"HRC" (space) message & send to 7575

بادِ شمال

اپنا سامنا جو نہیں کر سکتے‘ حیات کبھی انہیں ثمر بار نہیں کرتی۔ اپنی مدد جو خود نہیں کرتے‘ کوئی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔
نون لیگ مکمل طور پر ایک بے داغ فتح بھی حاصل کر سکتی تھی۔ اپنا گورنر لگائے بغیر‘ نئے اضلاع‘ اربوں کے ترقیاتی منصوبوں اور بے نظیر فنڈ کی رقوم تقسیم کیے بغیر۔ شاید اتنی ہی نشستیں۔ جیسا کہ نتائج سے آشکار ہے‘ پیپلز پارٹی سے لوگ ''نکو نک‘‘ تھے۔ سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ ملازمتیں بیچی گئیں‘ انہیں‘ جو صدیوں سے غربت کا شکار ہیں۔ آزادی کی جنگ‘ جنہوں نے خود لڑی‘ پھر کمال جوش و جذبے‘ انس اور الفت کے ساتھ پاکستان کا انتخاب کیا۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے‘ زیادہ نہیں تو چھ سات سیٹیں وہ بھی لے جاتی۔ ہمیشہ کی طرح مگر اس نے تاخیر کردی۔ اپنی کرشماتی شخصیت اور فرقہ وارانہ مسائل پر اپنے مؤقف کی وجہ سے وہ نون لیگ سے بھی زیادہ قابلِ قبول تھی۔
جس چیز نے حکمران پارٹی کے لیے‘ ایک لہر اٹھا دی‘ ظاہر ہے کہ وہ مرکز کی طرف ان علاقوں کا رجحان ہے‘ آزاد کشمیر کی طرح‘ جہاں خیال ہے کہ اگلے برس ملتے جلتے نتائج ہوں گے۔ میرپور میں امکان ہے کہ معاملہ مختلف ہوگا۔ بیرسٹر سلطان محمود کی برادری ڈٹ کر ان کا ساتھ دیتی ہے۔ دوسرے اضلاع میں نون لیگ زیادہ مؤثر ہے‘ پھر پنجاب میں اس کی حکومت ہے اور مہاجرین کی دو تہائی نشستیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ الیکشن لڑنے کا ہنر وہ جانتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بھی پیچیدہ سائنس نہیں۔ عمران خان کے ساتھیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں‘ ان فنون کے جو ماہر ہیں مگر وہ پچھلی صفوں میں ہیں۔
منڈی بہائوالدین کے الیکشن سے بھی یہ نکتہ آشکار ہے۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اعجاز چودھری اپنے بل پر جیتے تھے۔ ووٹروں سے ان کا رابطہ اس قدر گہرا ہے کہ ملک میں ایسی چند ہی مثالیں ہوں گی۔ ضمنی انتخاب میں برسر اقتدار گروہ کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اعجاز چودھری کے مشورے سے امیدوار کا انتخاب کیا جاتا تو ان کے اسی ہزار حامیوں کے علاوہ تحریک انصاف کے ووٹر بھی بروئے کار آتے۔ کہا جاتا ہے کہ ممتاز تارڑ تامل کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اعجاز چودھری اور کپتان کا اشتراک فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طوفان سا اٹھے گا۔ اس طوفان کا امکان خود تحریک انصاف نے ختم کردیا۔ تاخیر سے عمران خان کو احساس ہوا۔ وہ چودھری کے ہاں گئے اور ان سے مدد مانگی۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ ووٹ لے کر طارق تارڑ اگر جیت جاتے؟ ظاہر ہے کہ اعجاز چودھری کی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا۔ اس لیے بھی کہ شاہ محمود کی سرپرستی اس آدمی کو حاصل ہوتی۔ ہمیشہ وہ اپنا دھڑا بنانے پر تلے رہتے ہیں۔
عام لوگوں سے دو اڑھائی فٹ اونچے‘ غیر معمولی صحت مندی کے حامل معدی کرب کو‘ جس پر اگلی صدیوں میں سینکڑوں افسانے لکھے گئے‘ عمر فاروق اعظمؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کی خدمت میں روانہ کیا تو یہ لکھا: ایک ایسا آدمی آپ کے پاس بھیج رہا ہوں‘ جو ہزار کے برابر ہے مگر اسے ایک آدمی کی کمان بھی نہ دینا۔ شاہ محمود ٹیم کے کھلاڑی نہیں۔
غلام سرور خان ٹیم کے کھلاڑی ہیں۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ نرم گفتار اور سادہ اطوار ہیں مگر گلگت بلتستان کو وہ سمجھتے نہیں۔ ''لکل عمل رجال‘‘۔ ہر کام کے لیے مردانِ کار ہوتے ہیں۔ خیرخواہوں نے یہ کپتان کو بتا دیا تھا۔ اس سے بہت پہلے‘ اڑھائی تین سال قبل یہ مشورہ اسے دیا گیا تھا کہ ابھی سے اس خطے اور آزاد کشمیر کے لیے تیاری کا آغاز کردے۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ تاخیر کرنے والا طالب علم کمرۂ امتحان میں بوکھلاہٹ کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ جتنا وہ جانتا ہے‘ اتنا بھی رقم نہیں کر سکتا۔
صبح سویرے سے کارکنوں کے پیغامات چلے آتے ہیں۔ انہیں سمجھایئے۔ انہیں سمجھانے والے بہت سے لوگ ہیں‘ جو اس ناچیز سے زیادہ جانتے ہیں۔ زیادہ سلیقہ مندی کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔ ہم اپنا فرض ادا کر چکے۔ بھینس کے آگے کب تک کوئی بین بجا سکتا ہے۔
الحمدللہ‘ دیدہ تر میں شبنم ابھی باقی ہے۔ مگر جو دریائوں کو نہ دیکھ سکیں‘ شبنم سے انہیں کیا دل چسپی؟
گلگت بلتستان کا الیکشن ہر ایک پہلو سے دل شاد ہے۔ دو تین دن سے‘ ہر ایک چینل اس خطۂ ارض کے ذکر سے معمور ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی طور پر دشوارگزار علاقے کے باسیوں کو باقی ملک سے اس عمل نے جوڑ دیا اور یہ سلسلہ اب جاری رہے گا۔ یہ جمہوری عمل کے روشن ترین پہلوئوں میں سے ایک ہے۔ فوجی حکومتوں کے جو لوگ آرزو مند رہتے ہیں‘ انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
نون لیگ کی فتح میں اس کے مقامی لیڈر حفیظ الرحمن کا کردار بھی ہے۔ اچھے اور برے وقتوں میں وہ اس سے وابستہ رہے۔ ذہین آدمی ہیں اور متحرک بھی۔ ایک پیدائشی سیاستدان۔ وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ ایک قومی پارٹی کے ابھر آنے سے‘ فرقہ واریت پہ ضرب لگی ہے۔ نون لیگ نے اگر کسی بڑی حماقت کا ارتکاب نہ کیا تو شمال کے باسیوں میں ملک کی محبت فزوں تر ہوتی جائے گی۔ اقتصادی راہداری معاشی ماحول کو یکسر بدل سکتی ہے۔ اگرچہ اس میں دو اندیشے ہیں۔ روٹ پر قومی اتفاق‘ خوش قسمتی سے‘ جس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے‘ ثانیاً شفافیت‘ جس کی اہمیت کا ادراک شریف خاندان کو کم ہے۔
افسوس کہ آخری مرحلے میں بعض نے فرقہ واریت کا کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس طرح کی کوششیں کچھ زیادہ کامیاب نہ رہیں۔ سبق اس کا یہ ہے کہ سیاسی عمل جاری رہے تو تعصبات تحلیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کراچی کے لیے بھی مضمون واحد ہے۔ تشدد کی حوصلہ شکنی اور سیاسی عمل کی حوصلہ افزائی۔ ایک پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ اگر ایسا ہو سکے تو کوئی نریندر مودی اور کوئی ''را‘‘ پاکستان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ جنرل راحیل شریف نے ٹھیک کہا: بھارت سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندہ اور بیدار رہنے کے لیے افراد کی طرح اقوام کو بھی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ غیر معمولی چیلنج ہی میں بہترین صلاحیت بروئے کار آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نفرت کی آبیاری کی جائے۔ دوستی کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے اور چوپٹ کھلا۔ بات دلیل کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ دلوں اور دماغوں کو مخاطب کرتے رہنا چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقوام کی دشمنیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ مرعوب البتہ نہ ہونا چاہیے اور معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے۔ بھارت کی بربادی کا خواب دیکھنے کی بجائے‘ اپنا گھر آباد کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ بھارت میں بھی انسان بستے ہیں اور ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتے ہیں۔ آخرکار محبت ہی غالب آتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کا راستہ یہی ہے۔ ان کی بات دوسری ہے‘ عصبیت اور نفرت کو جنہوں نے عقیدہ بنا لیا ہے۔ پھر ایک مخلوق وہ ہے‘ جو دل سے پاکستان کی قائل ہی نہیں۔ معاشی حیوان جو قوم کی تشکیل میں عقائد کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے۔
تیرہ عدد پاکستانیوں کو بنگلہ دیش وہ ایوارڈ عطا کر چکا‘ جو اب اس نے نفرت فروش نریندر مودی کو بخشا ہے۔ ان میں سے بعض کا رویہ اب معذرت خواہانہ ہے۔ اگر وہ واقعی شرمندہ ہوں تو ان کی معذرت قبول کر لینی چاہیے۔ واقعی شرمندہ۔
دشمن سے نہیں‘ اپنے آپ سے ہمیں خطرہ لاحق ہے۔ ہزار پارہ مسلمانی‘ فراریت پسندی میں مبتلا کر کے خود تنقیدی کی راہ روکتی ہے۔ اپنا سامنا جو نہیں کر سکتے‘ حیات کبھی انہیں ثمر بار نہیں کرتی۔ اپنی مدد جو خود نہیں کرتے‘ کوئی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں