پاکستان اللہ کے نام پر بنایا گیا اور وہ اس کی حفاظت کرے گا۔ یہ مگر یاد رہے کہ اس کے قوانین کبھی بدلتے نہیں اور سرکشوں کو وہ معاف نہیں کیا کرتا۔
نہیں معلوم، لوگ زرداری صاحب سمیت کھرب پتی سیاست دانوں کو دانا کیوں سمجھتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس جملے نے حیرت زدہ کیے رکھا: تین برس بعد آپ چلے جائیں گے۔ ہم ہمیشہ رہیں گے۔ ہمیشہ کون رہتا ہے؟
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
خطاکاروں کو وہ بخش دے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے، اگر وہ اعتراف کر لیں، روئیں اور تلافی کی کوشش کریں۔ کبریائی اس کی چادر ہے اور دعویٰ اسے ناپسند ہے۔ اس کی بارگاہ میں صرف عاجزی اور خلوص کے سکّے قبول ہیں۔ لافانی عظمت کی اس رات، شبِ معراج ختم المرسلین کی بجائے آپؐ کو بندہ کہا گیا۔ ''لے گیا وہ اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدِ اقصیٰ‘‘ آدمی کی معراج یہ ہے کہ جھک جائے۔ محمد علی جناح جھک جایا کرتے تھے۔ پروردگار کی یاد آتی تو کھڑے کھڑے سجدے میں چلے جاتے۔ کئی بار کہا، مالک کی رضا کے سوا کسی چیز کا میں آرزومند نہیں۔
زرداری صاحب کو ادراک ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کیا۔ بھارتی سازشوں کا ذکر خود کیا مگر تان اپنی ذات پہ توڑی۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی افواجِ پاکستان کو نہیں، انہوں نے پاکستان کو دی ہے۔ نتیجہ وہی نکلا، جو نکلنا تھا۔ قاف لیگ شتابی سے دور جا کھڑی ہوئی۔ نون لیگ نے دامن چھڑا لیا۔ میڈیا نے مسترد کر دیا۔ متحدہ نے مذمت سے گریز کیا کہ خود رحمی اور خود ترسی میں مبتلا ہے۔ رہے مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی تو وہ سخت گیر سودے باز ہیں، جو ہمیشہ تائید کی قیمت مانگتے ہیں۔ اکّا دکّا اگر کسی نے نرمی کا مظاہرہ کیا تو فقط یہ کہ سب اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے... اور یہ بات بالکل درست ہے۔
اپنی مرکزی مجلسِ عاملہ کی تائید زرداری صاحب نے حاصل کر لی مگر کس طرح؟ اجلاس کے ان شرکاء سے، جو مناصب کے لیے ان کے محتاج ہیں، التجا کی گئی کہ وہ اختلاف نہ کریں۔ یہ تائید ادھوری ہے۔ مخدوم امین فہیم شریک نہ تھے۔ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی نے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی۔ فقط فرحت اللہ بابر اور احمد مختار پُرجوش تھے۔ احمد مختار ہوش و خرد سے کم ہی کام لیتے ہیں۔ فرحت اللہ میں وفاداری کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ نواز شریف ہی نہیں، کپتان نے بھی بات کرنے سے گریز کیا۔ نون لیگ کے مشاہداللہ خاں کا لہجہ رینجرز حکام سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ وزراء سے میاں صاحب نے کہہ دیا تھا کہ فوج کا دفاع کریں۔ انداز، لہجہ اور زاویہء نگاہ ہر ایک کا اپنا ہوتا ہے۔ چوہدری نثار علی خاں کسی سے پوچھے بغیر بروئے کار آئے۔ خواجہ آصف بات کو پا گئے ہیں۔ پارٹی پالیسی اپنی جگہ، مشاہداللہ کا طرزِ احساس ایک عام پاکستانی کا طرزِ احساس ہے۔ کراچی کے متعدد تاجروں نے آرمی چیف کو پیغامات بھیجے ہیں کہ وہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں سے نالاں ہیں۔ الطاف حسین نے اس لیے بھی تاجروں کی فہرست بنانے کی دھمکی دی۔
پاکستانی قوم فوج سے محبت کرتی ہے۔ بجا طور پر فعال طبقات یہ چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار نہ سنبھالے؛ با ایں ہمہ ان کی بہت کم امیدیں سیاستدانوں سے وابستہ ہیں۔ چرب زبان اور وعدہ فروش۔ سالِ گذشتہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ذاتی تشہیر پر پچاس کروڑ روپے اڑا دیے گئے۔ یہ بجٹ کے اعداد و شمار ہیں۔ جس دن پلائو پکے، گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم ''سپلی‘‘ مانگا کرتے۔ خادمِ پنجاب پچاس کروڑ کا پلائو کھا گئے۔
زرداری صاحب کرپشن کا لائسنس مانگ رہے ہیں۔ قبائلی پٹی، بلوچستان، کراچی اور بھارتی سرحد پہ آگ بھڑک رہی ہے۔ حتمی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں مگر میرا ذریعہ قابلِ اعتماد ہے۔ چند روز قبل جنگ ہمیں چھو کر گزر گئی۔ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے درمیان براہِ راست رابطہ رہا کرتا ہے کہ غلط فہمی میں جنگ نہ چھڑ جائے۔ نریندر مودی کے بعد ان کے وزرا دھاڑے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کی۔ پاکستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے بھارتی ہم منصب کو فون کیا: ہم جانتے ہیں، آزاد کشمیر میں آپ کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسا ہوا تو جنگ کشمیر تک محدود نہ رہے گی۔ ہم اپنے تمام وسائل اور مواقع استعمال کریں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ امریکیوں کو اپنے طور پر علم ہو گیا، بھارتی افواج میں جن کی موجودگی ہے۔ جان کیری نے دونوں وزرائِ اعظم سے رابطہ کیا۔ نریندر مودی نے وزراء کو بیان دینے سے روکا اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو فون کیا۔
بھارت کو عددی برتری حاصل ہے مگر پاک فوج جنگ کی بھٹی سے گزری ہے۔ اس کے پاس ایسی کچھ چیزیں بھی ہیں، بھارتی فی الحال جن کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نہیں مگر بھارتی معیشت بھی جنگ کی متحمل نہیں۔ سرحدوں پر گولہ باری کے ہنگام پاکستانی فوج نے واضح کر دیا کہ ہرگز وہ کمزور ی کا مظاہرہ نہ کرے گی۔ زرداری صاحب کا طرزِ عمل دشمن کو شہ دینے کے مترادف ہے۔ عسکری قیادت نے دانائی یہ کی کہ ''را‘‘ کے منصوبے واشگاف کر دیے۔ یوں بھارت کے خلاف قومی اتحاد کی فضا پیدا ہوئی، زرداری صاحب نے جسے پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
رینجرز کی بہترین کاوشوں کے باوجود کراچی اب بھی خون آلود ہے۔ پولیس افسروں کو قتل کرنے کی مہم کس نے مرتب کی؟ فرقہ پرستوں کا پشت پناہ کون ہے؟ پوری تحقیق اور موزوں اعداد و شمار کے ساتھ رینجرز نے برسوں میں پروان چڑھنے والی جنگی معیشت پر رپورٹ مرتب کی ہے۔ وزیرستان کی طرح کراچی میں بھی ہزاروں آدمی بھتّہ خوری، سمگلنگ، زمینوں پر قبضے، اسلحے، منشیات کی تجارت اور قتل و غارت پہ پلتے ہیں۔ کیا یہ قوم اجازت دے سکتی ہے کہ جمہوریت اور آئین کے نام پر، اٹھارویں ترمیم کا غلغلہ مچاتے ہوئے قتلِ عام جاری رہے۔
زرداری صاحب نے عملاً بھارتیوں کی مدد کی ہے۔ ان عرب ریاستوں کی بھی، جو کراچی کے استحکام، گوادر اور اقتصادی راہداری کے امکانات سے پریشان ہیں۔ کون سے ممالک ہیں، چین سے پاکستان کی قربت جنہیں خوش نہیں آتی؟ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض زرداری صاحب کی پیٹھ تھپتھپائیں۔ پاکستان بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ ہے۔ خطرناک حالات میں عسکری قیادت نے امریکہ اور برطانیہ، روس اور چین سے بامعنی مذاکرات کے ذریعے توازن قائم کرنے اور اقتصادی فروغ کے چشمے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چینی قیادت کو ادراک ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اس کی کمزور معیشت ہے۔ اسی لیے بھارت سر پہ چڑھا چلا آتا ہے۔ صرف طالبان اور فرقہ پرست تنظیمیں ہی نہیں، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی پاکستانی معیشت کو مجروح کرنے کی ذمہ دار ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا کہ نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود قومی ترجیحات پر تعاون برقرار رکھا۔ زرداری صاحب نے طوفانی پانیوں میں منزل کی طرف بڑھتی کشتی میں سوراخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناقابلِ معافی ہے۔
ایسے لیڈروں کے ہاتھ میں ملک یرغمال ہے، جن کا سرمایہ کئی براعظموں میں پھیلا ہے۔ ایک نہیں، ان کے کئی وطن ہیں۔ وہ توبہ کریں، باز آئیں اور زندہ رہیں۔ کب تک یہ قوم ان کی خرمستیاں برداشت کرتی رہے گی؟ فوجی قیادت کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ خطرناک حالات میں حکمت ہی سے اندمال ممکن ہے۔ مجرموں پر البتہ اسے پوری قوت سے ہاتھ ڈالتے رہنا چاہیے۔
پاکستان اللہ کے نام پر بنایا گیا اور وہ اس کی حفاظت کرے گا۔ یہ مگر یاد رہے کہ اس کے قوانین کبھی بدلتے نہیں اور سرکشوں کو وہ معاف نہیں کیا کرتا۔