میں خطار کا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دوسروں کی بجائے ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
حامد خان نے ایک ایسی بات کہی کہ میں ہکا بکا رہ گیا ۔فرمایا وکلاء کے جلوسوں میں شاید کچھ دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہوں‘ ہماری پالیسی ورنہ تشدد کی نہیں۔ سبحان اللہ! ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
ڈسکہ میں دو وکیل بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ کون ہے‘ جس نے اس وحشیانہ حرکت کی مذمت نہ کی اور کون ہے جو مذمت نہ کرے گا۔ مگر اس کامطلب یہ ہے کہ سارے ملک میں آگ لگا دی جائے؟
اگر یہ نفاذ قانون کا مسئلہ ہے تو اس کا ایک مسلمہ طریق کار ہے اور وکلا اسے خوب سمجھتے ہیں۔ مچھلی کو کوئی تیرنا نہیں سکھاتا۔ لیکن اگر طاقت کی نمائش مطلوب ہے تو یہ ایک بالکل دوسری بات ہے اور بظاہر وہی مطلوب ہے۔ حکومت اور معاشرے کے نام معزز قانون دانوں کا پیغام شاید یہ ہے: دوسروں کی ہمیں پروا نہیں لیکن کالا کوٹ پہننے والے کسی شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی تو حکومت ہی عذاب میں مبتلا نہ ہوگی بلکہ پورا معاشرہ۔ سڑکیں بند کردی جائیں گی‘ عدالتوں کو یرغمال بنا لیا جائے گا اور جب تک تمام لوگ ان کے سامنے سربسجود نہ ہو جائیں‘ یہ سلسلہ جاری رہے گا ؎
اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
انصاف نہیں‘ یہ انتقام کی آرزو ہے۔ یہ طاقت کی نمائش اور یہ اعلانِ جنگ ہے‘ پورے ملک کے خلاف۔ امن انتقام نہیں‘ قصاص سے جنم لیتا ہے۔ وکلا کی تحریک میں وحشت کے آثار اُسی وقت پھوٹ پڑے تھے‘ جب وہ عروج پر پہنچی۔ سپریم کورٹ میں ان کے ایک اجتماع میں جو نعرے لگائے گئے‘ وہ نقل نہیں کیے جا سکتے۔ کر دیئے جائیں تو چھپیں گے نہیں۔ اسی زمانے میں یہ جملہ عرض کیا تھا: خون کو پانی سے دھویا جا سکتا ہے‘ خون سے نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مجھ ناچیز سمیت‘ ہم میں سے اکثر اس وقت یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ وکلا تحریک کی غیر مشروط اور مبالغہ آمیز تحسین و تائید کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس تحریک نے ہمیں تین لیڈر دیئے۔ ایک حامد علی خان‘ جن پر الزام ہے کہ ججوں کے تقرر میں جوڑ توڑ کرتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو کیا قیام عدل کے نام پر وہ نظام انصاف کے قاتل نہیں؟ دوسری محترمہ عاصمہ جہانگیر‘ جو پاکستان کو مغرب اور بھارت کے نقطۂ نظر سے دیکھتی ہیں۔ بھارت اور مغرب کو پاکستان کے نقطۂ نظر سے نہیں۔ تیسرے اعتزاز احسن‘ جن کے کارنامے معلوم ہیں۔
اوّل اوّل اقبال نے اشتراکیت کا خیرمقدم کیا تھا۔ اس لیے کہ کسی بھی صاحب دل کی طرح خوں آشام سرمایہ داری کے وہ مخالف تھے۔ آخر کو مگر اس نتیجے پر پہنچے کہ ع
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
پانچ کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کو سٹالن نے قتل کیا اور ایک کروڑ کو مائوزے تنگ نے۔ اس اثنا میں برصغیر میں ترقی پسند تحریک برپا تھی۔ کسی کا دل نہ ٹوٹا‘ کسی کا ضمیر نہ جاگا۔ پھر ہم نے جہادی تحریکوں کو ابھرتے دیکھا‘ خاص طور پر افغانستان میں۔ پھر ہم نے وہ لوگ دیکھے جو انسانوں کو اتنی بے دردی سے ذبح کر سکتے تھے کہ تاتاری دیکھتے تو ان پر رشک کرتے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ سب کچھ انہوں نے اللہ اور رسولؐ کے نام پر کیا۔ رحمۃ للعالمین کے نام پر جو مکہ جاتے ہوئے‘ جن کے لشکر نے راستہ بدل لیا تھا کہ راہ میں ایک کتیا نے بچے دیئے تھے۔ کسی مولوی کا دل نہ ٹوٹا‘ کسی کا ضمیر نہ جاگا۔ مساجد‘ مارکیٹیں‘ مزار‘ امام بارگاہیں‘ مقتل بنا دی گئیں۔ محض فقہی اختلاف پر عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے پرخچے اُڑا دیئے گئے۔ اس پیمبرؐ کا علم تھامے ہوئے‘ جس نے کہا تھا کہ جنگ میں درخت نہ کاٹا جائے‘ فصل نہ جلائی جائے۔ لاکھوں علماء کرام کے ضمیر لمبی تان کر سوئے رہے۔ مساجد اور مدارس میں قرآن حکیم کی تلاوت و تشریح جاری رہی۔ پیغمبرِ رئوف و رحیم کی مدح میں آنسو بہتے رہے مگر قرآن کریم کی یہ آیت کسی کو یاد نہ آئی ''کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کردے۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ ہے‘‘۔
کیوں؟ آخر کیوں؟ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے اقتدار میں سوات کے مقتل کس طرح آباد رہے۔ وزیرستان کی ایک تہائی آبادی خانہ جنگی کی معیشت سے کس طرح وابستہ ہو گئی۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اپنا گریبان چاک کر ڈالے۔ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان ان طالبان سے مذاکرات کی حمایت کس طرح کرتے رہے‘ جن پر انسانی خون مباح تھا۔ جو منشیات‘ سمگلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ بینک ڈکیتیوں‘ حتیٰ کہ دشمن ممالک کے آلہ کار بن کر وسائل مہیا کرتے ہیں۔
ہم سب غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے‘ مگر اس وقت جب غلطی واضح ہو جائے؟ کیا یہ بے ضمیری اور بے حسی نہیں۔ دوسروں کو چھوڑیے‘ وہ لوگ یہ روش کیسے اختیار کرسکتے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک دن انہیں خدا کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ذاتی گناہ بھی گناہ ہے مگر اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ سچے دل سے معافی مانگ لو تو معاف کر دیئے جائیں گے‘ جمیعاً‘ سب کے سب۔ بے گناہ انسانوں کا خون مگر کس طرح معاف ہو سکتا ہے۔
جہل ہے‘ اس خدا کی قسم‘ جس کے قبضہ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے‘ یہ جہل ہے‘ ضد ہے‘ خودپسندی۔ یہ وہ اندھا ایمان ہے‘ جو فرقہ پرستی سے پھوٹتا ہے۔ یہ وہ رہنما ہیں جو خود جہالت کا شکار ہیں اور اللہ کے نام پر‘ جہالت ہی کی تبلیغ کرتے ہیں۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
پروردگار کا فرمان یہ ہے: نفس کو میں نے پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ عارف سے پوچھا گیا کہ کیا نفس آدمی کو گمراہ کرتا ہے یا شیطان۔ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے‘ جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ صوفی کا قول اس لیے یہ ہے کہ راہ سلوک کا مسافر‘ دوسروں کو دائم رعایت دے سکتا ہے مگر خود کو کبھی نہیں۔ مولوی صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ خود کو وہ ہمیشہ رعایت دیتے ہیں‘ دوسروں کو کبھی نہیں۔ ہم سے کیا شکایت ہے‘ اقبال نے ملاّ کے بارے میں کیا کہا تھا ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
سب کے سب ملا ہو گئے۔ اشتراکی بھی‘ سیکولر بھی‘ جاگیردار اور حاکم بھی۔ وکیل کیوں نہ ہوں۔ عدالتوں اور کچہریوں میں جانے والے سب جانتے ہیں کہ جس طرح خدا کا دین ملا کے ہاتھوں برباد ہے‘ نظام انصاف وکلا کے دام میں ہے۔ ہاں! سب کے سب برے نہیں۔ اسے مگر کیا کہیے جو ظلم کے لیے جواز تراشے۔ سرکارؐ نے کیا کہا تھا؟ خدا کی قسم‘ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
میڈیا؟ کیا پانچ سات روز سے آپ دیکھ نہیں رہے کہ جعلی ڈگریوں والے کے باب میں ہمارا ایمان کس طرح تڑپ کر جاگا ہے؟ جعلی ڈگریاں بیچنا کیا قومی دفاع کو نقصان پہنچانے سے بڑا مجرم ہے؟ کیا اس طرح کے اور مجرم دندناتے نہیں پھر رہے؟
میں خطار کا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دوسروں کی بجائے ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
پس تحریر: جیسا کہ اندیشہ تھا شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کا چیف آرگنائزر مقرر کردیا گیا ہے۔ ملتان‘ لاہور اور منڈی بہائوالدین میں پارٹی کے خلاف شکست کا بندوبست کرنے والے ان صاحب کی موجودگی میں اب کسی سازش کرنے والے کو سازش کی کوئی ضرورت نہیںع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو