"HRC" (space) message & send to 7575

اے کاش!

کبھی کبھی البتہ یہ آرزو تڑپ اٹھتی ہے ۔ کاش کسی ایک دن الطاف حسین ، عمران خان ، پرویز رشید، میاں محمد شہباز شریف ، شیخ رشید اور شیریں مزاری خاموش رہیں ۔ پورا دن خاموش ! کاش کبھی وہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں ۔ اے کاش!
وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے تین شرائط عائد کی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ پوری نہ کی گئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عمران خان کی پیشکش محض ایک ڈھونگ ہے ۔ پہلی شرط یہ کہ وہ ان تمام لوگوں کو پارٹی سے نکالیں ، جنہوں نے انتخابی عمل کو قتل و غارت گری ، سرکاری مشینری کے استعمال اور مسلّح طاقت سے چرانے کی کوشش کی ۔ دوسری شرط: عمران خان عہد کریں کہ دوبارہ بلدیاتی الیکشن میں چوری سے انتخابی نتائج حاصل کرنے والوں کو نہ صرف پارٹی سے خارج کریں گے بلکہ پارٹی ٹکٹ بھی نہ دیں گے ۔ تیسری شرط : اس چار کے ٹولے کے نام افشا کریں ، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر گھنائونا حربہ برتنے کا جس نے مشورہ دیا ۔
وفاقی وزیر ان شرائط میں کچھ اور اضافہ کر سکتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ آئندہ پارٹی کے اجلاس بنی گالہ میں نہ ہوا کریں گے ۔ امیدواروں کا انتخاب وہ ایسے لوگوں کے مشورے سے کریں گے ، جن کا پارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہ رہاہو ''اس لیے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے‘‘ زیادہ بہتر یہ ہے کہ امیدواروں کی منظوری وہ نون لیگ سے حاصل کریں تاکہ نزاع کا اندیشہ ختم ہو جائے ۔ پارٹی کے زیادہ تر امیدواروں کا تعلق تحریکِ انصاف سے نہیں ہونا چاہیے کہ ڈھنگ کے لوگ اس میں بہت کم ہیں ۔
اگر یہ طے کر لیا جائے کہ اہم سیاسی فیصلے کرتے ہوئے کپتان کو
چھوٹے شیخ کی شرائط ملحوظ رکھنا ہیں تو خیر سگالی کے طور پر نون لیگ بھی عمران خان سے مشورہ کر سکتی ہے ۔ خاص طور پر اس وقت جب دونوں پارٹیوں میں مذاکرات کا مرحلہ آئے ۔ عمران خان اس طرح کی جوابی شرائط عائد کر سکتے ہیں : میاں محمد نواز شریف اور ان کے صاحبزادے لندن سے اپنا تمام سرمایہ واپس لائیں کہ غیر قانونی طور پر بھیجا گیا۔ منی لانڈرنگ سمیت کئی قومی قوانین کی خلاف ورزی کے وہ مرتکب ہوئے ۔ قوم سے خطاب میں وزیرِ اعظم معافی مانگیں ۔ قوم اگر معاف کر دے تو ٹھیک ورنہ اپنا تمام سرمایہ وہ قومی خزانے میں جمع کرا دیں ۔ ایک شرط یہ بھی ہو سکتی ہے : قانون کی بالاتری تسلیم کرنے والے معاشروں میں حکمران کاروبار نہیں کیا کرتے ؛چنانچہ شریف خاندان کاروبار منجمد کر دے۔ اس پر یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ تھانیدار اگر اپنے علاقے میں ہوٹل کھول لے تو دوسرے لوگ اس کامقابلہ نہیں کر سکتے ۔عمران خان پسند کریں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی ماحول کو خوشگوار اور قابلِ قبول بنانے کے لیے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف مستعفی ہو جائیں۔ ''بادشاہت نہیں یہ جمہوریت ہے ۔ شریف خاندان کا شعار قوم کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کہ ایک بھائی وزیرِ اعظم اور دوسرا وزیرِ اعلیٰ ہو ۔مزید برآں عدالتی حکم پر بادلِ نخواستہ وزیرِ اعظم کی صاحبزادی 100ارب روپے کے منصوبے سے دستبردارہوئی ہوں‘‘۔ اگر چاہیں تو ایک اور مطالبہ بھی کر سکتے ہیں ۔ اوّل یہ ضمانت دی جائے کہ آئندہ حکمران خاندان کے شہزادے اور
شہزادیاں سیاست سے لاتعلق رہیں گی ، جس طرح کہ جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ ''میاں صاحب اعلان کریں کہ آج کے بعد محترمہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کسی سرکاری افسر کو طلب نہ کریں گے ۔ اپنے ہاں کسی اجلاس میں مدعو نہ کریں گے ۔ کوئی حکم صادر نہ کریں گے۔ کسی کی سفارش نہ کریں گے ۔ ٹیلی فون تک نہ کریں گے‘‘۔
کچھ اور شرائط یہ ہو سکتی ہیں ۔ ترقیاتی منصوبے خاندان اور پارٹی کے سیاسی مفادات نہیں بلکہ عوامی مفاد میں بنائے جائیں گے ۔ اس کے لیے مرکز اور صوبوں میں کمیٹیاں قائم کی جائیں گی‘ سرکاری پارٹی کے علاوہ ، جن میں اپوزیشن کے ارکان ،پیشہ ور ماہرین اور غیر متنازع معزز شہری شامل ہوں گے ۔ خاندان کے علاوہ رشتہ داروں کو ٹکٹ جاری نہیں کیے جائیں گے ۔ کشمیری برادری کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : قومِ چرب دست و تر دماغ ؛لہٰذا ٹکٹوں اور وزارتوں کی تقسیم میں ان کا حصہ زیادہ ہوگا مگر آبادی کے تناسب سے صرف پچاس فیصد زیادہ‘ دوسروں میں تاکہ احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ سرکاری افسروں کے تقرر میں میرٹ کا خیال رکھا جائے گا۔فواد حسین فواد ایسے افسروں کے بغیر میاں صاحب اگر آسودہ نہیں رہ سکتے تو ان کا تناسب طے کر لیا جائے ۔
ممکن ہے ، عمران خان یہ شرط عائد کرنا بھی پسند کریں کہ حکومت سرکاری خزانے کا بڑا حصہ وسطی پنجاب کے لیے مختص نہ کرے گی۔ آئندہ پوٹھوہار اور جنوبی پنجاب کو نظر انداز نہ کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ میں دوسرے صوبوں کی نمائندگی بھی ہوگی ۔ ممکن ہے ، وہ یہ بھی تجویز کریں : جناب اسحٰق ڈار کی بجائے ، زہد و تقویٰ کے علاوہ جن کا بنیادی اعزاز شریف خاندان سے قریبی رشتہ و تعلق ہے اور جو ماہرِ معیشت کی بجائے اکائونٹنٹ ہیں ، سندھ ، بلوچستان یا پختون خوا کے کسی رکنِ اسمبلی کو خزانہ سونپ دیا جائے ۔ ڈار صاحب کا سرمایہ پاکستان سے زیادہ دبئی میں پڑا ہے اور قوم کے ساتھ یہ بے وفائی ہے ۔
عمران خان ایک سرپھرے آدمی ہیں ۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا تعاون درکار ہے تو میاں محمد نواز شریف ان مہ و سال کے لیے قوم سے معافی مانگیں ، جب فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی گود میں وہ پروان چڑھ رہے تھے ۔اتفاق فائونڈی پر حاصل کردہ قرض کی پندرہ سال بعد واپسی پر قوم سے معافی مانگیں ۔
شرائط تجویز کرتے ہوئے، جناب پرویز رشید نے جو کچھ کہا ، اس کاخلاصہ یہ ہے : عمران خاں نے ڈھونگ رچایا ہے ۔وہ قتل و غارت گری کے مرتکب ہیں ۔ ان کے پارٹی لیڈروں میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں ، جنہیں برطرف کر دینا چاہیے۔ چار کا ایک ٹولہ ایسا بھی ہے ، ہر طرح کے گھنائونے حربوں پر جو یقین رکھتاہے ۔ عمران خان اس کے ساتھ ہم آہنگ اور آسودہ ہیں ۔
شیریں مزاری ایک عدد جواب داغ سکتی ہیں ۔ 1...، خیر چھوڑیے ۔ ایک اخباری کالم زیادہ سے زیادہ کتنی مضحکہ خیزی اور کس قدر تلخ نوائی کا متحمل ہو سکتاہے ۔ حکمران طبقات کی ان بے کراں عنایات کے طفیل ، جن کاسلسلہ قائد اعظم ؒ کی وفات کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا، عام آدمی کے اعصاب پہلے ہی چٹخ رہے ہیں ۔ اس پر کمال یہ کہ پرویز رشید سب سے بڑی پارٹی اور شیریں مزاری اس سے بھی بڑی پارٹی کی ترجمان ۔الامان والحفیظ!
میاں شہباز شریف نے لاکھوں ٹن لوہا اور لاکھوں ٹن سیمنٹ راولپنڈی اور اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں پر لاد دیا ہے ۔ واقفانِ حال کے مطابق حکم ان کا یہ تھا کہ میٹرو بس کے لیے بنائے گئے ڈھانچے زیادہ سے زیادہ نمایاں ہو ں ۔جڑواں شہروں کا حسن برباد ہوا۔ مری روڈ اور بلیو ایریا کی طرف جاتے ہوئے جی متلانے لگتا ہے۔ ان ڈیڑھ لاکھ افراد کو سفری سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ، جنہیں یہ سہولت پہلے ہی حاصل تھی ۔ 80ارب روپے ضائع کیے بغیر ۔
معلوم صدیوں میں اس خطہ ء ارض نے کیسے کیسے حکمران گوارا کیے ۔ قحط، سیلاب، خانہ جنگیاں ، کیسے کیسے عذابوں میں ہمارے اجداد سلامت رہے ۔ میٹرو بس ، شیریں مزاری اور پرویز رشید کون سا بڑا امتحان ہیں ۔
کبھی کبھی البتہ یہ آرزو تڑپ اٹھتی ہے ۔ کاش کسی ایک دن الطاف حسین ، عمران خان ، پرویز رشید، میاں محمد شہباز شریف ، شیخ رشید اور شیریں مزاری خاموش رہیں ۔ پورا دن خاموش ! کاش کبھی وہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں ۔ اے کاش!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں