ مدّتوں سے میری پختہ رائے یہ تھی کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ملک کا بھلا نہ ہو گا۔ اب بھی یہی ہے۔ بدعنوانی کی دلدل میں دھنسی یہ خاندانی پارٹیاں ہیں۔ ساری منصوبہ بندی ایک شخص اور ایک خاندان کے لیے۔ مشیرانِ کرام کی حیثیت مصاحبوں سے مختلف نہیں۔ ہم قائد اعظمؒ کے قتیل کیسے گوارا کرتے۔
ایک اخبار نویس کے لیے کسی پارٹی کی حمایت بہت ہی مہنگا سودا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود فیصلہ اس لیے کیا کہ شاید ملک کا بھلا ہو۔ شاید صدیوں سے اس دیار کے کشتگان پر تنے الم کے تاریک سیاہ بادل تحلیل ہو سکیں۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ 2013ء میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انکشاف ہوا کہ شاہ محمود قریشی ایسے لوگوں کا کردار فیصلہ کن ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے بہترین لوگ مسترد اور بدترین سرفراز کیے گئے۔ معاملات کوکریدا تو دور دور تک تاریکی۔
آدمی کو ایسے میں خود اپنی غلطیوں کا جائزہ بھی لینا چاہیے‘ بلکہ زیادہ اپنا ہی۔ اب میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ حماقت کہاں سرزد ہوئی۔ پارٹی کے اجلاسوں میں مجھے شریک ہونا چاہیے تھا، جو میں کبھی نہ ہوا۔ صاف صاف الفاظ میں مجھے کہنا پڑا کہ بعض ایسے لوگوں کو بھی نوازا گیا، جنہیں کوئی دو چار سو روپے قرض دینا بھی گوارا نہ کرے۔
تین طرح کے ردّعمل سامنے آئے۔ خان صاحب ناراض ہو گئے۔ بیشتر اخبار نویسوں نے محسوس کیا کہ ناراضی کا سبب ذاتی ہے۔ پارٹی کے ایک ٹولے نے کردار کشی کی کوشش کی اور بعض نومولود اخبار نویس خوش دلی سے اس میں شریک ہو گئے۔ الحمدللہ آخرالذکر کی کوئی پروا کبھی تھی اور نہ انشاء اللہ آئندہ ہو گی۔ زیادتی اور ظلم سے آدمی کو گریز کرنا چاہیے۔ اپنی غلطی مان لینی چاہیے۔ رہی بے بنیاد اور بے سبب تنقید تو تاریخ کے بہترین لوگ اس سے محفوظ نہ رہے‘ ہم خطاکار کس کھیت کی مولی ہیں۔ تجربے سے سیکھا ہے کہ آدمی اگر بدنیتی سے محفوظ رہ سکے اور اللہ کی پناہ مانگتا رہے تو کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
پانچ بڑی غلطیاں پارٹی نے کیں۔ عہدیداروں کے انتخاب میں پرلے درجے کی بے احتیاطی، الیکشن کے سال میں دھاندلی زدہ پارٹی الیکشن، ٹکٹ جاری کر نے کے لیے کسی نظام کی تشکیل سے گریز، ٹکٹوں کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر اور پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے میں المناک کوتاہی۔ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عمران خان ہمیشہ مجھ سے مشورہ کیا کرتے۔ یہ بات درست نہیں۔ وہ ایک مصروف آدمی ہیں اور یہ ناچیز قلم کا مزدور۔ مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ مردم ناشناس آدمی ایسے لوگوں کے جلو میں ہے، جو ذاتی اغراض سے اوپر اٹھ کر سوچ ہی نہیں سکتے۔
کوئی ذاتی ناراضی تھی ہی نہیں۔ طوفان گزر چکا تو خان نے مجھ سے رابطہ کیا۔ ملاقات پھر سے ہونے لگی۔ دونوں نے اپنا موقف بیان کیا۔ ذاتی احترام قائم رہا۔ اختلاف برحق، نجی مراسم برباد نہیں کیے جا سکتے۔ مشترکہ دوستوں نے کپتان کو احساس دلایا، مجھ سے بھی بات کی۔ یہ فیصلہ البتہ کر لیا کہ غیر ضروری طور پر ملوّث ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب لازم ہوا تو بات کر لی۔ کوشش کی کہ ممکن حد تک اخبار اور ٹی وی میں اپنے اظہار پر تعصب اور تعلق کا سایہ نہ پڑنے دیا جائے۔ مسلمان کا مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کا رشتہ ہوا کرتا ہے۔
جاوید ہاشمی نے بعد میں جو کچھ کیا سو کیا مگر جب تحریکِ انصاف میں وہ شامل ہوئے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ شاہ محمود نے اوّل دن سے محاذ آرائی کا آغاز کر دیا۔ یہ 2011ء کا دسمبر تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ جاوید صاحب کراچی پہنچیں تو ہوائی اڈے پر عمران خان استقبال کریں گے۔ شاہ محمود نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ کہا، یہ ان کی عزت کا مسئلہ ہے؛ حتیٰ کہ ہاتھ جوڑے اور رو دیے۔ ان کی خود غرضی اور خود ترسی نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ اسی شام ٹی وی کے ایک مقبول پروگرام میں خبر میں نے سنا دی اور اپنا موقف بھی کھل کر بیان کر دیا۔
چند روز کے بعد اس وقت جب میں خان کی رہائش گاہ پہ پہنچا‘ بی بی سی کو انٹرویو دینے کے لیے وہ ''ایئرفون‘‘ کانوں میں لگا چکے تھے۔ میں نے دروازہ کھولا اور درخواست کی کہ وہ فوراً میری بات سنیں۔ عرض کیا: شاہ محمود پارٹی میں اپنا دھڑا تشکیل دے رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا نہیں۔ بعد ازاں بار بار اس کی تصدیق ہوئی۔ خان مجھ سے کہتا رہا کہ میں اس کے باب میں نرمی سے کام لوں مگر آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے۔
جاوید ہاشمی چلے گئے اور انہوں نے پہاڑ سی غلطی کا ارتکاب کیا۔ انہی کو نہیں، دھرنے سے بہت سوں کو اختلاف تھا۔ مجھے تو بہت زیادہ۔ بار بار میں خان سے کہتا رہا کہ پارٹی کی تنظیم اس کا سب سے بڑا ہدف ہونا چاہیے۔ کارکنوں کی تربیت۔ موزوں عہدیداروںکا انتخاب۔ پولیس، سول سروس، پٹوار، ٹیکس وصولی اور دوسرے سنگین مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی۔ جاوید صاحب کو چاہیے تھا کہ خاموشی سے بیرونِ ملک چلے جاتے۔
شاہ محمود کی پوزیشن اور بھی مضبوط ہو گئی۔ بخدا میں کرید میں نہیں لگا رہتا۔ میری ہرگز ان سے ذاتی عداوت نہیں لیکن پھر یہ کہ ہمارے پاس دو ترازو نہیں۔ اگر وہ ذاتی اغراض کے لیے اس سیاسی پارٹی کو تباہ کرنے کی کوشش کریں، جس کی تعمیر میں، ہمارا کچھ خون پسینہ بھی شامل ہے تو ہم لوگ کیا کریں۔
وہ ٹیم کے کھلاڑی نہیں۔ ماروی میمن پارٹی میں شامل ہو جاتیں، اگر اپنے میلے میں وہ انہیں دھتکار نہ دیتے۔ جاوید ہاشمی بھی شاید جماعت کو الوداع نہ کہتے۔ لاہور کینٹ میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج شاید مختلف ہوتے۔ ملتان کے حالیہ ضمنی الیکشن کا نتیجہ ایسا عبرت ناک نہ ہوتا۔
تحریکِ انصاف کی تائید کے مہ و سال پر کیا میں رنج کا شکار ہوں؟ جی نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے، شیطنت بھی وہیں سے آغاز کرتی ہے۔ اپنی غلطیاں البتہ شمار کرتا رہتا ہوں۔ دوسروںکا نہیں، اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوں۔ 30 اکتوبر 2011ء کے بعد پارٹی اور اس کے سربراہ نے اور بھی بے شمار غلطیاں کیں مگر شاہ محمود جیسے لوگوں کو غیر ضروری اہمیت دینے کا فیصلہ کینسر ثابت ہوا۔ شنید ہے کہ کپتان پارٹی کی تنظیمیں توڑ کر شاہ محمود کو چیف آرگنائزر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے زیادہ تباہ کن فیصلہ ممکن ہی نہیں۔ یہ خود کشی کا نسخہ ہے۔ شاہ محمود کارکنوں سے اپنی ذات کے لیے وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ ہر متحرک اور موثر لیڈر کے خلاف ہیں۔ ان کا تازہ ترین ہدف چوہدری سرور ہیں، جو پارٹی کے لیے ایک عظیم اثاثہ بن سکتے ہیں۔ منڈی بہائوالدین کے حلقہ این اے 108 میں ضمنی الیکشن ہونے والا ہے۔ ایسا امیدوار شاہ محمود نے چنا ہے، جس کی ہار یقینی ہے۔ لاکھوں مخلص نوجوانوں نے اپنی تمام تر امیدیں عمران خان سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ ان امیدوں کا کیا ہو گا؟
کبھی امتحان ایسا ہوتا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو اپنی تمام تر حکمتِ عملی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ تحریکِ انصاف کے لیے وہ وقت آپہنچا۔ اپنا احتساب جو خود نہیں کر سکتے، دوسرے ان کا احتساب کرتے ہیں۔ جو وقت کے ماتھے پر لکھی ہوئی تحریر نہیں پڑھ سکتے، وقت انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔ رکو کپتان! رک جائو۔ع
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
کالم لکھا جا چکا تو خبر آئی کہ تنظیمیں توڑ دی گئی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ شاہ محمود قریشی کو چیف آرگنائزر مقرر نہیں کیا گیا۔